گزشتہ ہفتے وزیراعظم امریکہ کے دورے پر تھے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے مودی جی کو’’ بہت خاص آدمی‘‘ اور ’’عظیم دوست‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔انہوں نے ادب سے مودی جی کیلئے کرسی بھی کھینچی۔ لیکن ایک سیانے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا یہ قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے: ’’امریکہ کی دشمنی خطرناک ہوسکتی ہے لیکن امریکہ کی دوستی تو ہلاکت خیزہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حرکات و سکنات، بیانات اور طرز عمل کو دیکھ کر مجھے فلم ’’ شعلے‘‘ کے کردار گبر سنگھ کی یاد آرہی ہے۔گبر سنگھ کی طرح ٹرمپ بھی دوسروں کو ڈرا دھمکا کر اور امریکہ کی بے پناہ طاقت کی دھونس دکھاکراپنی بات منوارہے ہیں ۔ ۲۰؍ جنوری کو صدر کے عہدے کا حلف لینے کے بعد اپنی افتتاحی تقریر میں ٹرمپ نے دنیا کے سامنے اپنے عزائم اور ایجنڈہ کو خود ہی بے نقاب کردیا تھا۔ انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ اپنے شہریوں کی جھولیاں بھرنے کی خاطر امریکہ اب بیرونی ممالک پر ٹیکس اور محصول لگائے گا۔ گبر لاچار گاؤں والوں سے وصولی کرتا تھا۔ٹرمپ لاچار ممالک سے’’ وصولی‘‘ کرنے پر مصر ہیں ۔ ٹرمپ کو دوسری بار اقتدار سنبھالے ہوئے ایک ماہ گزرا ہے اور اس دوران وہ اسرائیل، جاپان، اردن اور انڈیا کے سربراہان کو وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کیلئے بلاچکے ہیں ۔ٹرمپ نے ان بیرونی مہمانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے بلکہ ان کے سامنے اپنا فرمان جاری کیا۔ بنجامن نیتن یاہو کے سوا بقیہ تینوں حکمرانوں کو ٹرمپ کی جارحانہ سفارتکاری کا سامنا کرنا پڑا۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق ان سربراہان کے ساتھ ان کی ملاقات سے صاف ظاہر تھا کہ ٹرمپ کی فارن پالیسی کے پشت پر ان کی توسیع پسندانہ ذہنیت کام کررہی ہے اور وہ اپنی خارجہ پالیسی کو امریکہ کے ملٹری اخراجات کی بھرپائی کیلئے دوسرے ممالک کی بانہیں مروڑنے کیلئے استعمال کررہے ہیں ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جمعرات کے دن وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے مذاکرات اور اس کے بعد ہوئی پریس کانفرنس سے بھی یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ امریکی صدر ہندوستانی وزیر اعظم پر اپنے مطالبے منوانے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے مودی جی کے واشنگٹن میں قدم رکھنے کے چند گھنٹے قبل ٹرمپ نے ان تمام ممالک پر جوابی کارروائی کا اعلان کردیا جو امریکی مصنوعات کی درآمد پر ٹیکس لگاتے ہیں ۔ ہندوستان سے ٹرمپ خصوصی طور پر ناراض ہیں کیونکہ ان کے بقول امریکی مصنوعات پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹی انڈیا لگاتا ہے۔ ٹرمپ نے مودی کو اپنے ساتھ بٹھاکر یہ اعلان کیا کہ اب انڈیا جتنی ڈیوٹی لگائے گا ہم بھی اتناہی لگائیں گے۔ ٹرمپ نے مودی جی پر دباؤ بڑھاتے ہوئے یہ شکایت بھی کی کہ ہندوستان کی وجہ سے امریکہ کو تجارتی خسارہ ہورہا ہے اور انہوں نے یہ فرمان بھی جاری کردیا کہ ہندوستان کو امریکہ سے تیل اور گیس کی امپورٹ کرکے امریکی خسارہ پورا کرنا ہوگا۔مطلب یہ کہ ہندوستان اب روس اور عرب ملکوں سے سستا تیل اور گیس لینا بند کردے۔ٹرمپ نے یہ حکم بھی صادر کردیاکہ بھارت کو امریکہ سے دفاعی سازو سامان کی خریداری میں بھی اب اربوں ڈالر کا اضافہ کرنا ہوگا۔ٹرمپ مودی جی کو امریکی F-35فائٹر طیارے کی خریداری کے لئے بھی راہ پر لے آئے جبکہ بھارت کے لئے یہ ایک بے حد مہنگااور غیر منافع بخش سودا ہے۔ ٹرمپ کے دست راست ایلن مسک اس جنگی طیارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاچکے ہیں ۔ امریکہ میں غیر قانونی طور سے رہائش پذیر ہندوستانی تارکین وطن کی ملک بدری پر بھی مودی جی ٹرمپ کے سامنے بے بس نظر آئے۔ انہوں نے خود ہی یہ تسلیم بھی کیا کہ غیرقانونی تارکین وطن کو امریکہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور ان کی حکومت انہیں واپس لینے کو تیار ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ٹرمپ کی داداگیری کے آگے ہندوستانی وزیر اعظم کی ایک نہ چلی۔
آسکر وائلڈ نے کہاتھا کہ کسی کی نقل کرنا اس کی خوشامد کابہترین طریقہ ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں مودی جی نے ٹرمپ کے مشہور نعرے MAGA یعنی ’’ امریکہ کو دوبارہ عظیم بناناہے‘‘ کے ہندوستانی ورژن MIGAیعنی ’’ انڈیا کو دوبارہ عظیم بناناہے ‘‘ کا اعلان کرکے ٹرمپ کو خوش کرنے کی کوشش کی۔نیو یارک ٹائمز نے اس ایک جملے میں سب کچھ کہہ دیا: ’’مسلسل خم ٹھونکتے ہوئے ٹرمپ کے تمام مطالبات تسلیم کرکے ان کی خوشامد کرنے کی کوشش کرنے والے مودی تازہ ترین سربراہ مملکت بن گئے ہیں ۔‘‘
یہ بپی پڑھئے: کچھ نئی دہلی اور کچھ واشنگٹن کا حال
ایسی بات نہیں ہے کہ ٹرمپ نے مودی جی کی تعریف نہیں کی۔ امریکی صدر نے مودی جی کو ’’ بہت خاص آدمی‘‘ اور’’عظیم دوست‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔انہوں نے ادب سے مودی جی کے لئے کرسی بھی کھینچی۔ لیکن ایک سیانے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا یہ قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے: ’’امریکہ کی دشمنی خطرناک ہوسکتی ہے لیکن امریکہ کی دوستی تو ہلاکت خیزہے۔‘‘آج سارے یورپ اور خصوصاً Nato کے رکن ممالک کو جو امریکہ کے اتحادی اور دوست ہونے پر فخر کیاکرتے تھے کسنجر کا یہ قول بار بار یاد آرہا ہوگا۔ تین سال قبل امریکہ کی شہ پر یوکرین روس سے بھڑگیا اور جنگ کی بھاری تباہی اور ہلاکتیں جھیلیں ۔ اب ٹرمپ نے یوکرین یا یورپی یونین کو خبر کئے بغیرروسی صدر پوتن کو فون کرکے جنگ بند کروانے کی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ جنگ بندی کیلئے امریکہ اور روس کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات ہورہے ہیں ۔ ٹرمپ نے ان مذاکرات میں یوکرین یا یورپ کے کسی ملک کو شامل نہیں کیا ہے۔ وہ تمام فیصلے تن تنہا کررہے ہیں ۔ ٹرمپ نے دنیا کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ نہ کسی بین الاقوامی قانون کو مانیں گے نہ کسی عالمی ادارے کو۔ان کی نگاہوں میں کسی بھی ملک کی خودمختاری اور آزادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اسی لئے کبھی ٹرمپ اپنے ہمسایہ ملک کینیڈا کو امریکہ میں ضم کرنے کی تجویز رکھتے ہیں تو کبھی گرین لینڈکو امریکہ کی تحویل میں لینے کااعلان کرتے ہیں ۔ غزہ میں جنگ رکوانے کے پیچھے اسے اپنے تسلط میں لینے کا ان کا منشا بھی اب سامنے آگیا ہے۔ ٹرمپ کا ماسٹر پلان یہ ہے کہ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع غزہ کو ایک پرتعیش ساحلی ریزارٹ میں تبدیل کریں ۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ وہاں ۲۴؍لاکھ فلسطینی باشندے نسلوں سے آباد ہیں ۔ انہوں نے مصر اور اردن کو یہ آرڈر دے دیا کہ ان ۲۴؍لاکھ فلسطینیوں کو وہ اپنے اپنے ملک میں پناہ دے دیں ۔
پس نوشت:مودی جی کی امریکہ یاترا سے ہندوستانیوں کے دلوں میں یہ موہوم سی امید جاگی تھی کہ شاید اس بار تارکین وطن کیساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے لیکن امریکہ سے امرتسر پہنچنے والی دوسری اور تیسری کھیپ کے متعلق بھی یہ اطلاع ملی ہے کہ ا ن کے ہاتھوں میں بھی ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں لگا کر ۴۰؍ گھنٹوں تک مویشیوں کی طرح فوجی جہاز میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مودی جی ، جنہوں نے ٹرمپ کی ساری باتیں مان لیں امریکی صدر سے یہ چھوٹی سی درخواست بھی نہ منواسکے کہ میرے بد نصیب ہم وطنوں کو ملک بدر کرتے وقت کم ازکم ان کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک نہ کریں ۔