عوام کی منتخبہ حکومت فیصلے کرتی ہے، اُن فیصلوں میں عوام کو اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی اورضرورتوں کی تکمیل نظر آتی ہے تو امن و امان کی فضا مستحکم ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 13, 2024, 2:03 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
عوام کی منتخبہ حکومت فیصلے کرتی ہے، اُن فیصلوں میں عوام کو اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی اورضرورتوں کی تکمیل نظر آتی ہے تو امن و امان کی فضا مستحکم ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
جموں کشمیر میں دس سال کے بعد الیکشن ہوئے اور عنقریب نئی حکومت عنان اقتدار سنبھال لے گی۔ اس کے نتیجے میں کابینہ کو محدود اختیارات حاصل ہوجائینگے جو اَب تک لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے ہاتھوں میں تھے۔ یہ اچھی تبدیلی ہے۔ اس سلسلے میں کئی دعوے کئے گئے کہ دہائیوں میں یہ پہلا الیکشن تھا جو بہت صاف ستھرے انداز میں منعقد کیا گیا۔ یہ بھی ایک اچھی تبدیلی ہے لیکن یہ توقع اپنی جگہ برقرار ہے کہ جمہو ریتوں کو انتخابی عمل کے ذریعہ پروان چڑھنا چاہئے اور مستحکم ہونا چاہئے۔ اس کے برخلاف نہ ہونا ہی بہتر ہے۔
صاف ستھرے اور آزادانہ انتخابات نیز ریاستی عوام کی اپنی حکومت (سیلف گورنمنٹ) کے دعوؤں کےساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اب کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کیلئے اعدادوشمار کا جائزہ لینا ہوگا:
کشمیر میں جنگجوئیت کا آغاز ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہوا۔ ’’دی ساؤتھ ایشین ٹیراریزم پورٹل‘‘ پر اس خطہ میں ہونے والے تشدد کے واقعات کا ڈیٹا دیا گیا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں ۹۲؍ افراد فوت ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے سال میں تشدد کے جو واقعات ہوئے اُن میں ۱۱۷۷؍ جانیں گئیں جن میں ۸۶۲؍ عام شہری، ۱۳۲؍ جوان اور ۱۸۳؍ جنگجو تھے۔ اس نوع کے واقعات میں فوت ہونے والوں کی تعداد ۱۹۹۱ء میں بڑھ کر ۱۳۹۳؍، ۱۹۹۲ء میں ۱۹۰۹؍ اور ۱۹۹۳ء میں ۲۵۶۷؍ ہوگئی۔ ان میں عام شہری ۱۰۲۳؍ اور سلامتی دستوں کے جوان ۲۱۶؍ تھے۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ فوت ہونے والے جنگجوؤں کی تعداد بڑھی اور ۱۳۲۸؍ ہوگئی۔ آئندہ چند برسوں تک کچھ ایسی ہی صورت حال رہی حالانکہ سلامتی دستوں کے جوانوں کے فوت ہونے کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے لگا جو ۲۰۰۰ء میں ۴۴۱؍تک پہنچ گئی جب کشمیر میں مجموعی طور پر کم و بیش ۳؍ ہزار افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ ۔
تشدد کے سبب اموات ۲۰۰۱ء میں بہت زیادہ ہوگئی اور ۴۰۱۱؍ افراد لقمۂ اجل بنے۔ ان میں ۲۳۴۵؍ جنگجوؤں سے صرفِ نظر کیا جائے تو ۶۲۸؍ سلامتی دستوں کے جوان تھے اور ۱۰۲۴؍ عام شہری تھے۔ اس کے بعد کے سال (۲۰۰۲ء) میں اموات کی تعداد پہلی مرتبہ کم ہوئی (۳۰۹۸؍ اموات) جبکہ اس کے بعد کے سال ۲۰۰۳ء میں ۲۵۰۷؍ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ تشدد اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد میں اضافہ کے بعد جو کمی آئی اس کا سبب کیا تھا؟
اس سوال کے جواب کے طور پر دو باتیں سامنے آتی ہیں ، پہلی: امریکہ میں ۱۱؍ ستمبر کے تباہ کن اور خونیں حملے اور اس کے تین ماہ بعد دسمبر ۲۰۰۱ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ، جس میں ۹؍ ہندوستانی شہری اور ۵؍ حملہ آور فوت ہوئے۔ دوسرے واقعہ کے بعد ہندوستان نے پاکستان کے خلاف اقدامات شروع کئے اور پڑوسی ملک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اُس کی سرزمین سے دہشت گردوں کے بھیجے جانے کو روکے۔ ۱۳؍ جنوری ۲۰۰۲ء کو پاکستان نے اطلاع دی کہ اس نے لشکر طیبہ اور جیش محمد نامی تنظیموں پر پابندی عائد کردی۔ اس ضمن میں ہندوستان کا موقف تھا کہ عائد شدہ پابندی ڈھکوسلہ ہے اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ بات غلط نہیں ہے کیونکہ پاکستانی فوج اور اس کے ذیلی اداروں نے مذکورہ تنظیموں کی طویل عرصہ پرورش کی اور اُنہیں استعمال کیا ہے۔ چونکہ پاکستانی فوج اپنے کاموں میں بلا کی رازداری برتتی ہے اس لئے کہا نہیں جاسکتا کہ اس کا رویہ تبدیل ہوا ہے یا نہیں ۔ تاہم اعدادوشمار سے کچھ سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
کشمیر میں ۲۰۰۱ء میں ۴؍ ہزار اموات ہوئی تھیں جو ۲۰۰۲ء میں ۳؍ ہزار ہوگئیں اور ۲۰۰۳ء میں ۲؍ ہزار پر آگئیں ۔ ۲۰۰۴ء میں ، اس میں مزید کمی آئی (۱۷۸۸) اور اس کے بعد کے سال میں ۱۱۲۵۔ ۲۰۰۷ء میں یہ تعداد مزید کم ہوئی اور ایک ہزار سے بھی کم ہوگئی (۷۴۴)۔ ۱۹۹۰ء کے بعد یہ پہلا سال تھا جب مہلوکین کی تعداد اتنی کم تھی۔ ۲۰۰۸ء میں اس میں مزید کمی آئی اور مہلوکین کی تعداد ۵۴۸؍، ۲۰۰۹ء میں ۳۷۳ ؍ اور ۲۰۱۱ء میں ۱۸۱۔ ۲۰۱۴ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت قائم رہنے تک یہ تعداد کبھی بھی ۲۰۰؍ سے زیادہ نہیں ہوئی۔
اس کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ چار سال میں ۲۰۰؍ سے زیادہ اموات ہوئیں ، دو سال میں ۳۰۰؍ سے زیادہ اور گزشتہ (یعنی ایک) سال میں یہ تعداد ۴۰۰؍ کے اوپر چلی گئی۔ ۲۰۲۳ء میں ایک بار پھر کمی آئی اور مہلوکین کی تعداد ۲۰۰؍ سے کم ہوئی جو کہ ۲۰۱۵ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوا مگر کوئی بھی ایسا ڈیٹا نہیں ہے جو طویل مدت تک ایک جیسی صورت حال کی نشاندہی کرسکے۔ یعنی اگر ۲۰۰؍ سے کم اموات ہوئی ہیں تو کئی سال تک یہی صورت باقی رہے، ایسا نہیں ہوا۔ یہ تو ہمارے ملک ہندوستان کا آئینہ ہے۔ یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران پاکستان میں کیا ہوا؟
یہ بھی پڑھئے: کس سے پوچھیں کہ یہ غفلت ہے کہاں کی ہم پر
پاکستان نے، بالخصوص کراچی نے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں بدترین نوعیت کا تشدد دیکھا مگر یہ تشدد گروہی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ سن ۲۰۰۰ء، ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء میں جب کشمیر کے حالات بہت خراب تھے، پاکستان میں دہشت گرد ی سے ہونے والی اموات علی الترتیب ۱۶۶؍، ۲۹۵؍ اور ۲۵۷؍ تھیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لشکر اور جیش پر پابندی کے ایک سال بعد ۲۰۰۳ء میں اُن پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس کے بعد کے سال میں اموات کی تعداد کافی بڑھ گئی اور ۹۲۵؍ تک پہنچ گئی۔ ان میں ۲۰۸؍ سلامتی دستوں کے جوان تھے جبکہ ۳۰۲؍ جنگجو۔ ۲۰۰۷ء میں پرویز مشرف پر ایک بار پھر تب حملہ ہوا جب اُن کا جہاز اُڑان بھر رہا تھا۔ اس سال ۳۵۹۴؍ افراد ہلاک ہوئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد مزید بڑھ کر ۶۶۸۳؍ ہوگئی۔ اس کے بعد کا سال پاکستان کی تاریخ کا سب سے پُرتشدد سال تھا جس میں ۱۱۳۱؍ لوگ فوت ہوئے۔
اعدادوشمار اور بھی ہیں مگر ہم جس بات کی ستائش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعہ جمہوریت کو فرو غ دے کر امن و امان کی فضا بحال کی جاسکتی ہے۔ کشمیر میں دس سال بعد ہی سہی، ایسا ہوا ہے جس کی ستائش کی جاسکتی ہے۔ یہ خوش آئند ہے۔