اسرائیل نے پہلے غزہ اور پھر لبنان پرشدید بمباری کی ہے، اس میں بہت خطرناک میزائیل اور بمبار طیارے لگے ہوئے تھے، یہ طیارے اور پورا اسلحہ اسرائیل کو کہاں سے ملا؟ اُس نے یہ ہتھیار امریکہ سے لئے، امداد تو وہ لیتا ہی ہے!
EPAPER
Updated: October 08, 2024, 1:47 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اسرائیل نے پہلے غزہ اور پھر لبنان پرشدید بمباری کی ہے، اس میں بہت خطرناک میزائیل اور بمبار طیارے لگے ہوئے تھے، یہ طیارے اور پورا اسلحہ اسرائیل کو کہاں سے ملا؟ اُس نے یہ ہتھیار امریکہ سے لئے، امداد تو وہ لیتا ہی ہے!
اسے اتفاق بھی کہہ سکتےہیں ا ور ایک سوال بھی کہ ستمبر یعنی پچھلے ماہ کے آخری ہفتہ میں تل ابیب میں ایک جشن منایا گیا جس میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سینہ پھلا کرصہیونیوں سے کہہ رہے تھے کہ انہوں نے چھ دن پہلے اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا تھا اور اس بار انہوں نے حسن نصراللہ کو بھی شہید کرد یا۔اپنے خیال میں انہوں نے اسرائیل کے دو دشمنوں کوختم کر دیا لیکن اُس کے اگلے ہی ہفتہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ تہران اور مشہد میں ویسا ہی سماں تھا، اس باریہاں جشن منایا جارہا تھا کہ ایران نے تل ابیب کے پاس بلاسٹک میزائل کا ایسا زبر دست حملہ کیا کہ جو معمولی حملہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے شہر کا شہر ویران ہو گیا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اسرائیلی حملہ میں مرنےوالے لبنانیوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی اور ایران کے حملہ میں مر نے والے صہیونیوں کی تعداد کافی کم۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اس اچانک حملہ میں آٹھ اسرائیلی ختم ہوئے تھے، لیکن حملہ اتنا سخت اور اچانک تھاکہ تمام اسرائیل میں کئی گھنٹوں تک سائرن بجتے رہے اور اسرائیلی فضائی نظام بے ترتیب ہوگیا۔ اِس دوران اسرائیلی فوج کو سخت آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ایک اور بات کیلئے بھی جشن کا ماحول تھا، یروشلم پوسٹ نے یہ بھی بتایا کہ کن میزائیلوں کے ذریعہ یہ تباہی کی گئی، اس کے نیچے کئی میزائیل ہیں بلکہ جتنی تباہی ہوئی اُس سے زیادہ میزائیل تھے جو کسی بھی وقت داغے جاسکتے تھے۔ حالات بالکل ایک جنگ جیسے ہوگئے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ابھی کسی بڑی جنگ کا فیصلہ بہت مشکل ہے، امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے ، لیکن اب سے دو ماہ بعد وہاں الیکشن ہونے والے ہیں ، ٹرمپ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت حالات بہت اہم ہیں ، امریکہ الیکشن کی وجہ سے جنگ نہیں ہونے دے گا۔ لیکن یہ صرف ہمارا خیال ہے۔
اب ذر ا لبنان کے حالات جان لیجئے، لبنان میں دوقوموں کی بہتات ہے، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرے عیسائی ہیں ، کچھ عرصہ قبل تک انہوں نے ایک سمجھوتہ کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ طے پایا تھا کہ وہاں ایک بارمسلمان صدر ہوگا اور دوسری بار عیسائی، یہ سمجھوتہ بہت عرصہ تک جاری رہا، اس دوران لبنان میں معاشی حالات میں خاصی بہتری پیدا ہوئی۔ دُنیا بھر کے تاجر وہاں آتے رہے، ہمیں اُمید ہے کہ ہندوستان کے کئی تاجر وہاں موجود تھے اور وہاں سےتجارت کرتے رہے، لیکن یورپی لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ ایشیاء میں کوئی بارونق بازار لگے اس لئے انہوں نے وہاں لوگوں میں پھوٹ ڈال دی۔ایشیا ءمیں جنگ بڑھتی ہی چلی گئی۔
حزب اللہ پہلے ایک نیم فوجی تنظیم تھی لیکن اس کے سردار اتنے جیالے تھے کہ اُنہوں نے دھیرے دھیرے ایک ایسی مکمل فوج تیار کرلی جو دُنیا کی کسی بھی باضابطہ فوج کی ہمسر سمجھی جانے لگی۔ تین سال پہلے انہوں نے اسرائیل کو ایسی شکست دی تھی کہ اسرائیل کو یہ پتہ چل گیا کہ حزب اللہ اس کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔حسن نصراللہ اس کے سربراہ تھے، انہیں تعلیم کے لئے عراق بھیجا گیا، وہ امام کعبہ کے بہت بڑے معتقد تھے۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے چند اور باتوں کا جان لینا ضروری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ موجودہ حالات میں حزب اللہ نے براہ راست میگان میں حملہ کیا اور وہاں اسرائیل فوج کے خیمے اکھاڑ پھینکے، اس وقت بائیڈن امریکی دفاعیہ کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے، انہوں نے حالات پر تشویش کا اظہار تو ضرور کیا لیکن بس اتنا ہی کہا کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے، وہاں سمجھنے کی بات ہے کہ اسرائیلیوں بلکہ یہودیوں کے ساتھ ایک تاریخی معاملہ ہے۔ یہودی اسی دنیا میں اپنی مہاجنی سود خوری کیلئے جانے جاتے ہیں ، مثال کے طور پر شیکسپئیر کا ڈرامہ ’مرچنٹ آف وینس‘تیرہویں صدی کا ڈرامہ ہے۔ اس کا خاص پیغام سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ پوری طرح اسرائیل کا حمایتی ہی نہیں طرفدار بھی ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور پر یورپ میں یہودیوں کو اسی مہاجنی اور سود خوری کے بارے میں جانا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہودی لین دین کے معاملہ میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں ، انہیں بزنس کیلئے ایک آدرش قوم سمجھا جاتا تھا، وہ اپنی سود خوری کیلئے بہت مشہور یا بدنام تھے لیکن اس معاملہ میں امریکیوں نے یہودیوں کو بھی مات دے دی۔
اسرائیل کی فوجی طاقت بہت زیادہ ہے،عرب اس کے آگے کچھ بھی نہیں ، اسرائیل نے پہلے غزہ اور پھر لبنان پرشدید بمباری کی ہے، اس میں بہت خطرناک میزائیل اور بمبار طیارے لگائے ہیں ، یہ طیارے اور بمباری کے لوازمات یا اوزار اسرائیل کو کہاں سے ملے؟ اسرائیلی کچھ اسلحہ خود بنالیتے ہیں ، لیکن اتنے خطرناک ہتھیار بنانا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا، اسرائیل نے یہ ہتھیار امریکہ سے لئے ہیں ۔ امریکہ بات بات پر اسرائیل کو قرض نما امداد دیتا ہے،حال ہی میں امریکہ نےڈھائی ارب ڈالر کا قرض یا امداد دی ، اسرائیل اسی رقم سے ہتھیار خریدتا ہے، یہ ہتھیار امریکہ اور صرف امریکہ میں بنائے جاتے ہیں ، گویا امریکہ ایک ہاتھ سے اسرائیل کو امداد دیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے امریکی ہتھیار بیچتا ہے یعنی امریکی خزانے میں وہی رقم گھوم پھر کر واپس آجاتی ہے، گویا اس لین دین میں بھی امریکہ نے یہودیوں کو شکست دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں راہل گاندھی کی تقریر پر ہنگامہ کیوں؟
ایک اور بات جان لیجئے۔ کسی عرب حکمراں نے آج تک حماس کا نام بھی نہیں لیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس کے ارباب اقتدار جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ، وہ بھی الیکشن لڑ کر اور الیکشن جیت کرآئے ہیں ، لیکن عرب حکمراں یہ بھول جاتے ہیں کہ فلسطین مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے۔ تحویل کعبہ سے قبل، اسی کی طرف رخ کرکے مسلمانوں نے نماز پڑھی ہے ۔مسلمانوں سے یہ خیال کوئی چھین بھی نہیں سکتا۔ یوں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ عرب عوام کی بہت بڑی آبادی حماس اور فلسطین کے ساتھ ہے۔ اس میں کسی کو شبہ بھی نہیں ہوسکتا، یہ بات اسرائیل اور امریکہ بھی خوب جانتے ہیں ۔