اِدھر عام انسان اپنی روزی روٹی کے جھمیلوں میں ہے اور اُدھر مصنوعی ذہانت کا سفر غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ سفر کب اور کہاں ختم ہوگا نیز اس سے کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا۔
EPAPER
Updated: September 28, 2024, 1:31 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اِدھر عام انسان اپنی روزی روٹی کے جھمیلوں میں ہے اور اُدھر مصنوعی ذہانت کا سفر غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ سفر کب اور کہاں ختم ہوگا نیز اس سے کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا۔
ہم آپ اُس دور میں نہیں تھے مگر تصور کرسکتے ہیں کہ جب پہلی مرتبہ سکے جاری ہوئے تھے تب اشیاء سے اشیاء کا تبادلہ کرنے والوں پر حیرتوں کے کتنے پہاڑ ٹوٹے ہونگے۔ گاؤں میں اُس شخص کے پاس کتنی بھیڑ ہوئی ہوگی جس نے پہلا سکہ حاصل کیا ہوگا۔ اس بھیڑ میں ہر طرح کے لوگ رہے ہونگے۔ کچھ اس کوسہولت اور آسانی کے نقطۂ نظر سے کافی کارآمد مان رہے ہونگے اور کچھ اس کی چوری کے خطرہ اور لین دین کی دشواری کے خدشہ میں مبتلا رہے ہونگے۔ کسی نے اس کو دل و جان سے قبول کیا ہوگا تو کسی نے اسے انجانی ٹھگی کا ذریعہ بتایا ہوگا۔ اِسی طرح جب شہر میں پہلی موٹر گاڑی آئی ہوگی تب کیسا منظر رہا ہوگا۔ جتنے منہ اُتنی باتیں ۔ ایسا ہوا تو اور ویسا ہوا تو کے بے شمار خدشات بحث و مباحثہ کا حصہ بنے ہونگے۔ کسی نے اُسے بھوت پریت سے بھی جوڑ ا ہوگا کہ کوئی غیر مرئی طاقت اسے کھینچتی اور دوڑاتی ہے تو کسی نے اُسے چھو‘ کر دیکھنے کی تمنا کی ہوگی۔ آج ایسی باتیں سوچنے کا بھی کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا اتنی بدل گئی ہے کہ اب سے ہزار سال پہلے کے نہیں صرف ۱۰۰؍ سال پہلے کے کسی شخص کو دوبارہ زندگی مل جائے اور وہ اپنے محلہ میں اچانک وارد ہوجائے تو محلے کو سمجھنے سے لے کر سڑک پار کرنے تک اُسے ہزار دقتوں اور حیرتوں کا سامنا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس کی عقل ماؤف ہوجائے اور وہ دوبارہ قبر میں اُتر جانا ہی بہتر سمجھے۔
اُس دور میں کسی کے وہم و گمان میں نہ رہا ہوگا کہ یہ جہانِ آب و گل، جہانِ طوق و سلاسل میں تبدیل ہوکر ہر بشر کو آزادی کے دھوکے میں رکھے گا مگر حقیقتاً وہ (بشر) آزاد نہیں ہوگا البتہ اُس کی قید و بند کسی کی مسلط کردہ نہیں ، اُس کی اپنی تمنا کا ثمرہ اور انتخاب کا نتیجہ ہوگی۔ وہ اُسے اِتنا لبھائیگی کہ اُس کی حالت شمع پر دیوانہ وار منڈلانے والے اُن پروانوں جیسی ہوگی جو اپنا حشر جاننے کے باوجود بے پروا رہنا چاہتے ہیں اور جب تک اپنے انجام کو نہیں پہنچتے، اُن کا جوش سرد نہیں پڑتا۔ عصر حاضر میں مصنوعی ذہانت کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے اس فرق کے ساتھ کہ یہ روایتی شمع نہیں بلکہ تکنالوجی کی وہ شمع ہے جو اپنے وجود سے زیادہ اپنے مظاہر سے جانی جاتی ہے، جس کے تصنع کا ڈنکا نہیں بج رہا ذہانت کا شہرہ ہے جو ذہین ترین انسانوں پر بھی اپنے کمالات کا غیر معمولی رعب جما رہی ہے۔ یہ اس قدر تیز رفتار ہے کہ انسانی سوچ سے ہزار گنا آگے کا سفر کرنے میں نہ تو اِس کا سانس پھو‘لتا ہے نہ ہی ایک منزل پر پہنچ کر دوسری منزل کا رُخ کرنا دقت طلب یا وقت طلب ہوتا ہے، غالب کے شعر میں تصرف کیا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہے: ’’رَو میں ہے رخش ِ اے آئی کہاں دیکھئے تھمے = نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ‘‘۔
اب کچھ لوگ اس کے خلاف متنبہ کرنے لگے ہیں کہ اے آئی اور روبوٹکس کی اندھی دوڑ کو تھمنا چاہئے مگر صنعتی امکانات کی اساطیری دُنیا میں اپنا حصہ تلاش کرنے سے اور منافع کی جادوئی پتنگ کی ڈور اپنی جانب کھینچنے سے کس کو روکا جاسکتا ہے۔ جو کمپنیاں اے آئی میں پیش رفتیں کررہی ہیں اُنہیں سونے کے پَر لگ رہے ہیں اور اُن کی ترقی دیگر کو سونے کے پَر تلاش کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ کوئی رُکنے اور تھمنے کیلئے تیار نہیں ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اے آئی انسانی صلاحیت کو پیچھے دھکیلنے کے قابل ہوچکا ہے اور اب اس کی اگلی منزل انسانی ذہانت ہے۔ اس میں بھی اُسے خاصی دسترس اور کمال حاصل ہوچکا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا: ’’اے آئی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد ہے جو بدقسمتی سے آخری بھی ثابت ہوسکتی ہے اگر انسانوں نے یہ نہیں سیکھا کہ خطرات کو کیسے ٹالا جائے۔‘‘ کیا اس پر کسی کی نظر ہے؟ یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک روبوٹ تیار ہورہا ہے اور یہ دعویٰ تک کیا جانے لگا ہے کہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب روبوٹس کی آبادی انسانی آبادی سے تجاوز کرجائیگی۔ اس اندازے میں کتنا دم ہے یہ سمجھنے کیلئے روبوٹس کی موجودہ آبادی کا جائزہ لینا کافی ہوگا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹکس (آئی ایف آر) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال روبوٹس کی آبادی میں ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہوا اور اب یہ آبادی ۴۲؍ لاکھ ۸۱؍ ہزار سے سوا ہوچکی ہے۔ یہ آبادی کتنی تیزی سے بڑھی ہے یہ بھی جانتے چلئے کہ ۲۰۲۱ء میں یہ آبادی ۵؍ لاکھ کے ہدف تک پہنچی تھی، ۵؍ لاکھ سے ۴۲؍ لاکھ ہونے میں اسے تین سال بھی درکار نہیں ہوئے۔
اگر روبوٹس کی بڑھتی آبادی لمحۂ فکریہ ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کا زیادہ استعمال کون کررہا ہے۔ آئی ایف آر ہی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جو روبوٹس تیار کئے گئے اُن میں سے ۷۰؍ فیصد کو ایشیاء میں نصب یا مامور کیا گیا، ۱۷؍ فیصد کو یورپ میں اور ۱۰؍ فیصد کو امریکہ میں ۔ یہ تعیناتی صنعتی زمرہ کے اداروں میں ضرور ہوئی ہے مگر اس دھوکہ میں نہیں رہا جاسکتا کہ اس نئی انسانی مخلوق کا دائرۂ کار صنعتی اداروں تک محدود رہے گا۔ چونکہ اے آئی سے ہر وہ کام لیا جاسکتا ہے جو انسان کے بس میں ہے حتیٰ کہ سوچنا بھی تو اس کا سادا سا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنا دشمن خود ہی خلق کررہا ہے اور بڑی گرمجوشی اور تندہی سے کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:کشمیر میں انتخاب اور ’وَن نیشن وَن الیکشن‘ کے مضمرات
ہر نئی ایجاد نئے خطرات لے کر وارد ہوتی ہے اور اے آئی کے خطرات اس کے فوائد کی طرح غیر معمولی ہیں ۔ یہ ایسے کاموں کیلئے تو بہت موزوں ہے جو انسانوں کیلئے مشکل، مضر یا مہلک ثابت ہوتے رہے ہیں مگر اُن تمام افعال کیلئے، جو انسانوں کے ذریعہ بحسن و خوبی انجام دیئے جارہے ہیں ،انسانوں کے مقابل اے آئی کو لے آنا دانشمندی تو نہیں کہلا سکتی۔ اس مضمون نگار نے اے آئی کے موضوع پر جتنے مضامین اور رپورٹیں پڑھی ہیں اُن کا خلاصہ یہی ہے کہ جب اے آئی بہت سے اہداف حاصل کرچکی ہوگی تب انسانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ اب اُن کے پاس کرنے کیلئے کیا رہ گیا ہے۔
ایسے میں عقیدہ کی روشنی اُلجھن دور کرنے کیلئے کافی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے تو رہے گا، کوئی تکنیکی کارنامہ اُس سے زیادہ اشرف نہیں ہوسکتا۔ ڈر ہے تو صرف اُن لوگوں کا جو احسن تقویم کے قالب میں اپنے اسفل السافلین ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔