اکثر بحث یا بیان بازی ہوتی ہے کہ گلیوں اور سنسان مقامات پر روشنی ہو، ملازمت کی جگہ کو محفوظ بنایا جائے، پولیس عملہ زیادہ مستعد اور ہمدرد بنایا جائے مگر عملاً ایسے اقدامات کم ہی ہوتے ہیں جو ثمر آور ثابت ہوں۔
EPAPER
Updated: September 13, 2024, 1:38 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اکثر بحث یا بیان بازی ہوتی ہے کہ گلیوں اور سنسان مقامات پر روشنی ہو، ملازمت کی جگہ کو محفوظ بنایا جائے، پولیس عملہ زیادہ مستعد اور ہمدرد بنایا جائے مگر عملاً ایسے اقدامات کم ہی ہوتے ہیں جو ثمر آور ثابت ہوں۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک میں عصمت دری یا جنسی استحصال کے خلاف قانون نہیں ہے۔ یہاں سخت قوانین پہلے ہی موجود ہیں اس کے باوجود ۲۰۱۲ ء میں دہلی میں ہوئے نربھیا معاملے میں جب سخت ردعمل اور عوامی غصہ سامنے آیا تو قوانین میں ترمیم کی گئی۔ تبدیلی کے بعد ہی عصمت دری یا جنسی استحصال کے کسی معاملے میں موت کی سزا دنیا بھی ممکن ہوا لیکن برا ہو شیطنت اور درندگی کا کہ جنسی استحصال اور قتل کے معاملات میں کوئی کمی نہیں آئی، بعض معاملات کے بعد تو پورا ملک سکتے میں پڑ گیا۔ اب مغربی بنگال اسمبلی میں ایک نیا قانون پاس ہوا ہے اور اس کو پاس کرنے میں حکمراں اور حزب اختلاف نے اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت:
جنسی جبر، عصمت دری یا جنسی جبر اور قتل یا جس کو جنسی جبر کا شکار بنایا گیا ہے اس کو مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جانے کے معاملے میں موت کی سزا دی جاسکے گی۔
پہلے اس قسم کے معاملات میں ایف آئی آر درج ہونے کے دو مہینہ بعد تک تحقیق جاری رکھی جاسکتی تھی مگر اب یہ تحقیق ۲۱؍ دن میں ہی مکمل کرنی ہوگی۔
جلد انصاف دلانے کے لئے اس قانون میں اسپیشل ٹاسک فورس اور اسپیشل کورٹ بنانے یا قائم کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔
منگل، ۳؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو یہ مسودہ قانون پاس تو ہوگیا ہے اور اس کو پاس کرانے میں اس پارٹی نے بھی ساتھ دیا ہے جو بنگال اسمبلی میں اقلیت میں مگر پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہے اس لئے وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کا ریاستی حزب اختلاف کے لیڈر سے یہ درخواست کرنا جائز ہے کہ وہ گورنر سے کہیں یا درخواست کریں کہ وہ جلد منظوری دیں تاکہ اس کو صدر جمہوریہ کے پاس منظوری کے لئے بھیجا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ کو یہ درخواست کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ سوال ہے مگر اس کا جواب مشکل نہیں کہ اسمبلی میں پاس ہوجانے کے باوجود کئی مسودۂ قانون کے گورنر کے ذریعہ روک لئے جانے کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔ اس قانون کی ضرورت تھی یا نہیں ، اور ممتا بنرجی سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں یا مرکز میں حکمراں جماعت؟ اس پر الگ الگ رائے ہوسکتی ہے مگر جس مسودۂ قانون کو اسمبلی میں اتفاق رائے سے پاس کیا گیا ہے اس کو گورنر کی منظوری دلانے میں حزب اختلاف کے لیڈر سے وزیر اعلیٰ کا درخواست کرنا بہت معنی خیز ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ مرکز میں برسر اقتدار جماعت نے ریاستی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی یا حکومت کا ساتھ دے کر یہ پیغام تو دے دیا کہ وہ بھی عورتوں کے تحفظ کے لئے فکرمند ہے اور اس کے لئے ہر مثبت عمل کی حمایت کرتی ہے۔ مگر مسودہ قانون کے پاس ہو جانے کے بعد یا پاس کرانے کے لئے کی گئی ممتا بنرجی کی تقریر سے خائف بھی ہے لہٰذا وہ اس کو گورنر کے ذریعہ رکوا بھی سکتی ہے۔
اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی جارہی ہیں مثلاً یہ کہ کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک ایسی ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے بعد جو ٹریننگ لے رہی تھی، عوامی غصہ پھوٹ پڑا اور ہر سطح پر مذمت کی جانے لگی تو یہ قانون بنایا گیا ورنہ قتل اور عصمت دری کو روکنے کے لئے قانون تو پہلے سے موجود ہیں ۔ اس بات یا رائے میں چاہے جتنی سچائی ہو مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نربھیا قتل کے معاملے جیسے معاملات اب بھی ہورہے ہیں اس لئے اصل ضرورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں خاطیوں کو سزا تو ملے، دوسروں کے دلوں میں خوف بھی پیدا ہو کہ وہ جنسی جبر یا جنسی جبر اور قتل کی ہمت نہ کرسکیں ۔ یہ سوچنا کہ عصمت دری یا جنسی جرائم کرنے والوں کے لئے سزائے موت کا خوف کافی ہوگا، صحیح نہیں ہے کہ ایسے جرائم کرنے والے متاثرہ کو قتل کر دیتے ہیں کہ ان کے پہچانے جانے کا اندیشہ نہ رہے۔
ایک مشکل یہ بھی پیش آتی ہے کہ متاثرہ وکیل دفاع کے بیانوں ، سوالوں اور بحثوں سے گھبرا جاتی ہے۔ یہ بات خاص طور سے یاد رکھنے کی ہے کہ جن معاملات یا مقدمات میں متاثرہ ملزم کی شناخت کر لیتی ہے ان میں بھی سزا کی شرح محض ۲ء۶؍ فیصد ہے۔ اکثر بحث یا بیان بازی ہوتی ہے کہ گلیوں اور سنسان مقامات پر روشنی ہو، ملازمت کی جگہ کو محفوظ بنایا جائے، پولیس عملہ زیادہ مستعد اور ہمدرد بنایا جائے مگر عملاً ایسے اقدامات کم ہی ہوتے ہیں جو ثمر آور ثابت ہوں ۔ اس لئے انسانوں کے خلاف انسانوں کے درندگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ان کو روکنے کے لئے مغربی بنگال حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے اچھے اقدامات کئے ہیں مگر بعد میں جواہر سرکار کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات نے اس سیاست کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جو اس مسئلہ میں کی جارہی تھی۔ جواہر سرکار راجیہ سبھا کے رکن ہیں انہوں نے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے نام خط میں لکھا ہے کہ مجھے امید تھی کہ آپ ان جونیئر ڈاکٹروں سے ملیں گی جو تحریک چلا رہے تھے کیونکہ یہی آپ کا پرانا انداز بھی ہے اور کسی نہ کسی انداز میں یہ تحریک ریاستی حکومت کے بھی خلاف تھی مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ تحریک چلانے والے ڈاکٹروں کو سیاست نہیں ، انصاف مطلوب ہے۔
یہ بھی پڑھئے:بہار میں بی ایڈ کالجوں کی مشکلیں
جواہر سرکار نے ترنمل کانگریس میں بڑھتی بدعنوانی پر بھی کچھ باتیں لکھی ہیں مگر اس پر یہاں کچھ لکھنا ضروری نہیں ہے۔ ضروری نکتہ یہ ہے کہ مغربی بنگال کے ایک میڈیکل کالج میں جب عصمت دری اور قتل کا معاملہ سی بی آئی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پولیس رپورٹ اور سی بی آئی کی آنے والی رپورٹ میں کیا فرق ہے؟ رپورٹ آنے سے پہلے ہی ریاستی حکومت پر جواہر سرکار کا الزام بھی کیا سیاسی مقاصد سے نہیں ہے؟ اس میں کون سی نئی بات ہے کہ ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے خلاف شدید عوامی غم و غصہ ہے۔ بیشک ہے اور عوام کاغصے میں ہونا درست بھی ہے مگر کیا صرف مغربی بنگال میں ایسا ہورہا ہے؟ عورتوں ، لڑکیوں ، کمسن بچے بچیوں کی عصمت دری کے واقعات تو ملک کے ہر حصے میں ہورہے ہیں ان واقعات کو روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان پر سیاست کرنے کے بجائے خطاکاروں کو سزا دلانے اور عام لوگوں میں پاکی و پاکبازی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ سپریم کورٹ نے بھی پوچھا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں ۱۴؍ گھنٹے کی دیر کیوں کی اور پوسٹ مارٹم کے لئے یڈی باڈی سونپنے کا دستاویز کہاں ہے؟
یہ اہم سوال ہیں ،انہیں سوالوں کے دائرے میں یہ طے ہوگا کہ کولکاتا کے میڈیکل کالج میں کیا ہوا، کیوں ہوا اور اس میں کون کون ملوث ہے۔n