• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

Updated: September 14, 2024, 1:30 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہندی اور اُردو کہئے یا اُردو اور ہندی، دونوں اسی مٹی سے پیدا ہونے والی دو ایسی زبانیں ہیں جنہیں سگی بہنیںکہا جاسکتا ہے مگر اس پر غور ہونا چاہئے کہ ان میں دوریاں ہیں یا قربت، ’’سگاپن‘‘ ہے یا سوتیلا پن؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آج ہندی دِوس ہے اور اسی مناسبت سے ایک ہندی نظم ملاحظہ فرمالیجئے پھر آگے بڑھتے ہیں ۔ اس کا عنوان ہے ’’میرے بیٹے!‘‘
’’میرے بیٹے، کبھی اتنے اونچے مت ہونا کہ کندھے پر سر رکھ کر کوئی رونا چاہے تو اسے لگانی پڑیں  سیڑھیاں / نہ کبھی اتنے بدھی جیوی کہ محنت کشوں  کے رنگ سے الگ ہوجائے تمہارا رنگ /  اتنے عزت دار بھی نہ ہونا کہ منہ کے بل گرو تو آنکھیں  چرا کر اُٹھو /  نہ اتنے تمیز دار ہی کہ بڑے لوگوں  کی نافرمانی نہ کرسکو کبھی /  نہ اتنے ستھرے ہی ہونا کہ محنت سے کمائے کالر کا میل چھپاتے پھرو محفل سے /  اتنے دھارمک مت ہونا کہ ایشور کو بچانے کیلئے انسان پر اُٹھ جائے تمہارا ہاتھ /  نہ کبھی اتنے دیش بھکت کہ کسی گھائل کو اُٹھانے کو جھنڈا زمین پر نہ رکھ سکو / کبھی اتنے استھائی مت ہونا کہ کوئی لڑکھڑائے تو انجانے ہی پھوٹ پڑے ہنسی /  اور نہ کبھی اتنے بھرے پرے کہ کسی کا پریم میں  بلکنا اور بھوک سے مر جانا لگنے لگے گلپ‘‘۔
  یہ کویتا عصر حاضر کی جس تخلیق کار کے زور قلم کا نتیجہ ہے اُس کا نام بھی کویتا ہی ہے۔ کویتا کادمبری۔ ان کا تعلق نئی نسل کے قلمکاروں  سے ہے۔ وطن مدھیہ پردیش کا مشہور شہر اُجین ہے۔ 
 ہندی دِوس پر مجھے یہ بتانے میں  کوئی سنکوچ نہیں  ہوتا کہ مَیں  روزانہ جتنی دیر اُردو شاعری پڑھتا ہوں  کم و بیش اُتنی ہی دیر ہندی شاعری کا بھی جائزہ لیتا ہوں ۔ وجہ اس کی یہ جاننے کا اشتیاق ہے کہ معاصر ہندی شعراء کیا سوچ رہے ہیں ، کیا محسوس کررہے ہیں  اور کیا لکھ رہے ہیں ۔ کویتا کادمبری کی مندرجہ بالا نظم میں  زمانے کے طور طریقوں  پر گہرا طنز ہے، کہ اس دور میں  انسان اپنی تہذیب اور اپنی قدروں  کو بھول کر ایک ایسے مصنوعی جہان میں  سانس لے رہا ہے جہاں  وہ اپنی خصوصیات سے عاری ہوتا جارہا ہے اور ایسی خصوصیات کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے جن کے سہارے وہ نہ تو زیادہ دیر چل سکتا ہے نہ زیادہ دور تک جاسکتا ہے۔ اسی لئے ایک ماں  اپنے بیٹے کو کچھ نصیحتیں  کررہی ہے کہ اُسے کیسی زندگی گزارنی چاہئے اور کون سی باتیں  اپنانی چاہئیں  جو اُسے حقیقی کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں ۔ اس پس منظر میں  اُردو معاشرہ کی ماؤں  کا تصور کیجئے، کیا وہ بھی اپنے بچوں  کوکچھ ایسی ہی باتیں  نہیں  سکھانا چاہتیں ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں  ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ احساسات اور جذبات کی سطح پر دونوں  جانب کی ماؤں  اور خواتین میں  کوئی فرق نہیں  ہے، کوئی بُعد اور دوری نہیں  ہے، تو پھر سماجی اور معاشرتی سطح پر اتنی دوریاں  کیوں  ہیں ؟
  یہ غور طلب مسئلہ ہے۔ صرف خواتین نہیں  مردوں  کا بھی یہی حال ہے۔ دونوں  جانب کے لوگوں  نے اپنے آس پاس ایسا حصار کھینچ لیا ہے کہ شاذ و نادر ہی ملتے ہیں  اور گفت و شنید کرتے ہیں ۔  ایک ہی مٹی کے جنمے ہوئے لوگوں  میں  در آنے والی ان دوریوں  کو برقرار رکھ کر یا انہیں  بڑھا کر دونوں  معاشرے دانستہ یا نادانستہ اُس سیاست کو فائدہ پہنچا رہے ہیں  جو دوریوں  کو عزیز رکھتی ہے اور اُنہیں  بڑھانے کیلئے قسم قسم کے حربے آزماتی ہے۔ 
 ہندی شاعری اور ہندی ادب میں  میری اس لئے بھی دلچسپی ہے کہ اس سے واقفیت رہے تو ہندی ادیبوں  اور شاعروں  سے تبادلۂ خیال زیادہ بامعنی ہوجاتا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے بھی ضروری ہے۔ ہم میں  سے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں  کہ دیگر زبانوں  کے شاعر و ادیب کیا سوچتے ہیں ، کیا محسوس کرتے ہیں  اور کیا لکھتے ہیں ۔ جن زبانوں  سے واقفیت نہیں  اور جن سے واقف ہونے کا وقت بھی نہیں   اُن میں  تخلیق کئے جانے والے ادب سے لاعلمی کیلئے ناواقفیت جواز بن سکتی ہے مگر جن زبانوں  کا لکھنا پڑھنا ممکن ہے اُن کے ادب سے دور رہنے کا کوئی جواز نہیں ، اس میں  دانشمندی بھی نہیں ۔ ہندی ادب کے مطالعہ کے دوران مَیں  نے محسوس کیا ہے کہ ہندی شاعروں  کی تخلیقات میں  فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی چاہت اور سیاسی ریشہ دوانیوں  کے ذریعہ دو فرقوں  میں  دراڑ ڈالنے کی کوششوں  کے خلاف احتجاج کا سُر نہ تو عنقا ہے نہ ہی مدھم بلکہ تیز ہے۔ ان میں  سے اکثر شعراء اُردو محفلوں  اور مشاعروں  میں  نہیں  بلائے جاتے، اُن کی تخلیقات بھی کم کم ہی اُردو رسائل میں  شائع ہوتی ہیں ۔ وہ ہندی میں  لکھتے ہیں  اور ہندی محفلوں  ہی میں  سناتے ہیں  اس کے باوجود یگانگت اور یکجہتی کی خواہش اُن کی تخلیقات کا جزوِ خاص ہے۔ ایسے قلمکار ملک کے اقلیتی طبقات کا بڑا اثاثہ ہیں ۔ ان سے ہر خاص و عام کے مراسم ہوں  تو یہ بڑا فائدہ مند سلسلہ ہوگا۔ بہت سی غلط فہمیاں  ازخود دور ہوجائینگی۔ اس طرح لوگوں  کو فرقوں  میں  بانٹنے اور اُنہیں  ایک دوسرے سے بدظن کرنے کی کوششوں  کو ناکام کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’جنسی جبر اور قتل‘ کے معاملات میں سیاست

 اس دوران کئی ایسی نظمیں  میری نظروں  سے گزریں  جن میں  فرقہ پرستی کے خلاف کھل کر صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر نونیت پانڈے کی نظم ’’میرا اَپرادھ‘‘۔ مختصر نظم ہے:
’’نہ میں  ہندوؤں  میں  ہندو لگتا ہوں  نہ مسلمانوں  میں  مسلمان/  میرا اَپرادھ یہ ہے کہ میں  انسانیت کی بات (اور) پیروی کرنے والا ایک سرپھرا انسان ہوں  /  میری سزا یہ ہے کہ مجھے کہیں  نہ رکھا جائے /  جہاں  بھی جب بھی اوسر ملے /  مجھے میرے خون میں  نہلا کر، تلک لگا کر اِترائیں ، اپنے اپنے دھرم کے جے گھوشوں  کے ساتھ دُندبھی بجائیں ‘‘ 
 پہلے کبھی رما شنکر وِدروہی کی نظم ’’نور میاں ‘‘ کا تذکرہ اس کالم میں  کیا جاچکا ہے جس میں  ماضی کے ہندو مسلم تعلقات کی گہرائی کو اہمیت اور اہتمام کے ساتھ اِس طرح اُجاگر کیا گیا ہے جیسے شاعر یہ کہنا چاہتا ہو کہ اِس گنگا جمنی تہذیب کی بازیابی کوشش ملک کے ہر شہری کا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے۔نظم کی آخری سطریں  سیدھے دل میں  اُتر جاتی ہیں : ’’اِس طرح مَیں  نے انتم بار، اپنی دادی کی آنکھوں  میں ، نور میاں  کا سرمہ لگایا۔‘‘  مگر، موجودہ دَور کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے، اسے سوشل میڈیا کے اُن گوداموں  میں  جھانکنے کی عادت ہوگئی ہے جن میں  چاروں  طرف نفرت کی بوریاں ، ایک کے اوپر ایک، اس طرح رکھی گئی ہیں  کہ کہیں  کوئی کھڑکی دکھائی نہیں  دیتی۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK