راہل گاندھی کا ذات کی مردم شماری کا اٹھانا ہی کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لاسکتا ہے۔یہ یاد رکھئے کہ کانگریس گزشتہ انتخابات میں جہاں کہیں بھی کامیاب ہوئی ہے وہ کاسٹ کی مردم شماری کے موضوع پر ہی ہوئی ہے۔
EPAPER
Updated: December 03, 2024, 1:32 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
راہل گاندھی کا ذات کی مردم شماری کا اٹھانا ہی کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لاسکتا ہے۔یہ یاد رکھئے کہ کانگریس گزشتہ انتخابات میں جہاں کہیں بھی کامیاب ہوئی ہے وہ کاسٹ کی مردم شماری کے موضوع پر ہی ہوئی ہے۔
کچھ دنوں پہلے جب جموں کشمیر اور ہریانہ میں الیکشن ہوئے تھے تو اس وقت نتیجہ یہ رہا تھا کہ جموں کشمیر بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا اور ہریانہ بی جے پی کے ہاتھوں میں رہ گیا ۔ اس وقت مہاراشٹر کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ یہاں ای وی ایم کے ذریعہ زبردست گھپلہ ہوا ہے۔ اتفاق سے یہ بات تینوں پارٹیوں کے اہم لیڈران کہہ رہے ہیں اس لئے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب بکواس ہے لیکن یہ اپنا دل بہلانے کے لئے ایک تسلی ضرور ہے۔ یا د رکھئے کہ یہی ای وی ایم جو مہاراشٹر میں استعمال ہوئی ہے وہی ای وی ایم جھارکھنڈ میں بھی استعمال ہوئی ہے، تو پھر یہ کیسے ہوا کہ ای وی ایم نے مہاراشٹر میں تو کام کیا لیکن جھارکھنڈ میں اس کا کوئی بس ہی نہیں چلا۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین دوبارہ چیف منسٹر بن گئے ہیں ۔اتفاق سے یہ بات دیکھئے کہ جھارکھنڈ میں بھی کانگریس ہیمنت سورین کی پارٹی کے بعد سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ کچھ یہی معاملہ مہاراشٹر کا بھی ہے۔اپوزیشن کو سیٹیں چاہے جتنی بھی کم ملی ہوں لیکن ان میں کانگریس کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس کے بیس ممبران منتخب ہوئے ہیں ، اب اس پر کانگریسی ہنس بھی سکتے ہیں اور رو بھی سکتے ہیں ، جس طرح ہریانہ میں کانگریس کی شکست کی سب سےبڑی وجہ وہاں کانگریس پارٹی کے اندرونی اختلافات تھے، وہاں کے سابق چیف منسٹر ہڈا اپنی فیملی کے بارے میں ، اپنے خاندان کے بارے میں اتنا مصروف تھے کہ شاید اس میں انہیں کچھ کامیابی ملی ہو لیکن انہیں جو کام دیا گیا تھا اس میں وہ بالکل ناکام رہے۔ انہیں کام یہ دیا گیا تھا کہ ہریانہ میں کانگریس پارٹی کو سنبھالیں لیکن انہو ں نے پارٹی کو بالکل تن تنہا چھوڑ دیا۔ یہاں بھی یہ یاد رہے کہ اس وقت جموں کشمیر میں بھی الیکشن ہوئے تھے۔ ہم یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ جموں کشمیر کا الیکشن بی جے پی کے لئےبہت بڑا واقعہ تھا، اگر وہاں بی جے پی جیت جاتی تو بی جے پی کے نریندر مودی اور امیت شاہ ساری دنیا کو یہ بتاتے کہ کشمیری عوام نے ۳۷۰؍ کے ہٹائے جانے کا کوئی افسوس نہیں کیا،یہ جھوٹ ہوتا اورقطعی جھوٹ ہوتالیکن پروپیگنڈہ بہرحال پروپیگنڈہ ہوتا ہے، شاید دنیا میں کچھ لوگ اثر لیتےلیکن ہندوستان میں تو بی جے پی کے کارکن آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ دفعہ ۳۷۰؍ ہٹائے جانے کی کانگریس نے مخالفت کی تھی لیکن کانگریس اس وقت کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی ۔ راہل گاندھی تک امیٹھی سے اپنی سیٹ ہار چکے تھے اور امیت شاہ یہ کہتے تھے کہ ۳۷۰؍کے ہٹائے جانے کی جو لوگ مخالفت کررہے ہیں وہ ان کے مشہور فقرے کہ یہ سب اینٹی نیشنل ہیں ، سر چڑھ کر بولنے لگتا۔ اس وقت بھی یہ یاد رکھئے ہریانہ کے سابق چیف ہڈایہ کہہ رہے تھے کہ اس دفعہ کو ہٹائے جانے کی مخالفت واقعی قوم دشمنی ہوگی۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا تھا مگر یہ ضرور کہا تھا کہ اگر کانگریسی اس نعرے پر اصرار کرتے رہے تو وہ اس پارٹی سے علاحدہ ہو جائیں گے۔ گویا انہوں نے راہل گاندھی کو تن تنہا چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ ہم یہ بات یہاں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ای وی ایم اور اس قسم کی دیگر باتیں کرنااپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دینے کے برابر ہے ۔
یہ بھی پڑھئے:نفرت انگیزی اور اقلیتوںکی شبیہ بگاڑنے کی کوشش
مہاراشٹر میں ایم وی اے نے بہت بڑی غلطی کی اور وہ غلطی مراٹھا ریزرویشن کی تھی، یاد رکھئے کہ مراٹھا ریزرویشن کی صرف بی جے پی نے مخالفت کی تھی۔ اپوزیشن کی تینوں پارٹیوں نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی ، حد یہ ہے کہ راہل گاندھی نے یہاں کاسٹ مردم شماری کی بات تو کی لیکن مراٹھاریزرویشن پر وہ ایک بھی جملہ نہیں بولے۔ اب اس کا ایک قصہ سنئے۔ مراٹھے مہاراشٹر میں آبادی کا پینتیس فیصد ہیں ،لیکن ایک بات یاد رکھئے اگر مراٹھا ریزرویشن دیا جاتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر او بی سی پر پڑے گا۔ ریزرویشن میں دلت تیئس فیصد اور باقی تمام او بی سی وہ مراٹھانہیں ہیں اور ان کی بہت بڑی تعداد ہے۔ یاد رہے کہ چھگن بھجبل نے بھی مراٹھا ریزرویشن کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی مہاراشٹر کے کچھ او بی سی لیڈروں نے اس ریزرویشن کی مخالفت کی تھی اور سپریم کورٹ اپنے کئی فیصلوں میں یہ کہہ چکی تھی کہ ریزرویشن کی آخری حد پچاس فیصد ہوگی یعنی دلت اور او بی سی کے علاوہ اگر ریزرویشن دیا گیا تو وہ او بی سی کے کوٹے پر بہرحال اثر انداز ہوگا۔ مہاراشٹر کے اپوزیشن اتحاد نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ ریزرویشن کی حد پچاس فیصد سے آگے لے جائیں گے جو راہل گاندھی اکثر صوبوں میں کہتے رہے ہیں بلکہ لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اگر اپوزیشن اتحاد پاور میں آیا تو تینتیس فیصد کے علاوہ باقی سب کا حق مارا جائے گا اس لئے ہمارا خیال ہے کہ مہاراشٹر میں او بی سی نے اپوزیشن اتحاد کو ووٹ نہیں دیا اور بہتر ہے کہ کانگریس پارٹی یہ بات مان لے اور ایک ایجی ٹیشن کے ذریعہ لوگوں کویہ بتائے کہ وہ پچاس فیصدی کی حد توڑ دے گی تاکہ بقیہ لوگوں کو ناانصافی کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ جنوب کی تقریباً ساری ریاستوں میں پچاس فیصد کی کوئی حد نہیں ہے۔ قانون تو نہیں بنا ہے لیکن عملی سطح پر ایسا ہے کہ تمل ناڈو میں تو پچہتر فیصد لوگ اپر کاسٹ سے الگ ہیں ۔یہی معاملہ اگر ہر ریاست میں اپر کاسٹ کو الگ رکھا گیا تو باقی لوگوں کو تحفظ کا احساس ہوگا۔ سیاست پر اپر کاسٹ کا غلبہ شمال کی تمام ریاستوں میں ہے اور یو پی کا نمبر سب سے آگے ہے، اس کی ایک وجہ بھی ہے ، یو پی ہندوؤں کی ایک مقدس تیرتھ گاہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر برہمنوں کی کل تعداد ہندوؤں میں صرف چھ فیصد ہے تو یقین کیجئے کہ ان کی آدھی سے بھی زیادہ تعداد صرف یوپی میں ہے اور یوپی میں سیاست میں غلبے کی وجہ سے کبھی کاسٹ کی مردم شماری نہیں ہوسکتی۔ یوپی کے سبھی لیڈر بشمول موجودہ چیف منسٹر یوگی کے سب کاسٹ مردم شماری کے سخت خلاف ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یوپی میں باقی تمام سیاسی عناصر کاسٹ مردم شماری کے حق میں ہیں اور یہ مقام انہیں مل کر رہے گا۔ راہل گاندھی کا ذات کی مردم شماری کا اٹھانا ہی کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لاسکتا ہے۔یہ یاد رکھئے کہ کانگریس گزشتہ انتخابات میں جہاں کہیں بھی کامیاب ہوئی ہے وہ کاسٹ کی مردم شماری کے موضوع پر ہی ہوئی ہے۔ کاسٹ کی مردم شماری ہندوستان کا سب سے بڑا ایشو ہے ، اس کے بغیر یہاں کوئی سیاسی کام ہو ہی نہیں سکتا۔