• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آر ایس ایس انتخابی نقصانات کی تلافی کیلئے سرگرم

Updated: September 02, 2024, 3:02 PM IST | ram puniyani | Mumbai

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ جو اطلاعات دستیاب ہورہی ہیں اُن میں بتایا جارہا ہے کہ دلت عوام کا بی جے پی سے دور ہوجانا آر ایس ایس کیلئے باعث ِ تشویش ہے اور وہ نقصان کی تلافی کیلئے سرگرم ہوگیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۴؍ جون کے بعد کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ کل تک گٹھ بندھن کی جو سرکار ایک پارٹی کی بن گئی تھی اب وہ ایک پارٹی کی نہ رہ کر صحیح معنوں  میں  گٹھ بندھن کی بن گئی ہے۔ اس کا ایک عملی پہلو یہ ہے کہ حکومت،جی ہاں  وہی مودی حکومت، گٹھ بندھن کی مصلحتوں  کو سمجھنے اور حلیف پارٹیوں  کی سننے لگی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کا ہندو راشٹر وادی ایجنڈا پس پشت چلا جائے۔ ایسا اس لئے بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن اب پہلے جیسا کمزور نہیں  رہ گیا ہے۔ اس کی طاقت اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی مقبولیت میں  کافی اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن اب اپنی بات زیادہ دم خم کے ساتھ کہہ پا رہا ہے۔
 لوَٹ کے الیکشن کی طرف جائیں  تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آر ایس ایس بی جے پی کے تعاون کیلئے انتخابی میدان میں  جس طرح اُترتا تھا، نہیں  اُترا۔ یہ سمجھنا غلطی ہوگی کہ آر ایس ایس،بی جے پی کی شکست کا آرزومند تھا۔ الیکشن کے دوران آر ایس ایس کا طرز عمل بی جے پی کو ہرانا نہیں ، اس کے ’’غیر طبیعیاتی‘‘ لیڈر کو متنبہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کے بڑھتے اثرورسوخ کو کسی نہ کسی سطح پر روکنا چاہتا تھا۔ اسی لئے یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ بی جے پی کی گاڑی کی اسٹیئرنگ اب بھی آر ایس ایس کے ہاتھوں  میں  ہے۔ وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلا رہا ہے۔ آج بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں  کی دیر دیر تک میٹنگیں  چل رہی ہیں  جن میں  انتخابی نتائج کا تجزیہ کیا جارہا ہے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں  بی جے پی کی سیٹیں  اس لئے کم ہوئیں  کہ دلت ووٹرس انڈیا اتحاد کی جانب ملتفت ہوگئے اور بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے وشو ہندو پریشد کو فعال کیا جارہا ہے۔ کارکنان دلت بستیوں  میں  میٹنگیں  کرینگے اور دلتوں  کے ساتھ کھانا کھائینگے۔ اتنا ہی نہیں  وی ایچ پی سے وابستہ سادھو سنت دلت بستیوں  میں  مذہبی تقریبات کا انعقاد کرینگے۔ 
 ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق یہ دھارمک نیتا منتخب بستیوں  میں  پد یاترائیں  کرینگے اور دھرم سنسدوں  کا انعقاد کیا جائیگا۔ وہ دلتوں  کے گھروں  پر جائینگے اور ان کے ساتھ بھوجن کرینگے۔ یہ سرگرمیاں  وی ایچ پی کی ۹؍ ہزار اکائیوں  میں  جاری رہیں  گی۔
 یہ سب ہمیں  رام مندر تحریک کی یاد دلاتاہے جس کی ابتداء وی ایچ پی نے کی تھی بعد میں  یہ محاذ بی جے پی نے سنبھال لیا تھا۔ آر ایس ایس، پرچارکوں  اور سویم سیوکوں  کو تربیت تو دیتا ہی رہا ہے، اب وہ بیک سیٹ پر بیٹھ کر ڈرائیونگ بھی کررہا ہے۔ ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج نے اُسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی لئے،اطلاعات شاہد ہیں  کہ، وہ بی جے پی کی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کی بازیافت کیلئے فکرمند ہے اور ایک نئے پروگرام کے تحت دلت ووٹوں  کو دوبارہ اعتماد میں  لینے کے تانے بانے بن رہا ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد آر ایس ایس کی دوڑ دھوپ سے یہی ظاہر ہے کہ محض ثقافتی تنظیم ہونے کا اُس کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ اُسے اپنی طاقت دوسری سمت میں  لگانی پڑے گی۔ رام مندر تحریک، منڈل سے مقابلہ کرنے کیلئے جاری کی گئی تھی، مودی حکومت میں  ہندوتوا کے ایجنڈے پر کھل کر کام کیا گیا۔ منڈل ایک بار پھر آتا ہوا نظر آرہا ہے مگر جو لوگ آر ایس ایس کو جانتے ہیں ، یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں  کہ وہ سماجی انصاف کے فلسفے کو کبھی قبول نہیں  کرسکتا کیونکہ اس کا ایجنڈا منو اسمرتی ہے اور مسلمانوں  کی مخالفت ہے۔
 اس پورے پس منظر میں  مجھے کہنے دیجئے کہ اپوزیشن پارٹیوں  کو ہندوتوا کی سیاست سمجھنے میں  کافی دیر لگی۔ مودی اور بی جے پی کے اقتدار کے دس سال مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں  میں  آر ایس ایس کی سیاست سے مقابلے کاعزم پیدا ہوا ہے۔ اس نے کچھ قدم اُٹھائے ہیں ۔ یہ تبدیلی اپوزیشن میں  دیکھنے کو مل رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس میں  بھی بعض تبدیلیاں  نظر آرہی ہیں ۔ اس کے اعلیٰ نظریہ ساز گرو گولوالکر نے ’’وی اینڈ اَور نیشن ہڈڈیفائنڈ‘‘ میں  شدت پسندی کے نظریات کی ستائش کی تھی۔ کون نہیں  جانتا کہ آر ایس ایس نے ترنگے اور دستور ِ ہند کی مخالفت کی تھی۔ یہ سب جاری ہی تھا کہ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس کی شبیہ عام ہندوستانیوں  کی نظر میں  بہت خراب ہوگئی تھی مگر کیا ہوا؟ مشکل یہی ہے کہ وہ لوگ جو آر ایس ایس کے نظریات کا جم کر مقابلہ کرسکتے ہیں  وہ اُسے دیر سے سمجھ پاتے ہیں ۔ 
 جے پرکاش نارائن خود مجاہد آزادی رہ چکے تھے مگر وہ بھی آر ایس ایس کی اصلیت کو نہیں  سمجھ پائے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں  نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’اگر آر ایس ایس فاشسٹ ہے تو مَیں  بھی فاشسٹ ہوں ۔‘‘ اس کے برخلاف نہرو کو آر ایس ایس کی اصلیت کا ادراک تھا۔ دسمبر ۱۹۴۷ء میں  صوبائی سربراہوں  کے نام  ایک خط میں  نہرو نے لکھا تھا کہ ’’ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں  جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کی حیثیت ایک ’نجی فوج‘ جیسی ہے۔ وہ نازیوں  کی راہ پر چل رہا ہے اور اُنہی کے طور طریقے اپنا رہا ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے:پہلے جیسی کامیابی نہ ملنے سے ’بھکت‘ ناخوش ہیں

 اگر نہرو کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں  نے اس واضح اور دوٹوک انتباہ کو دھیان میں  رکھا ہوتا تو آر ایس ایس کو روکا ٹوکا جاسکتا تھا۔ مگر اُنہوں  نے توجہ نہیں  دی۔ اُنہوں نے یعنی بعد کی حکومتوں  نے یہ بھی دھیان میں  نہیں  رکھا کہ آر ایس ایس کے نظریات کے حامل افراد نے اہم سماجی اور سیاسی اداروں  میں  گھس پیٹھ کرلی۔ 
 بی جے پی کے حالیہ دو اقتدار (۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء) میں  عوام کے بڑے طبقے نے اچھی طرح جان لیا کہ نہرو جو کہتے تھے اس میں  سچائی تھی۔ عوام کے بڑے طبقے کے اسی احساس کانتیجہ تھا کہ وہ ادارے اور تنظیمیں  بھی جو الیکشن میں  زیادہ فعال نہیں  رہتی تھیں ، سرگرم ہوگئیں ۔ انہیں  محسوس ہوا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اس ملک کو ضرر پہنچا رہے ہیں ، انہیں  حاشئے پر لانا چاہئے جس کیلئے اپوزیشن کی پارٹیوں  کو اُن کی خامیوں  کے ساتھ قبول کرلینے میں  کوئی مضائقہ نہیں ۔ انہی تنظیموں اور عوامی طبقات کے غیر معمولی تعاون کی وجہ سے بی جے پی ۳۰۲؍ سے کم ہوکر ۲۴۰؍پر پہنچ گئی اور کچھ اس طرح  کمزور ہوئی کہ اس کے ارباب اقتدار نے سوچا تک نہیں  تھا ۔ مگر ملک کے سلجھے ہوئے لوگوں  کا کام ابھی پورا نہیں  ہوا۔ اِن طبقات کو ابھی سرگرم ہی رہنا ہوگا تاوقیتکہ فرقہ واریت کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK