۵۳؍ برسوں بعد دونوں ممالک ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگانے کیلئے بے قرار نظر آرہے ہیں لیکن یہ یاد رہنا چاہئے کہ نئے دوست بنانے کیلئے پرانے دوستوں سے تعلقات ختم کرلیناخارجہ پالیسی کی خطرناک ناکامی ہے۔
EPAPER
Updated: December 25, 2024, 1:44 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
۵۳؍ برسوں بعد دونوں ممالک ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگانے کیلئے بے قرار نظر آرہے ہیں لیکن یہ یاد رہنا چاہئے کہ نئے دوست بنانے کیلئے پرانے دوستوں سے تعلقات ختم کرلیناخارجہ پالیسی کی خطرناک ناکامی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ انقلاب کے بطن سے اکثر ناقابل تصور تبدیلیاں اورتغیرات جنم لیتے ہیں ۔ ۵؍ اگست کو بنگلہ دیش میں آئے عوامی انقلاب کے بعد سے ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک میں بھی ناقابل یقین تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ شیخ حسینہ جیسی تانا شاہ کو جوطویل عرصے سے اقتدار پر قابض ہونے کی وجہ سے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگی تھیں ، نہ صرف اپنا راج پاٹ بلکہ ملک تک چھوڑنا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمن جنہیں بابائے قوم کہا جاتا تھااور پوری قوم جن کی تعظیم کرتی تھی،ان کے مجسموں کو منہدم کرکے ان کی بے حرمتی کی گئی۔
ایک بڑی تبدیلی بنگلہ دیش اور ہندوستان کے رشتوں میں بھی آئی۔ شیخ حسینہ کے طویل دور اقتدار میں دونوں ہمسایہ ممالک کے سفارتی، ثقافتی، اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات بے حد گہرے اور مستحکم تھے۔ لیکن ان کے معزول اور ملک سے فرار ہونے کے بعد سے ان دوستانہ رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اس وقت بدگمانیاں اور تلخیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ دونوں دشمنی پر اتر آئے ہیں ۔یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ محض ساڑھے چارماہ میں ڈھاکہ اور نئی دہلی کے رشتے اتنے بگڑ گئے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ ڈھاکہ اور اسلام آباد کی قربتیں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ابھی تک کوئی ملاقات تک نہیں ہوئی ہے جبکہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ان کے دو دو بار مذاکرات ہوچکے ہیں ۔اور بھی کئی حیرت انگیز واقعات ہوئے ہیں ۔ پچھلے ماہ نصف صدی کے بعد پہلی بار ایک مال بردارپاکستانی جہاز چٹاگانگ کی بندر گاہ پرلنگر انداز ہوا۔ یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کااعلان تھا۔ ڈھاکہ میں قائد اعظم جناح کی برسی کا انعقاد بھی ۵۳؍برسوں میں پہلی بار ہوا۔ بنگلہ دیش نے پاکستانی شہریوں کیلئے سفری پابندیاں ختم کردی ہیں ۔ تین دن قبل ڈھاکہ کے آرمی اسٹیڈیم میں راحت فتح علی خان نے اپنی آواز کا جادو بکھیرا اور ہزاروں بنگالی اس پاکستانی فنکار کے نغموں پر جھومے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے دو جڑواں بھائی جو نصف صدی قبل بچھڑ گئے تھے، ایک دوسرے سے ملے ہوں ۔
محمد یونس اورشہباز شریف کے ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں مذاکرات ہوچکے تھے۔پچھلے ہفتے مصر میں ہوئے ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس کے سائیڈلائن پرایک بار پھر دونوں رہنماؤں کی تفصیلی بات چیت ہوئی جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مضوط بنانے اورتمام شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ یونس نے شریف کو یاد دلایا کہ ۱۹۷۱ء کے معاملات کو ایک بار حتمی طور پر طے کرلینے کی ضرورت ہے تاکہ ڈھاکہ پاکستان کے ساتھ رشتے استوار کرکے آگے بڑھ سکے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ یونس نے صرف ۱۹۷۱ء کے ایشوز کو طے کرنے کی بات کی: انہوں نے پاکستان سے معافی کا مطالبہ نہیں کیا۔ڈھاکہ کے موقف میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اب تک بنگلہ دیشی حکومت اس بات پر اڑی ہوئی تھی کہ پاکستان سے رشتے اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتے ہیں جب تک پاکستانی حکمراں بنگلہ دیش میں ڈھائے گئے فوجی مظالم کیلئے معافی نہیں مانگ لیتے ہیں ۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد بنگلہ دیش کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔انہوں نے برملا یہ تسلیم بھی کیا کہ ۱۹۷۱ء میں فوج نے مشرقی پاکستان میں مظالم ڈھائے تھے۔ عمران نے ۲۰۲۰ء میں شیخ حسینہ سے فون پر بات بھی کی لیکن ان کی دال نہیں گل سکی۔ حسینہ کا موقف صاف اور واضح تھا: پاکستان جب تک ۱۹۷۱ء کے قتل عام کے لئے بنگلہ دیش کے عوام سے معافی نہیں مانگتا ہے تب تک اس سے دوستی نہیں ہوسکتی ۔ شیخ حسینہ کے سولہ سالہ دور اقتدار میں بنگلہ دیش کے تعلقات پاکستان سے بے حد خراب ہوگئے اور اس خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حسینہ نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر پاکستانی آرمی کے ساتھ ساز باز کرنے کے جرم میں مقدمے چلائے اور کئی بزرگ لیڈروں کو پھانسی پر چڑھادیا۔ سات سال قبل بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی ملٹری پر مشرقی پاکستان کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا۔ حسینہ نے دعویٰ کیا کہ نسل کشی میں تیس لاکھ لوگوں کوقتل کیا گیا اور دولاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے : دنیا میں بائیں بازو کا رجحان
حسینہ شاید تاریخی حقائق سے لاعلم ہونے کی وجہ سے پاکستان سے بار بار معافی کا تقاضہ کرتی رہیں ۔ پاکستان نے فروری ۱۹۷۴ء میں سرکاری طور پر بنگلہ دیش کو ایک آزاد خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیاتھا اور دو ماہ بعد معافی بھی مانگ لی تھی۔اپریل ۱۹۷۴ء میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک سہ طرفہ معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے میں پاکستان کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں کئے گئے جرائم کی مذمت کی اور ان پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ معاہدہ میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی جانب سے بنگلہ دیش کے عوام سے ماضی کی زیادتیوں کو فراموش اور معاف کرنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔ اس معاہدہ کے بعد شیخ مجیب نے پاکستان کے تقریباً دو سو فوجی اور غیر فوجی افسران پرجنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا اپنا فیصلہ ترک کردیا تھا۔ ۱۱؍ اپریل ۱۹۷۴ء کے نیویار ک ٹائمز کے شمارے میں اس معاہدے پر ایک خصوصی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کی سرخی تھی Pakistan Offers Apology to Bangladesh۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس معاہدے کے دو ماہ بعد وزیر اعظم بھٹو نے بنگلہ دیش کے دورے پرپاکستانی فوج کے ذریعہ کئے گئے مظالم پر گہرے تاسف کا اظہار کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے فوجی جنرلوں کو ۱۹۷۱ء کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’طاقت کے بھوکے آمروں کے جرائم کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں ۔‘‘
جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات پورے خطے کی ترقی کے لئے فائدہ مند ہیں ۔بنگلہ دیش اگر پاکستان سے دوستی کا خواہاں ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔لیکن نئے دوست بنانےکے لئے پرانے دوستوں سے تعلقات ختم کرلیناخارجہ پالیسی کی خطرناک ناکامی ہے۔میں مانتا ہوں کہ محمد یونس کو سیاست اور سفارت کاری کا زیادہ علم نہیں ہے لیکن ۸۵؍ سالہ نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات سے اتنی دانشمندی کی توقع تو کی جاسکتی ہے وہ اسلام آباد سے قربتیں بڑھانے کی بے قراری میں نئی دہلی سے دوریاں نہ بڑھائیں ۔