عوام کی اکثریت نے یہ بات قبول کی کہ مندر ،مندر رہے گا ، مسجد، مسجد رہے گی، چرچ، چرچ رہے گا اور گردوارہ، گردوارہ رہے گا ۔ اسکے علاوہ جس کسی مذہب کا جو بھی مذہبی مقام ہے،اس کی جو حیثیت ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تھی ، وہ جوں کی توں برقرار رہے گی ۔
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 1:45 PM IST | P Chidambaram | Mumbai
عوام کی اکثریت نے یہ بات قبول کی کہ مندر ،مندر رہے گا ، مسجد، مسجد رہے گی، چرچ، چرچ رہے گا اور گردوارہ، گردوارہ رہے گا ۔ اسکے علاوہ جس کسی مذہب کا جو بھی مذہبی مقام ہے،اس کی جو حیثیت ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تھی ، وہ جوں کی توں برقرار رہے گی ۔
میں نےکئی قوانین کو بنتے ہوئے قریب سے دیکھا ہے اوران میں کسی نہ کسی طرح میری شمولیت بھی رہی ہے۔میں نے قوانین بنانے والوں کو اکثر اس پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی ہےکہ بل مختصرہو،(اس کی زبان) دلچسپ ہو اورواضح ہو۔
ایسا ہی ایک قانون عبادتگاہ قانون (خصوصی التزامات ) ۱۹۹۱ء تھا۔ میرے خیال میں یہ قانون مختصر ہے ۔ یہ صرف ۸؍ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصدبھی ایک ہی ہےکہ آزادی کے وقت جوعبادتگاہ جس حالت میں تھی ، وہ اسی حالت پر برقرار رہے گی ۔ یہ بالکل واضح تھا،اس میں ’اگر‘ ،’مگر‘ یا ’بہر حال ‘ جیسی کوئی بات نہیں تھی اور یہ ’ غیر جانبدار ‘ تھا ۔میں ہر ایک کو ترغیب دینا چاہوں گا کہ مذکورہ قانون کی دفعہ۳؍ اوردفعہ ۴(۱)کا مطالعہ کیاجائے جو درج ذیل ہیں :
عبادت گاہ میں تبدیلی پر پابندی :کوئی بھی شخص کسی عبادت گاہ یا کسی مذہبی علامت والے مقا م کو اسی مذہب کے کسی دوسرے علامت والے مقام یا کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ یا علامت والے مقام میں تبدیل نہیں کر سکتا ۔
کچھ مخصوص عبادت گاہوں کا مذہبی کردار اور عدالتی اختیارات کی حدود :یہاں اعلان کیاجاتا ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کے دن جو عبادت گاہ جس مذہبی حیثیت میں تھی ، وہ اس حیثیت میں برقرار رہے گی۔ اس سے استثنیٰ صرف ایودھیا میں واقع رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد کو حاصل تھا کیونکہ یہ تنازع اس سے پہلے سے جاری تھا ۔
اس قانون کے پس پشت جو نیت تھی ، مقصد تھا ، جذبہ تھا اورجو امکانات تھے،انہیں عام طورپر قبول ہی کیاگیا ۔اس قانون کا مقصد حاصل بھی کیاگیا۔یہی وجہ تھی کہ عبادت گاہ اورمذہبی مقامات کے معاملے پر۳۰؍ سال خاموشی رہی اورحالات پُرامن رہے ۔ عوام کی اکثریت نے یہ بات قبول کی کہ مندر ،مندر رہے گا ، مسجد، مسجد رہے گی ،چرچ، چرچ رہے گا ، گردوارہ، گردوارہ رہے گا اورکنیسہ ،کنیسہ رہے گا۔ اسکے علاوہ جس کسی مذہب کا جو بھی مذہبی مقام ہے،اس کی جو حیثیت ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تھی ، وہ جوں کی توں برقرار رہے گی ۔
بد قسمتی سے اس قانون پر عمل آوری کی مثالوں سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں ۔ پارلیمنٹری ریسرچ فیسیلٹی(پی آر آئی ایس ایم) سےکئے گئےسوالات میں یہ سامنے آیا ہےکہ تین مواقع پر آج کی حکومت نےاس قانون کے تحت مقدمات قائم کرنے اورگرفتاریوں پر بالکل معمولی جوابات د ئیے ہیں ۔یہ بھی کہا جاسکتا ہےکہ اس قانون پر عمل درآمد کے معاملے میں اس دوران جو بھی حکومتیں آئیں ،انہوں نےاسے بڑی آسانی سے نظر انداز کیا ہے۔
۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کوسپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔اس میں جو اپیلیں کی گئیں ،ان سے کافی کچھ سمجھا جاسکتا ہے:عبادتگاہ قانون(خصوصی التزاما ت) ۱۹۹۱ء کے ابواب ۲،۳؍ اور۴؍ کو غیر موثر اور غیر آئینی قراردے دیاجائے کیونکہ درخواست دینے والوں کے مطابق یہ عبادتگاہیں بیرونی حملہ آوروں کے ذریعے تعمیر کی گئی ہیں اور غیر قانونی ہیں ۔ یہ نشاندہی کی جانی چاہئے قانون کےابواب۳؍ اور۴؍ ہی حقیقت میں اس پورے قانون کی بنیاد ہیں ۔انہیں نکال دینے پراس قانون میں کچھ نہیں بچتا ۔ ان التزامات کو سپریم کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیاگیا ہے کہ ان سے ہندوستانی دستور کی دفعات ۱۴،۱۵،۲۱،۲۵،۲۶ ؍ اور۲۹؍کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔یہ بھی واضح رہےکہ پٹیشن داخل کرنےو الےکے نزدیک یہ عبادتگاہیں بیرونی حملہ آوروں کے ذریعے تعمیر کی گئی ہیں اورغیر قانونی ہیں ۔ اپنی درخواست میں درخواست گزار نے یہ واضح او ر ظاہر کردیا کہ وہ کس کی حمایت کررہا ہے اورکس کے خلاف ہے۔ درخواست گزار چاہتا تھا کہ ہندو، جین، بودھوں اورسکھوں کی عبادتگاہوں کوقانونی عمل کے ذریعے بحال کیاجائے ۔ یہ رٹ پٹیشن ۲۰۲۰ء سے زیر التوا ہے۔
۲۰۲۳ء میں سپریم کورٹ نے وارانسی کی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی طرف سے دائر کردہ اسپیشل لیو پٹیشن(ایس ایل پی) پرسماعت کی تھی۔ ایس ایل پی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ۳؍ اگست ۲۰۲۳ء کے حکم کو چیلنج کیا گیاتھا۔ ڈسٹرکٹ جج نے اس علاقے کے محکمہ آثار قدیمہ(اے ایس آئی) کے سروے کی ہدایت دی تھی جہاں گیانواپی مسجد واقع ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ اپیل خارج کر دی تھی جس کے بعد درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ۴؍ اگست ۲۰۲۳ء کے ایک حکم نامے کے ذریعے کہاتھا کہ’’ ہم ہائی کورٹ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے سے قاصر ہیں ، بالخصوص ایسے میں جبکہ ہم آئین کی دفعہ ۱۳۶؍ کے دائرہ اختیار کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ ہم نے سالیسٹر جنرل کی عرضداشت کو ریکارڈ کیا ۔(اور یہ حکم دیا ) کہ(سروے کا) پورا عمل اے ایس آئی کے ذریعے مکمل کیاجائےگااور وہ بھی ایسے طریقے سے جو جارحانہ نہ ہو۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:عالمی جدول اور ان میں ہندوستان کا مقام
عدالت نے مدعیان کے مقصد کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جنہوں نے ۲۰۲۲ء میں سول سوٹ ۱۸؍ دائر کیا تھااور اس میں درخواست کی تھی کہ وہ گیان واپی مسجد کے احاطے میں پوجا پاٹ کرنے کا ا ختیار رکھتے ہیں جہاں دیوی دیوتاؤں کی باقیات موجود ہیں ۔ مدعیان کی واضح کوشش وہاں پوجا پاٹ کی اجازت حاصل کرنا تھا ۔ اگر انہیں وہاں پوجا پاٹ کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ عمل مسجد کو جزوی طور پر مندر میں تبدیل کر دے گا۔ ایسے ہی کسی اقدام کی ممانعت پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے سیکشن ۳؍ اور۴؍ میں تھی اور یہ بات بالکل سادہ زبان میں بیان کی گئی تھی۔
کیا مدعیان کے مقصد اور انہوں نے جو پوجا کی اجازت اپیل میں مانگی تھی ، اسکے مضمرات ونتائج کا اندازہ کرنا عدالت کیلئے مشکل تھا؟ میرے خیال میں ، سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت ’مکمل انصاف ‘ کیلئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے تھا اوریہ کہتے ہوئے اس مقدمہ کو خارج کردینا چاہئے تھا کہ جس قانون کا ۳۰؍ سال احترام کیاگیا ، اسے برقرار رہنا چاہئے۔گیانواپی کے حکم کے بعد، متھرا کی عیدگاہ، سنبھل کی جامع مسجد، دہلی میں قطب کمپلیکس اور راجستھان میں اجمیر شریف درگاہ کے بارے میں تنازعات کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ یہ کہاں ختم ہو گا؟