• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ کی جنگ کا ایک سال

Updated: October 09, 2024, 1:40 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

غزہ میں نیتن یاہو کے جنگی عزائم جب ناکام ہوگئے تو انہوں نے لبنان میں ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ ویسے غزہ، لبنان، شام یا یمن تو اس پورے ڈرامے میں ثانوی پلاٹ کا درجہ رکھتے ہیں: اسرائیل کا اصلی نشانہ تو ایران ہے۔ایران کو جنگ میں دھکیلنے کیلئے اسرائیل مسلسل سازشیں کررہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 غزہ جیسے ایک ننھے منے سے علاقے کو ایک سال تک تہ و بالا کرنے اور پچاس ہزار نہتے شہریوں  کے قتل عام کے بعد بھی جب’’ مکمل فتح‘‘ کا بنجامن نیتن یاہو کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوسکا تو اسرائیل کے صہیونی وزیر اعظم نے پورے خطے کو جنگ کی آگ میں  جھونک دینے کاتہیہ کرلیا۔۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ءمیں  جنوبی اسرائیل پر حماس کے ڈرامائی حملے کے بعد غزہ میں  نہتے فلسطینیوں  کی نسل کشی اور گھروں ، اسپتالوں ، اسکولوں ، مساجد، گرجا گھروں  اور پناہ گاہوں  کی تباہی کا جو سلسلہ ایک سال قبل شروع ہوا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ نتین  یاہو نے دو اہم جنگی اہداف مقرر کئے تھے: حماس کا مکمل صفایااور اسرائیلی قیدیوں  کی رہائی۔
۱۹۴۸ءمیں  یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرئیلیوں  اور عربوں  کے درمیان لڑی جانے والی یہ طویل ترین جنگ ہے۔ نیتن یاہو نے غزہ کو کھنڈرات کے ڈھیر میں  تبدیل کردیا، پچاس ہزار سے زیادہ نہتے شہریوں  کو جن میں  ۷۰؍ فیصد معصوم بچے اور عورتیں  تھیں  ہلاک کردیا اور حماس کے چوٹی کے لیڈروں  کوقتل کردیا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے اہداف حاصل نہیں  کرسکے۔ ایک سو اسرائیلی ابھی بھی حماس کی قید میں  ہیں ۔ اسرائیلی فوج نے ممکن ہے حماس کی کمر توڑ دی ہو لیکن مزاحمت کاروں  کا حوصلہ نہیں  ٹوٹا ہے۔۷؍ اکتوبرکی برسی پر حماس نے تل ابیب پر میزائل داغ کر یہ اعلان کردیا کہ’’ ٹائیگر ابھی زندہ ہے۔‘‘
غزہ میں  نیتن یاہو کے جنگی عزائم جب ناکام ہوگئے تو انہوں   نے لبنان میں  ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ ویسے غزہ، لبنان، شام یا یمن تو اس پورے ڈرامے میں  ثانوی پلاٹ کا درجہ رکھتے ہیں : اسرائیل کا اصلی نشانہ تو ایران ہے۔ایران کو جنگ میں  دھکیلنے کے لئے اسرائیل مسلسل سازشیں  کررہا ہے گرچہ ایرانی حکومت بار بار یہ اعلان کرتی رہی ہے کہ اسے اس جنگ میں  حصہ نہیں  لینا ہے۔اپریل میں  اسرائیل نے شام میں  ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے جب کئی جنرلوں  کو ہلاک کردیا تب اس کا یہ جرم ہی جنگ بھڑکانے کے لئے کافی تھا لیکن تہران نیتن یاہو کی جال میں  نہیں  پھنسا۔تہران میں  حماس کے سیاسی رہنما اسمعیل ہانیہ کے سفاکانہ قتل کے باوجود ایران نے جوابی کارروائی نہیں  کی کیونکہ وہ جنگ ٹالنا چاہتا تھا۔ یکم اکتوبر کو یلسٹک میزائل داغے ضرور لیکن اس بات کا خیال رکھا کہ اسرائیلی شہریوں  کی ہلاکتیں  نہ ہوں ۔ایرانی صدرمسعود پزشکیان نے دوحہ میں  بھی واضح کردیا کہ ایران کی جنگ میں  کوئی دلچسپی نہیں  ہے۔ لیکن یہ کہا نہیں  جاسکتا ہے کہ ایران کے صبر کا پیمانہ کبھی لبریز نہیں  ہوگا۔ فارسی کی پرانی کہاوت بھی ہے تنگ آمد بجنگ آمد۔قصہ مختصر یہ کہ اس وقت سارا مشرق وسطیٰ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے۔ نیتن یاہو کسی بھی وقت تہران پر حملہ کرسکتے ہیں ۔صہیونیوں  کی نظروں  میں  ایران کی جوہری تنصیبات ایک عرصے سے کھٹک رہی ہیں ۔ اگر نیتن یاہو نے ایران پرحملہ کردیا توان کی یہ جارحیت پورے خطے کو جنگ کی آگ میں  جھونک دے گی۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں  کہ اگر ایران بھی جنگ میں  کود پڑا توعلاقائی جنگ کتنی طویل ہوسکتی ہے۔
 ویت نام کی جنگ میں  امریکہ کی شکست کا تجزیہ کرتے ہوئے ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکی حکمراں  گوریلا جنگ کا یہ بنیادی اصول سمجھ نہ پائے کہ اگرعسکریت پسندجنگ ہارتے نہیں  ہیں  تو یہی ان کی جیت ہوتی ہے اور اگر فوج جنگ جیتتی نہیں  ہے تو یہ اس کی ہار ہے۔ کسنجر کے اس عینک سے دیکھیں  تو غزہ میں  اسرائیل کی شکست ہوئی ہے۔ اسرائیل فوج کے سابق سربراہ ڈین ہیلٹزنے کئی ماہ قبل ہی یہ دعویٰ کردیا تھا کہ اسرائیل جنگ ہار چکا ہے۔ معروف تجزیہ کار تھامس فریڈمین نے (جو یہودی بھی ہیں  اور اسرائیل نوازبھی)غزہ جنگ کی پہلی برسی پر نیو یارک ٹائمز میں  جو کالم لکھا ہے اس میں  انہوں  نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ’’ پہلی عرب۔اسرائیل جنگ ہے جس میں  کوئی واضح فاتح نہیں ‘‘ہے کیونکہ کسی فریق کو فیصلہ کن جیت حاصل نہیں  ہوئی ہے۔
 یاد رہے کہ یہ جنگ اسرائیل تنہا نہیں  لڑرہا ہے۔ اس کی پشت پر امریکہ جیسا سپر پاور کا ہاتھ ہے۔ ایک سال میں  امریکہ اسرائیل کو اٹھارہ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرچکا ہے۔ ایک سال قبل غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری کا دفاع کرتے ہوئے امریکہ، برطانیہ اور تمام یورپی ممالک کے سربراہان یہ  راگ الاپ رہے تھے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ وہ غزہ کی تباہی اور فلسطینیوں  کے قتل عام کیلئے حماس کے حملوں  کو ذمہ دار ٹھہرارہے تھے۔ لیکن وہ ان مظالم اور ذلتوں  کا تذکرہ گول کرجا تے جو فلسطینی عوام ۷؍ اکتوبر کے بہت پہلے سے مسلسل جھیل رہے تھے۔ دراصل۷؍ اکتوبر کو سولہ برسوں  سے’’ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل‘‘ میں  سسک سسک کر جی رہے لاکھوں  فلسطینی باشندوں  کے سینوں  میں  پل رہا آتش فشاں    پھٹ پڑا تھا۔ جب جو بائیڈن، رشی سونک اور دیگر مغربی رہنما سارا ملبہ حماس کے سر ڈالنے میں  مصروف تھے اس وقت اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو غطیرس نے دنیا کو آئینہ دکھادیا۔’’ حماس   کے   حملے خلاء میں  نہیں   ہوئے‘‘ یہ کہہ کر   غطیرس دنیا کو یہ تلقین کر  رہے تھے کہ  ان  حملوں  کے بیک گراؤنڈ کو بھی ذہن میں  رکھنے کی ضرورت ہے۔  غطیرس نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ فلسطینی باشندے ۵۶؍برسوں  سے دم گھٹنے والے ناجائز قبضے میں  جی رہے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ غزہ میں  اسرائیلی بربریت رکوانے میں  اقوام متحدہ ناکام رہا لیکن وہ جابر حکمرانوں  کے سامنے کلمہ حق ضرور ادا کرتا رہا۔  

یہ بھی پڑھئے: امریکہ اسرائیل کوپیسہ بھی دیتا ہے اور اسلحہ بھی

 امریکہ کی تمام تر کوششوں  کے باوجود پچھلے ایک سال میں  اقوام متحدہ میں  اسرائیل کیخلاف کئی قراردادیں  پیش کی جاچکی ہیں ۔ ابھی پچھلے ماہ جنرل اسمبلی میں  ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں  اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے سے اپنی غیر قانونی موجودگی  بارہ ماہ کے اندر ختم کردے۔۱۲۴؍ممالک نے اس قرارداد کے حق میں  اور صرف ۱۴؍ممالک نے اس کی مخالفت میں  ووٹ دیا۔ ۷؍ اکتوبر کے حملوں  کے بعد سے ساری دنیا میں  مسئلہ فلسطین کی گونج سنائی دے رہی ہے۔دنیا بھر میں  غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کیخلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ کی تاریخ  میں  کسی کاز کیلئے عام لوگ اتنی بھاری تعداد میں  سڑکوں  پر نہیں  نکلے تھے جتنے جنگ بندی کے مطالبے پر واشنگٹن اور لندن میں  نکلے۔ فلسطینی پرچم ساری دنیا میں  سب سے زیادہ پہچانے جانے والا قومی پرچم بن گیا۔ اسرائیل کا پروپیگنڈہ فیل ہوچکا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں  کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ غزہ میں  مسئلہ حماس کے۷؍ اکتوبر کے حملوں  سے پیدا نہیں  ہوا ہے بلکہ مسئلے کی جڑ اسرائیل کا ناجائز فوجی تسلط ہے اور مسئلے کا حل فلسطینیوں  کی نسل کشی نہیں  بلکہ فلسطینیوں  کی آزادی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK