Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

رابندر ناتھ ٹیگور،شانتی نکیتن اور ہزاری پرساد دِویدی

Updated: March 17, 2025, 1:28 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai

ٹیگور کی شہرت چاہے جتنی ہو، اُن کے افکار و نظریات کو جاننے، سمجھنے، ماننے اور اُن کا احترام کرنے والے کم ہیں، بہت کم۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیگور کو ازسرنو عوام میں لانا بہت ضـروری ہوگیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِدھر شدت کے ساتھ ٹیگور، شانتی نکیتن اور ہزاری پرساد دویدی کا خیال آرہا ہے۔ اس وقت ہماری سماجی اور تہذیبی زندگی کو رابندر ناتھ ٹیگور کے خیالات کی سخت ضرورت ہے۔ تحمل اور قوتِ برداشت کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کا احترام کبھی سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ قوتِ برداشت کا تعلق احترام کے جذبے سے ہے اور یہ جذبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نگاہ حدبندیوں  سے بلند ہو جائے۔ فطرت کی طرف دیکھنا اور کچھ اس طرح دیکھنا کہ اس میں  ہمارے لئے کوئی تعلیم اور تہذیب پوشیدہ ہے، اس کا سراغ بھی گرو دیو رابند ناتھ ٹیگور کے خیالات سے مل سکتا ہے۔
  فطرت کتنی معصوم اور سادہ ہے۔ فطرت کا بس ایک مذہب ہے اور وہ اس کی فطرت میں  پوشیدہ ہے۔ایک فطرت وہ ہے جو باہر کی دُنیا میں  ہے اور دوسری وہ ہے جس سے ہماری ذات کا رشتہ ہے، دونوں  کے درمیان ہم آہنگی کی صورت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اس شور بھری دنیا میں  کچھ وقت غور و فکر کے لئے نکالا جائے۔ درخت سے گرتے ہوئے پتے بھی اپنی زبان میں  کچھ کہتے ہیں ۔ پیلے پتوں  کے ساتھ کچھ ہرے پتے بھی زمین پر آ جاتے ہیں ۔ کبھی درخت پر کوئی پرندہ سہما سہما سا اور خاموش خاموش سا دکھائی دیتا ہے۔ سوکھے پتے قدموں  کے نیچے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ پتوں  کا ٹوٹتا ہوا وجود بھی کچھ کہتا ہے۔ ہرے پتے کچھ لے جاتے ہیں  اور کوئی آواز سنائی نہیں  دیتی۔ ’’برگ شجر‘‘ اور ’’برگ نَے‘‘ کی تراکیب یوں  ہی تو وضع نہیں  کی گئیں ۔ اپنی ذات میں  سفر کرنا اپنے وطن میں  سفر کرنے کی طرح ہے۔ فطرت ایک معنی میں  وطن بھی ہے اور اس کی مقامیت کا رشتہ عالمگیریت سے بھی ہے۔
 ٹیگور نے انا اور انانیت کے خلاف جو کچھ لکھا ہے، وہ دراصل اس بات کی علامت ہے کہ کسی طرح کا غرور انسانی معاشرے کے لئے ٹھیک نہیں ۔ غرور طاقت کا زائیدہ ہے اور یہ اس وقت نمو کرتا ہے جب یہ محسوس ہو کہ وہ فطرت سے بلند ہو گیا ہے۔ شانتی نکیتن کی فضا ٹیگور کی تحریروں  کے ساتھ موجود ہے، اصل زبان میں  اور کبھی ترجمے کے ساتھ یہ فضا موجودہ فضا کو آئینہ دکھاتی ہے۔ شانتی نکیتن دراصل فطرت کے احترام کا دوسرا نام ہے۔ فطرت کے ساتھ جتنی زیادتیاں  ہوئی ہیں ، وہ دراصل ٹیگور کے افکار کی بے حرمتی بھی ہے۔
 ٹیگور کی روحانی دنیا مادی دنیا کے لئے ہمیشہ مشکل پیدا کرتی رہے گی لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب مادی دنیا کو روحانیت کی ضرورت کا احساس ہو۔ روحانیت اپنی فطرت کے اعتبار سے کتنی وسیع المشرب اور درد مند ہے۔ روحانیت کی سیاست بھی کبھی کبھی روحانی اقدار کو خراب کر دیتی ہے لیکن فتح اور جیت بہرحال روحانی اور انسانی اقدار ہی کی ہوتی ہے۔
 ٹیگور کے نغموں  سے جس معاشرے کی صبح ہوتی ہو اس کے بارے میں  کچھ نہ کہا جائے تب بھی خیال کی ترسیل ممکن ہے۔ گزشتہ دنوں  کلکتہ میں ، مَیں  نے ایک آٹورکشہ ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کو ٹیگور کا خیال آتا ہے، تو اس کی آنکھیں  چمک اٹھیں ، پلٹ کر مجھے دیکھنے اور کہنے لگا کہ صرف ٹیگور کا خیال آتا ہے، اب کوئی دوسرا ٹیگور نہیں  ہوگا۔ ٹیگور تو میرا دھرم ہے۔ یہ سن کر مجھے حیرانی تو نہیں  ہوئی لیکن دنیا کے ان معاشروں  کا خیال آتا رہا جہاں  اپنے ادیبوں  اور تخلیق کاروں  کو تہذیبی زندگی کا اعلامیہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ احترام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی ادیب کی تعلیمات جغرافیائی حد بندیوں  میں  رہنے کے باوجود اس سے ماورا ہو جائیں ۔
 ہزاری پرساد دویدی کم و بیش بیس (۲۰) سال شانتی نکیتن میں  رہے۔ انہوں  نے مختلف اوقات میں  ٹیگور پر جو مضامین لکھے وہ ان کی کتاب ’’مرتینجن رویندر‘‘ میں  شامل ہے جو ۱۹۶۳ء میں  شائع ہوئی۔ ٹیگور اور شانتی نکیتن سے ہزاری پرساد دویدی کا جو رشتہ ہے اس کا علم کم لوگوں  کو ہے۔ ایک معنی میں  ٹیگور کو ہزاری پرساد دویدی کے بغیر بہتر طور پر سمجھا نہیں  جا سکتا۔
 ہندی کے مشہور نقاد، ماہر لسانیات اور کئی کتابوں  کے مصنف نامور سنگھ نے اپنی کتاب ’’دوسری پر مپرا کی کھوج‘‘ میں  ٹیگور اور دویدی کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے، اس کا علم بھی ضروری ہے۔ ہزاری پرساد دویدی ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’وہ ان عظیم لوگوں  میں  تھے جن کی آواز کسی خاص ملک یا طبقے کے لئے نہیں  ہوتی بلکہ جو پوری انسانیت کی ترقی کیلئے سب کو راہ بتاتی ہوئی چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے۔ انہوں  نے مختلف طریقہ سے انسان کی تنگ نظری کو کم کرنے کے لئے اس پر بار بار حملہ کیا تھا۔ دیش کا، ذات کا، قوم کا اور مذہب کا غرور انسان کو تنگ نظر سے تنگ نظر بناتا جا رہا ہے۔ انہوں  نے وقت رہتے ان لوگوں  کو خبردار کرنا چاہا تھا جو اِن تنگ نظریوں  کو بڑھاوا دے رہے ہیں  اور جو انہیں  پال پوس کر بڑھاتے جا رہے ہیں ۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے : حکمرانوں کی حکمرانی اور گیارہ سال کا اُصول

 ہم میں  سے بہت لوگوں  نے شانتی نکیتن کو دیکھا نہیں  ہوگا لیکن یوں  دیکھیں  تو فکر و احساس کی سطح پر ہمارے اندر ایک شانتی نکیتن موجود ہے۔ اس کو دیکھنا، سننا اور محسوس کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ہزاری پرساد دویدی کا ایک مضمون ’’گرو دیو کا شانتی نکیتن‘‘ بھی ہے۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد کیا تھا اور وہ کس حد تک اپنے مقصد میں  کامیاب ہوا، یہ سوال بھی دویدی جی کے پیش نظر رہا ہے۔درس و تدریس کا عمل چھپی ہوئی کتاب تک محدود نہیں  ہے۔انسانیت اور روحانیت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک ایسی فضا کی ضرورت ہے جس میں  فطرت کا بڑا دخل ہو۔ ہزاری پرساد دویدی نے یوں  ہی تو نہیں  لکھا ہے کہ گرو دیو کے لیے انسانی سماج کتاب کی طرح تھا، اور اسی کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ جنگلوں ، میدانوں  اور پہاڑوں  کے وسیلے سے جو فطرت دکھائی دیتی ہے وہ ہمارے لیے مکتب ہے۔ اب زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے اور ذہن بھی لیکن شانتی نکیتن کی علمی اور روحانی فضا میں  جو فطرت کی وسعت اور خوبصورتی تھی، اس کے تصور سے ہمارا ذہن اور زمانہ روشن ہو سکتا ہے۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK