Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیا وقف قانون: کئی سوال مگر جواب ایک بھی نہیں!

Updated: April 09, 2025, 1:23 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

اراکین کی تعداد کے سبب وقف ترمیمی قانون پاس تو کروا لیا گیا مگر کیا یہ عدالتوں میں ٹھہر پائے گا؟ اس کا جواب دینا قبل از وقت ہوگا مگر کئی سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پارلیمنٹ نے ۱۹۵۴ء کے وقف قانون کے مقابلہ میں  ۱۹۹۵ء میں  ایک نیا وقف قانون منظور کیا تھا جس میں  بڑی تبدیلیاں  ۲۰۱۳ء میں  کی گئی تھیں ۔ مَیں  نے ان تبدیلیوں  کو شمار کیا تو ان کی تعداد ۵۷؍ تھی۔ تب سے لے کر اب تک صرف ۱۲؍ سال گزرے ہیں ۔ اگر متعلقہ افراد اور اداروں  کی شکایات سے حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مزید ترامیم ضروری ہیں  تو ترمیمی بل کے ذریعہ اصلاحات کو منظور کروانا چاہئے تھا مگر ترمیمی بل ۲۰۲۵ء کا مقصد اصلاحات نہیں  ہے۔ حکومت نے اصلاح کے بجائے موجود قانون پر ایک طرح سے بلڈوزر چلا دیا۔ اب اس کی شکل بھی پہچانی نہیں  جاتی۔
 ایک کثیر جہتی جمہوری ملک میں  تمام مذاہب برابر ہوتے ہیں ۔ ہندوستان میں ، جہاں  ہندوؤں  کی اکثریت ہے اور طریقہ یہ ہے کہ  ہندوؤں  کے مذہبی اور فلاحی اداروں  کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ہندوؤں  کی ہوگی، مسلمانوں  کے مذہبی اور فلاحی اداروں  کی باگ ڈور مسلمان سنبھالیں  گے۔ آئین کی دفعہ ۲۶؍ میں  جو کچھ درج ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو مذہبی اور فلاحی ادارہ جس مذہب کا ہے اسی مذہب کے لوگ اس کو چلائینگے۔ انہیں  منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید یا حصول کی آزادی ہوگی، دیکھ بھال کا ذمہ بھی اُنہیں  کا ہوگا۔
 عملاً یہی ہوتا ہے۔ جو مذہبی اور فلاحی ادارے ہندوؤں  کے ہیں  اُن کا انتظام و انصرام ہندو دیکھتے ہیں ، اُن کے علاوہ کوئی نہیں ۔ کوئی اُن سے نہیں  کہے گا کہ مندروں ، مذہبی عبادت گاہوں ، فلاحی اداروں  وغیرہ میں  کسی غیر ہندو کو شریک کیا جائے (آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ نے تو یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ تروپتی اور ترومالا دیواستھانم میں  غیر ہندو کو ملازم بھی نہ رکھا جائے)۔ یہی طرز فکر یقیناً اُن لوگوں  کا بھی ہوگا جو غیر ہندو مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ بھی یہی چاہتے ہوں  گے کہ اُن کے مذہبی یافلاحی اداروں  میں  اُن کے ہم مذہب لوگوں  کے علاوہ کسی دوسرے کو شامل نہ کیا جائے۔ویسے عملی طور پر بھی آپ یہی پائیں  گے کہ کسی بھی ایک فرقے کے مذہبی یا فلاحی اداروں  میں  کسی دوسرے فرقے کے لوگ نہیں  ہیں ۔
 ۱۹۹۵ء کے وقف ایکٹ میں  اس اُصول کو لازماً شامل رکھا گیا تھا۔ وقف کا معنی کسی املاک کا اُس کے مالک کے ذریعہ کسی کارِ خیر کیلئے ہمیشہ کیلئے دے دینا۔ شرط یہ ہے کہ مقصد فلاحی ہو اور اس املاک کے استعمال کی نگرانی مسلم قانون کے ذریعہ ہو۔ عدالتوں  نے ایسی وقف املاک کو بھی تسلیم کیا ہے جو غیر مسلموں  کی وقف کی ہوئی تھیں ۔ اس کی مثالیں  چاہوں  تو بیک وقت کئی مثالیں  دے سکتا ہوں ۔ موجودہ قانون کے مطابق وقف بڑی حد تک آزاد اور خود مختار ہے (انڈیپینڈنٹ اینڈ آٹونومس)۔ ریاستوں  میں  اس کی نگرانی کیلئے جو ادارہ ہے وہ وقف بورڈ کہلاتا ہے۔ اس کے ممبران مسلمان ہوتے ہیں ۔ چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری ہے۔ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خدمات وقف کے مقاصد کے مطابق پیش کرے۔ تنازع کی صورت میں  انصاف کرنے یا فیصلہ سنانے کا اختیار وقف ٹریبونل ہے۔یہ عدالت جیسا ادارہ ہے جس کا سربراہ ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے۔ قارئین کیلئے یہ معلومات ضروری تھی اس لئے مَیں  نے اس کا اعادہ کیا، اب آئیے متنازع ترمیمی بل کی طرف جو  تمام ضابطوں  اور اب تک کے طریق کار کی دھجیاں  اُڑاتا ہے:

یہ بھی پڑھئے: پاکستان سے نوبیل کیلئے دو نامزدگیاں

 (۱) کوئی بھی شخص وقف نہیں  کرسکتا، یہ اختیار اسی شخص کو حاصل ہوگا جو کم از کم پانچ سال سے اسلام کا پیروکار ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ؟ پھر یہ کیسے ظاہر ہوگا کہ وہ شخص اسلام کا پیروکار ہے؟ اس کا کوئی جواب حکمراں  طبقے کے پاس نہیں  ہے۔
 (۲) وقف کرنے والے شخص کیلئے ضروری ہوگا کہ اُس کیلئے وقف کرنے میں  کوئی فریب (Contrivance) نہیں  ہے۔ یہ کونٹرائونس کیا ہوتا ہے؟اس کا بھی کوئی جواب نہیں  دیا گیا۔ 
 (۳) ایک اصطلاح بہت اہم ہے ’’وقف بائی یوزر‘‘ جس کا معنی ہے کہ کسی کے پاس اُس املاک کا کوئی جواز یا دستاویز نہیں  ہے جو اس کے قبضے میں  ہے مگر وہ املاک برسہا برس سے اس کی دیکھ بھال میں  ہے۔ نیا ایکٹ کہتا ہے کہ وقف بائی یوزر کو نہیں  مانا جائیگا جبکہ عدالتوں  نے ہمیشہ اس کو مانا ہے۔ اب آپ پوچھئے کہ ایسا کیوں  تو اس کا بھی کوئی جواب نہیں  مل رہا ہے۔
 (۴) اگر وقف کی گئی ملکیت پر دعویٰ ہو کہ وہ سرکاری زمین ہے تو حکومت کا کوئی سینئر افسر انکوائری کریگا اور اپنی رپورٹ میں  بتائے گا کہ ملکیت سرکاری ہے یا غیر سرکاری، اس کے ساتھ ہی وہ سرکاری ریکارڈ کو تبدیل کریگا۔ کیا اس کا یہ معنی نہیں  کہ افسر کو منصفی کا حق دے دیا گیا؟ ایسا کیوں ؟ اس کا بھی جواب نہیں  ملتا۔
 (۵) یہ شرط، کہ وقف بورڈ کے تمام اراکین مسلمان ہوں  گے، ختم کردی گئی ہے۔ چنانچہ اب غیر مسلموں  کی بھی تقرری ہوگی، اگر حکومت کی نیت ٹھیک نہیں  ہے تو وہ چاہے گی کہ زیادہ تر اراکین غیر مسلم ہوں ۔ کیا یہ شق دیگر فرقوں  کے مذہبی اداروں  کے قوانین میں  بھی شامل کی جائیگی؟ کیا ہندو مذہبی اور فلاحی اداروں  میں  غیر ہندو افراد کی تقرری ہوگی؟ حکومت اس سوال پر بھی خاموش ہے۔
 (۶)ایک ہوتا ہے لِمیٹیشن ایکٹ جو اَب وقف کے معاملے میں  لاگو ہوگا جس سے غیر قانونی طور پر قابض عناصر  (اِنکروچرس) کی بن آئے گی، وہ اسی ایکٹ کا حوالہ دینگے یا بصورت دیگر اپنی ملکیت جتانے کی کوشش کرینگے۔ کیا ایسا نہیں  ہوگا؟ اس کا بھی کوئی جواب نہیں  دیا گیا ہے۔ آخری اعتراض: (۷) وقف ترمیمی بل کا ماڈل بالکل انوکھا ہے۔ کیا ایسا ہی انوکھا ماڈل دیگر مذاہب کے اداروں  پر بھی عائد کیا جائیگا؟ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں  ملتا۔
 جواب نہ ملے مگر کھیل سمجھ میں  آتا ہے۔ وہ یہ کہ بی جے پی کی قیادت میں  جاری این ڈی اے حکومت مسلمانوں  کو پریشان کرنے کیلئے الگ الگ حربے آزماتی ہے۔ وہ چاہے این آر سی، سی اے اے ہو یا یکساں  سول کوڈ، جموں  کشمیر کی تقسیم ہو یا کوئی اور حربہ، یہ سب وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے۔ ۲۰۔۲۰۱۹ء سے لے کر ۲۴۔۲۰۲۳ء تک اقلیتی اُمور کیلئے جو بجٹ مختص کیا گیا تھا (۱۸۲۷۴؍ کروڑ) روپے، اس میں  سے ۳۵۷۴؍ کروڑ خرچ نہیں  کیا گیا ۔ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ سمیت پانچ اسکیمیں  بند کر دی گئی ہیں ۔ 
 اس پس منظر میں  کہا جاسکتا ہے کہ وقف ترمیمی قانو ن ملک کے  مسلمانوں  کے  مفادات پر تازہ حملہ ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK