جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش واحد ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان کے بہترین سفارتی، اقتصادی اورثقافتی تعلقات رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم بدلے ہوئے زمینی حقائق کا درست ادراک نہ کرسکیں۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 1:41 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش واحد ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان کے بہترین سفارتی، اقتصادی اورثقافتی تعلقات رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم بدلے ہوئے زمینی حقائق کا درست ادراک نہ کرسکیں۔
پانچ اگست کو ڈھاکہ میں ہوئی عوامی بغاوت اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد سے بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے تھے۔ دس دن قبل چٹاگانگ میں ایک ہندو مہنت کی گرفتاری کے بعددونوں ممالک کے رشتے مزید بگڑ گئے اور تلخیاں بڑھ گئیں ۔نریندر مودی حکومت نے ہندوؤں پر ہورہی زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کویہ نصیحت دی کہ وہ اقلیتوں کی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ بی جے پی نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں پر ڈھائے جانے والے مبینہ مظالم کے خلاف ملک گیرمہم چھیڑ دی۔بنگلہ دیشی شہری روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں سیر وسیاحت، علاج اور شاپنگ کے لئے کلکتہ آتے تھے۔ پچھلے دس دنوں میں ڈھاکہ سے دمدم آنے والی پروازیں کم ہوگئیں اور سڑکوں اور ٹرینوں سے بھی لوگ کم آرہے ہیں ۔ کلکتہ، ممبئی اور اگرتلہ میں بنگلہ دیشی قونصل خانوں کے گرد مظاہرے ہورہے ہیں ۔ڈھاکہ میں بھی بھارت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔مغربی بنگال میں بی جے پی نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ حیرت ہے کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی بنگلہ دیش کے خلاف محاذ کھول دیا۔ ان کی دانست میں بنگلہ دیش میں شاید ہندوؤں کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ورنہ وہ ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کی امن قائم کرنے والی فورس کی تعیناتی کی تجویز کیوں پیش کرتیں ۔
جس ہندو لیڈر چنموئے کرشن داس کی گرفتاری پر ہندوستان میں اس قدر واویلا مچایا جارہا ہے وہ ISCKON نامی مذہبی تنظیم کا ایک سابق مہنت ہے۔ Firstpost کی ایک رپورٹ کے مطابق داس پربچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام لگنے کے بعد اسکان نے ایک سال قبل تمام عہدوں سے برطرف کردیا تھا۔ ڈھاکہ کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی اور بھارت کا میڈیا بنگلہ دیش کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ چلارہا ہے۔حقیقت جو بھی ہو اس وقت عبوری حکومت پوری طرح دباؤ میں نظر آرہی ہے ورنہ وزیر خارجہ توحید حسین کو غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ میں یہ وضاحت پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ بنگلہ دیش میں تمام شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جارہا ہے اور یہ کہ حکومت ہندوؤں کے جان و مال کی حفاظت کی پوری طرح ذمہ دار ہے؟
حسینہ کی معزولی کے تین دنوں کے بعد ہی نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس کو ہمسایہ ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ کے عہدے پر فائز کیا گیا تو عوام نے یہ سوچ کر راحت کی سانس لی کہ ایسے نازک وقت میں یونس سے بہتر رہنما انہیں نہیں مل سکتا تھا۔ افسوس وہ ان کی امیدو ں پر پورے نہیں اترے ۔ محمد یونس وہ نجات دہندہ ثابت نہیں ہوسکے جس کی بنگلہ دیش توقع کررہا تھا۔
بنگلہ دیش کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کیا کم تھے کہ عبوری حکومت ہندوستان کے ساتھ غیر ضروری تصادم کی راہ پر چلنے لگی۔یونس اور عبوری حکومت کے دیگر عہدے دار متواتر ہندوستان مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ ایک نئی دوستی کا آغازکرکے ڈھاکہ نے ہندوستان کے شک و شبہات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ستمبر میں نیو یارک میں شہباز شریف کے ساتھ یونس کی طویل ملاقات اور سارک کو دوبارہ فعال بنانے کی پاکستانی تجویز کی حمایت، ڈھاکہ میں جناح کی برسی کا انعقاد اور ایک بنگلہ دیشی دانشور کا پاکستان کے ساتھ جوہری معاہدہ کی وکالت جیسے واقعات سے بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان فاصلے بڑھے۔ یہ صحیح ہے کہ یونس نے مندروں کا دورہ کرکے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ان کی سلامتی کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی لیکن وہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتے کہ ان کے گھروں اور عبادت گاہوں پر آج بھی حملے جاری ہیں ۔ یونس حکومت ہندو تنظیموں کی شکایات کو ہمدردی سے سننے کے بجائے ان کے احتجاج کو جب دبانے اور ان کے لیڈروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو معاملہ زیادہ الجھ جاتا ہے۔مودی حکومت اگر ڈھاکہ کو یہ نصیحت دے رہی ہے کہ اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ یونس مودی سرکار کو یہ جواب تو دے سکتے ہیں کہ جن کے اپنے گھر شیشے کے ہوتے ہیں انہیں دوسروں کے گھروں پر پتھر نہیں پھینکنا چاہئے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ بنگلہ دیش بھی اپنی اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا اس کا ہمسایہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کرتا ہے؟بنگلہ دیش کو ہندوستان کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے قبل سو بار سوچنا چاہئے۔ یونس تو ماہر معاشیات ہیں انہیں تو یہ بخوبی اندازہ ہوگا کہ بھارت سے تعلقات بگاڑ کر بنگلہ دیش کتنے بڑے خسارے میں رہے گا۔ دونوں ممالک کے اچھے تعلقات کا زیادہ فائدہ بنگلہ دیش کو ہی ہوتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : مہاراشٹر میں اپوزیشن اتحاد کوجھٹکاکیوں لگا؟
چٹا گانگ میں اسکان کے سابق مہنت کی گرفتاری کے بعد سے سنگھ پریوار اور گودی میڈیا جوبنگلہ دیش مخالف بیانیہ چلا رہا ہے کیا اس کا مقصد ہندوتوا کے ایجنڈہ کو فروغ دینا ہے؟ اگر کوئی مسلم ملک یا او آئی سی کبھی بھولے بھٹکے ہندوستان میں مسلمانوں کی حق تلفی پر احتجاج کرتا ہے تو مودی حکومت یہ کہہ کر اس کا منہ بند کرا دیتی ہے کہ یہ ہمارے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔کیا آج ہم بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں ؟کیا یہ نظریاتی ریاکاری نہیں ہے کہ اپنے ملک کی اقلیتوں کی زندگی جہنم بنانے والے بنگلہ دیش کی اقلیتوں کے غم میں ہلکان ہورہے ہیں ؟
جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش واحد ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان کے بہترین سفارتی، اقتصادی اورثقافتی تعلقات رہے ہیں ۔بنگلہ دیش ہمارا پڑوسی ہی نہیں اسٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے۔شیخ حسینہ سے ہندوستان کی دیرینہ دوستی کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ ہم بدلے ہوئے زمینی حقائق کا درست ادراک نہ کرسکیں ۔ حسینہ کی پندرہ برسوں پر محیط کرپٹ اور آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں ان کے اور عوامی لیگ کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے خلاف بھی برہمی ہے کیونکہ بنگلہ دیشی عوام کا خیال ہے کہ مودی حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے انہیں اتنے طویل عرصے تک حسینہ کی تاناشاہی جھیلنا پڑی۔اس وقت مودی حکومت کو بنگلہ دیش کے عوام کی غلط فہمیاں دور کرکے یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ڈھاکہ میں اقتدار میں خواہ کوئی بھی ہو ہمارے باہمی تعلقات ویسے ہی دوستانہ رہیں گے جیسے ماضی میں تھے۔ جس ملک کی آزادی میں ہم نے اہم کردار نبھایا اور بیش قیمت قربانیاں دیں اگر وہ ہمارے حلقہ ء اثر سے نکل جاتا ہے تو یہ ہماری خارجہ پالیسی کی بہت بڑی ناکا می سمجھی جائے گی۔