• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آسام کے ۴۰؍ لاکھ لوگوں کے بارے میں معتدل فیصلہ

Updated: October 25, 2024, 1:30 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس فیصلے سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ جو جہاں ہے وہاں سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے رہائش پذیر رہے اور رہائش کے اپنے ثبوت کو سنبھالتا رہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مودی حکومت میں  ہی ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے ذریعہ یہ بات ازسر نو طے ہوئی تھی کہ کون سا علاقہ، گاؤں  یا بستی ہندوستان کی ہے اور کون سی بنگلہ دیش کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ۱۹۴۷ء کی تقسیم اور ۱۹۷۱ء میں  قیام بنگلہ دیش کے بعد بھی ایسے کئی علاقے تھے جہاں  کے لوگوں  کو معلوم ہی نہیں  تھا کہ وہ جس علاقے یا بستی کے شہری ہیں  وہ ہندوستان کا حصہ ہے یا بنگلہ دیش کا۔ ایسے میں  بعض لوگوں  کا اس مغالطے میں  ہندوستانی علاقوں  میں  آنا، بسنا یا کاروبار کرنا خلاف توقع نہیں  تھا کہ وہ اپنے ملک کی سرحد میں  ہیں ۔ بنگلہ دیش کی سماجی اور معاشی حالت کی وجہ سے بھی کافی لوگ ہندوستان آ بسے کہ انہیں  یہاں  کاروبار کے مواقع حاصل تھے۔ مغرب کے ملکوں  میں  بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ اصل میں  یہ انسانی مسئلہ ہے انسان ان علاقوں  میں  اپنا آشیانہ بنا لیتا ہے جہاں  اس کو جان بچانے، برسر روزگار ہونے اور ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ انسانی مسئلہ کا حل انسانی نقطۂ نظر سے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ آسام میں  ۱۹۷۱ء کو جب سال انقطاع (کٹ آف ایئر) تسلیم کیا گیا تھا تو یہی جذبہ کار فرما تھا۔ معاہدہ سے بات صاف ہوگئی تھی کہ جو لوگ ۱۹۷۱ء سے پہلے آسام میں  آکر بس چکے ہیں  وہ آسام یعنی ہندوستان کے شہری ہیں ۔ جب ہندوستان اور بنگلہ دیش میں  ہندوستانی اور غیر ہندوستانی علاقوں  کی شناخت اور ملکیت کا معاہدہ ہوا تو یہ بھی طے کر لیا جانا چاہئے تھا کہ ہندوستان کے علاقے کو بنگلہ دیش کا یا بنگلہ دیش کو ہندوستان کا علاقہ سمجھ کر وہاں  رہنے یا کاروبار کرنے والوں  کا کیا ہوگا؟ مگر ایسا شاید نہیں  ہوا۔
 اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ہندوستان کے بعض خطوں  خاص طور سے آسام میں  کشیدگی بڑھتی گئی۔ سیاسی اتھل پتھل کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ نے تین باتیں  کہیں ۔ پہلی یہ کہ آسام میں  ۴۰؍ لاکھ غیر ملکی رہ رہے ہیں  دوسری یہ کہ مغربی بنگال میں  ایسے لوگوں  کی تعداد ۵۷؍ لاکھ ہے اور تیسری بات یہ کہ آسام میں  ۴۰؍ لاکھ غیر ملکیوں  کی موجودگی مغربی بنگال کے ۵۷؍ لاکھ غیر ملکیوں  کے مقابلے زیادہ سنگین اس لئے ہے کہ آسام میں  زمین کم ہے۔ اس فیصلے سے ہمیں  یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے اور اس کا حل نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں ، حوالوں  اور سیاق و سباق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس فیصلے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ آسام میں  کن لوگوں  کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں  ہے۔ کن لوگوں  کو شہریت حاصل ہوسکتی ہے اور کن لوگوں  کو غیر قانونی طور پر ہندوستان میں  رہنے والوں  کی صورت میں  پہچان کر واپس بھیجنا ہے۔ اس فیصلے سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ قانون کے ماہرین کسی قانون کی تشریح کرتے ہوئے دو باتیں  ضرور دیکھتے ہیں ۔ پہلی یہ کہ قانون کب اور کن حالات میں  نافذ ہوا اور دوسری یہ کہ اس قانون سے آبادی کے وسیع تر حلقے کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں ؟ سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کے پانچ میں  سے چار ججوں  نے تسلیم کیا کہ آسام میں  غیر قانونی طور پر جو گھس پیٹھ کی گئی تھی اور اس سے جو مسئلہ پیدا ہوا تھا اس کو حل کرنے کے لئے حکومت ہند نے معاہدہ کیا تھا۔ یہ اس کا حق تھا۔ معاہدہ کیا جانا سیاسی عمل تھا اور شہریت قانون کی دفعہ 6A اس معاہدے کے قانون پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے یہ آئینی حیثیت کی حامل ہے اور اس کو غیر دستوری یا غیر آئینی نہیں  قرار دیا جاسکتا۔
 دوسری ریاستوں  میں  بھی اس کے نفاذ پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ذہن میں  آتا ہے کہ قانون یا قانون کی کوئی دفعہ اگر ایک ریاست کے لئے دستوری ہے تو دوسری ریاستوں  کے لئے بھی اس کی وہی حیثیت ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کسی دوسری ریاست میں  ایسے کسی مسئلے نے اتنی سنگین صورت اختیار ہی نہیں  کی تھی۔
 میری نظر میں  تو یہ بہت جامع فیصلہ ہے اور ہر شخص کو تلقین یا یاددہانی کرتا ہے کہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے جذباتی یا یکطرفہ انداز نہیں  اختیار کیا جانا چاہئے اور فیصلہ دینے والوں  کے لئے بھی ضروری ہے کہ حساس مسائل میں  عجلت کا مظاہرہ نہ کریں ۔ اس فیصلے سے یہ تو ثابت ہو ہی گیا کہ آسام میں  گھس پیٹھ کرنے والوں  کی تعداد کروڑوں  میں  نہیں  ہے اور جو چند لاکھ افراد غیر قانونی طور پر ہندوستان میں  رہ رہے ہیں  ان میں  صرف ایک مذہب کے لوگ نہیں  ہیں ۔ فیصلے میں  یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دیگر ریاستوں  میں  بھی پڑوسی ملکوں  کے لوگ رہ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش جہاں  سے آکر آسام اور بنگال میں  بس جانے والوں  کی طرف اشارہ ہے، کبھی مشرقی پاکستان کبھی مکتی باہنی کا مرکز اور اب بنگلہ دیش ہے۔ مشرقی پاکستان ۱۹۴۷ء کے بعد وجود میں  آیا اور بنگلہ دیش کا قیام ۱۹۷۱ء یا ۱۹۷۲ء میں  عمل میں  آیا۔ اس سے پہلے مکتی باہنی کے لوگوں  کو ہم ہندوستانیوں  نے خود اپنی آغوش میں  لیا تھا، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان سرحدوں  کا تعین مودی جی کے دور اقتدار میں  ہوا۔ ایسے میں  کچھ لوگوں  یا ایک طبقے کا ہندوستان میں  بس جانا یا پناہ لے لینا تعجب کا باعث نہیں  ہے۔ بے شک جو غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں  انہیں  ہندوستان سے جانا ہوگا مگر یہ بھی تو دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کب سے ہندوستان میں  رہ رہے ہیں  اور کیسے ہندوستان میں  داخل ہوئے۔

یہ بھی پڑھئے: ہریانہ اور جموں کشمیر انتخابی نتائج اور بہار کی سیاست

 سپریم کورٹ کا فیصلہ انہیں  سوالوں  کا جواب ہے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ۱۹۶۸ء سے پہلے آئے ہوئے لوگ ہندوستانی ہیں ۔ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۸۵ء کے درمیان یہاں  بسنے والے ہندوستان کی شہریت لینے کے مجاز ہیں  اور اس کے بعد کے لوگوں  کو ان ملکوں  میں  جانا ہوگا جہاں  سے وہ خود آئے یا لائے گئے ہیں ۔ ۱۹۷۱ء، ۱۹۶۸ء اور ۱۹۸۵ء کے درمیان ہے جس کو آسام معاہدہ میں  سال انقطاع تسلیم کیا گیا تھا۔ اس فیصلے سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ جو جہاں  ہے وہاں  سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے رہائش پذیر رہے اور رہائش کے اپنے ثبوت کو سنبھالتا رہے۔ یہ دور ڈاکیومینٹشن کا ہے اور بدقسمتی سے ہندوستان میں  ڈاکیومینٹیشن تیار کرنے اور سنبھالنے کا سلسلہ بہت کمزور ہے۔ اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے، اپنے گھر جائیداد اور اوقات کا ڈاکیومینٹیشن بہت ضروری ہے۔ اسی لئے مَیں  نے عرض کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جامع اور معتدل ہے۔ یہ ہمیں  ہماری ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK