عام آدمی پارٹی عوام سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتی رہی اور جب تک عوام کو اس کا علم تھا وہ عام آدمی پارٹی سے وابستہ رہے، تو پھر اب جو ہوا اس کی وجہ ہمیں صرف ایک ہی نظر آتی ہے کہ اروند کیجریوال غلطی سے سیمی ہندوتوا کی طرف آگئے تھے۔
EPAPER
Updated: February 18, 2025, 2:59 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
عام آدمی پارٹی عوام سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتی رہی اور جب تک عوام کو اس کا علم تھا وہ عام آدمی پارٹی سے وابستہ رہے، تو پھر اب جو ہوا اس کی وجہ ہمیں صرف ایک ہی نظر آتی ہے کہ اروند کیجریوال غلطی سے سیمی ہندوتوا کی طرف آگئے تھے۔
نئی دہلی کے الیکشن ہوگئے اور جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے، یقیناً اس پر بہت سے لوگو ں کو حیرت ہوئی اور ان میں ہم بھی شامل ہیں ، یہ خیال یوں کیا جارہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کا وہ انجام ہوگا جو اس کے لئے اور اس کے چاہنے والوں کے لئے بہت بھاری پڑے گا کیونکہ یہ سمجھا جارہا تھا کہ عوام اب بھی اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں مگر حد یہ ہوئی کہ خود اروند کیجریوال اپنی سیٹ ہار گئے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
عام آدمی پارٹی عوام سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتی رہی اور جب تک عوام کو اس کا علم تھا وہ عام آدمی پارٹی سے وابستہ رہے، تو پھر اب جو ہوا اس کی وجہ ہمیں صرف ایک ہی نظر آتی ہے کہ اروند کیجریوال غلطی سے سیمی ہندوتوا کی طرف آگئے تھے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن شاید پچھلے کچھ عرصے سے انہیں اس کا احساس تھا کہ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ وہ سیمی ہندوتو اکی طرف کیوں آئے؟ اس کی بھی کچھ وجہیں ہیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر پرشانت بھوشن کے آنجہانی والد شانتی بھوشن نے دیکھا کہ جب اروند کیجریوال نام نہاد اینٹی کرپشن تحریک چلارہے تھے تو آر ایس ایس پوری طرح سے ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ شانتی بھوشن نے عوام سے کہا وہ اس تحریک سے جڑ جائیں ورنہ یہ تحریک بہت جلد آر ایس ایس کے ہاتھوں میں چلی جائے گی او ریہ ہوا بھی، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب اروند کیجریوالنے عام آدمی پارٹی کی تشکیل کی تھی تو انہوں نے اپنے ورکرس کے لئے ایک ٹوپی منتخب کی تھی جس میں ایک طرف ہندی میں اور دوسری طرف انگریزی میں عام آدمی پارٹی کا نام لکھا ہوا تھا۔ دہلی والوں نے اروند کیجریوال سے کہا کہ دہلی اردو کا علاقہ ہے، یہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ بیشتر پنجابی بھی اردو بولنے اور لکھنے والے ہیں لیکن کیجریوال کو شاید یہی اچھا لگا کہ وہ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھیں ۔ یہ بات انہوں نے کہی تو نہیں لیکن انہوں نے ٹوپی پہ اردو میں نام نہیں لکھوایا۔ عام آدمی پارٹی بہت بڑی اکثریت سے جیت کر آئی اور چار سال تک اس نے بہت آرام سے راج کیا۔ اس کے بعد جب دوسرا الیکشن ہوا تب بھی عام آدمی پارٹی کو فتح ملی۔ تو پھر انہیں سیمی ہندوتوا کی طرف جانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ شاید پچھلے کچھ عرصے سے انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر قومی سطح پر پارٹی بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کوئی اور راستہ منتخب کرنا پڑے گا۔ ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ بی جے پی اپنے ہندوتوا ایجنڈے کی وجہ سے مقبول ہوئی ہے۔ ہم آپ کو بتا دیں کہ اگر کوئی شخص اپنی عقیدت مندی کی وجہ سے مندر، کلیسا یا کسی اور عام مذہب کی عمارت میں جائے تو اس پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اخلاقیات اور ہندوستان کی سیاست بھی اس کی اجازت دیتی ہے ۔کیجریوال کا مندروں میں جانا برا نہیں تھا لیکن جب ان پر شراب کی ٹھیکے داری کا الزام لگا اور کچھ دوسرے ایسے واقعات ہوئے جن کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا تو عوام کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی نام نہاد ایمانداری کے باوجود اندر سے ٹھیک نہیں ہیں ۔گرفتاری کے بعد جب وہ جیل میں بند ہوئے تو انہوں نے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ڈاکٹر ذاکر حسین کو میں نے جامعہ میں دیکھا ہے (۲)
اروند کیجریوال کو ملک بھر میں بہت شہرت مل چکی تھی اور اسی شہرت کی وجہ سے پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بن گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس الیکشن میں بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کو کانگریس سے مل جانا چاہئے، اگر دیکھئے تو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے ووٹوں میں بس دو ہی چار فیصد کا فرق ہے، اگر کانگریس اس کے ساتھ مل جاتی تو شاید یہ فرق مٹ جاتا لیکن دو وجہوں سے ایسا نہیں ہوا۔ ایک تو اروند کیجریوال نے یہ سمجھا کہ اگر وہ کانگریس کے ساتھ گئے تو انہیں راہل گاندھی کی قیادت منظور کرنا پڑے گی ۔ نئی دہلی میں کانگریس کے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا لیکن کہا جارہا ہے کہ اس بار کانگریس کے ووٹوں میں دو فیصدکے بجائے چار مزید فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور وہ چھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اب چلئے واشنگٹن، یہ سمجھ لیجئے کہ نریندر مودی جب کہیں جاتے ہیں تو بہت شور مچایا جاتاہے، کم از کم ہندوستان میں تو بہت شور مچایا جاتا ہے لیکن باقی دنیا مودی کو ہندوستان نہیں سمجھتی، انہیں بس ایک فرد سمجھتی ہے ۔ ہم جب ہندوستان کا نام لیتے ہیں تو ہماری مراد ان کروڑوں لوگوں سے ہوتی ہے جن پر یہ ملک قائم ہے، اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے ان کروڑوں لوگوں کو نقصان ہو تو یہ ہمارا اور آپ کا بھی نقصان ہے کیونکہ ہندوستان میں تو ہم جی رہے ہیں ۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کا واشنگٹن کادورہ صریحاً ناکام تھا۔ پہلے وہ فرانس گئے اور وہاں انہوں نے آرٹی فیشل ایجنسی کے ایک اجلاس کی صدارت کی ، ہمیں معلوم نہیں کہ آرٹی فیشل ایجنسی کے بارے میں نریندر مودی کو کیا معلومات ہیں اور انہوں نے وہاں کیا کہا اور کس زبان میں کہا لیکن ان کے ساتھ جو وفد گیا تھا وہ بہت قابل تھا اور اس نے سب سنبھال لیا، کیونکہ امریکہ میں تو انہوں نے گجراتی میں بولا اور ایک مشین کے ذریعہ ایسی انگریزی میں ترجمہ کیا گیا جسے ٹرمپ سمجھتے ہی نہیں تھے اور انہوں نےکہا بھی کہ آپ نے جو کہاوہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ اس موقع پر واشنگٹن میں صرف نریندر مودی موجود نہیں تھے۔ اس میں اردن کے عبداللہ دوئم اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بھی تھے جو اتفاق سے آئے ہی نہیں تھے۔ نریندر مودی اور ٹرمپ کی نام نہاد پریس کانفرنس صرف سات منٹ کی تھی اور ٹرمپ نے جو کہا تھا کہ نریندر مودی ان سے بات کرنے سے پہلے امریکہ کی تمام شرطیں مان لیں اور پہلی بات یہ کریں کہ اگر انہوں نے ہندوستان میں امریکہ کی مصنوعات پر ٹیکس لگایا تو وہ امریکہ میں ہندوستانی مصنوعات پر بھی اتنا ہی ٹیکس لگائیں گے۔ مودی صاحب نے جانے سے پہلے ہی ہندوستان میں امریکی مصنوعات پر ٹیرف یا ٹیکس بہت کم کردیا تھا،اور جیسا کہ ہم نے بتایا امریکہ میں رہنے والے غیر دستاویزی ہندوستانی لوگوں میں زیادہ تر تعداد گجراتی ہے ، و ہ مودی کا بہت گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں لیکن اب انہیں معلوم ہوا کہ معاملہ صرف گجراتیو ں کے تالی بجانے کی حد تک ہے ، اس کے آگے کچھ بھی نہیں ۔ یہ گجراتی نریندر مودی کے زمانہ اقتدار میں ہی گئے تھے اور زیادہ پیسہ کمانے کے لئے گئے تھے، راہل گاندھی ان کیلئے صرف سنسد یا پارلیمنٹ میں سوال نہیں پوچھ سکتے، انہیں نریندر مودی سے پوچھنا پڑے گا کہ ان مفلس اور قلاش گجراتیو ں کا ہندوستان میں کیا حشر ہوگا۔ چلئے مانا کہ وہ ریلیاں نہیں کرسکتے لیکن دہلی ، احمد آباد اور ممبئی میں پریس کانفرنس کرکے لوگوں کو یہ بتاسکتے ہیں کہ نریندر مودی نے ان گجراتیوں کو دھوکہ دیا۔