اگر محاذ آرائی سے تباہی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آنا ہے تو مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنانے میں ہی عافیت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ نئی دہلی کے اس فیصلے (ہند۔چین معاہدہ) کو چینی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم سے سمجھوتہ قرار دیں تاہم بڑے خسارے سے بچنے کیلئے چھوٹا نقصان برداشت کرنا ہی درست ہے۔
بین الاقوامی سفارت کاری کا یہ اصول ہے کہ نہ کوئی دشمنی دائمی ہوتی اور نہ ہی کوئی دوستی۔ساڑھے چار سال قبل وادیٔ گلوان میں ہندوستان اور چین کی افواج کے درمیان ہوئے خونریز تصادم اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی میں اضافے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہوئے حالیہ معاہدہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس معاہدہ کے تحت مشرقی لداخ میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کو اپنے اپنے علاقوں میں گشت کرنے اور مقامی باشندوں کو مویشی چرانے کی آزادی ہوگی۔ نئی دہلی میں اس معاہدہ کے اعلان کے دو دنوں کے اندر روس کے قازان میں برکس کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندرمودی اور چینی صدرشی جن پنگ کے درمیان ملاقات بھی ہوئی اور مکالمہ بھی۔ دونوں لیڈران کی یہ پانچ برسوں میں پہلی باضابطہ بات چیت تھی۔ سرحد پر برف پگھلنے لگی ہے۔
اس معاہدہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک لداخ میں دو متنازع مقامات دیپسانگ اور دیمچوک میں تعینات اپنی اپنی افواج پیچھے ہٹانے پر راضی ہوگئے ہیں ۔وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا یہ بیان ’’چین کے ساتھ disengagement کا عمل مکمل ہوگیا ہے‘‘ اطمینان کا باعث ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی تصدیق کردی کہ ہندوستان اور چین کے درمیان چند سرحدی ایشوزپر سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ چین کے سرکاری انگریزی روزنامہ گلوبل ٹائمز نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ایل اے سی پر دونوں ممالک کے درمیان ۲۰۲۰ء سے جاری ڈیڈلاک جلد ختم ہو جائیگاجس سے نئی دہلی اور بیجنگ کے دوطرفہ تعلقات بہتر ہونگے۔ پچھلے چار برسوں سے ان دو فلیش پوائنٹس پرجدید ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ فوجی محافظ آمنے سامنے کھڑے تھے اور تناؤ اس قدر زیادہ تھا کہ ایک چھوٹی سی چنگاری بھی جنگ کے شعلے بھڑکاسکتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ایران واسرائیل کے سوال و جواب میں کیا ہے
گلوان میں جون ۲۰۲۰ء میں ہوئی خونریز جھڑپوں کے بعد سے جن میں بیس ہندوستانی جانباز شہید ہوئے تھے، مودی حکومت نے چینی جارحیت کے جواب میں ٹک ٹاک سمیت متعدد چینی موبائل ایپس پر پابندی عائد کردی اورہندوستان سے چین کی براہ راست پروازیں بھی معطل کردی گئیں ۔ تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی رشتوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ سرحدوں پر چینی اور بھارتی فوجی دستے بندوقیں تانیں کھڑے رہے لیکن اس دوران دونوں ملکوں کے بیوپاری پہلے کی طرح اربوں ڈالر کا دھندہ بھی کرتے رہے۔رواں مالی سال میں ہندوستان اور چین کے درمیان ۱۱۸؍ ارب ڈالر کا بزنس ہوا ہے اور چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔ تجارتی رشتوں کے باوجود سرحدی تنازعات برقرار رہنے کی وجہ سے ہندوستان میں چینی سرمایہ کاری تھم گئی تھی جس کی وجہ سے ہندوستانی معیشت پر آنچ آرہی تھی۔ پارلیمنٹ میں جولائی میں پیش کئے گئے سالانہ اکنامک سروے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مینوفیکچرنگ صنعت کو فعال بنانے اور بین الاقوامی ایکسپورٹ کوفروغ دینے کیلئے چین سے براہ راست سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) لازمی ہے۔ ہندوستان کے بڑے بزنس گھرانے بھی مودی حکومت پر لگاتار دباؤ ڈال رہے تھے کہ سرحدی تنازعات ختم کرکے تجارتی رکاوٹیں ہٹائی جائیں ۔ میرا خیال ہے کہ قازان معاہدہ کے پیچھے geopoliticsسے کہیں زیادہ geoeconomics کے عوامل کارفرما رہے ہونگے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ قازان میں بھارتی وزیر اعظم کوچینی صدر سے ہاتھ ملانے کے لئے روسی صدر پوتن نے رضامند کرایا ہوگا۔پوتن نے برکس کا سربراہی اجلاس منعقد کراکے دنیا کو یہ پیغام دنیا چاہا تھا کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی تمام پابندیوں کے باوجود روس سفارتی طور پر عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ پورا گلوبل ساؤتھ خصوصاً چین اور ہندوستان جیسے ممالک اس کے ساتھ ہیں ۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی اور شی کے مصافحہ کیلئے زمین ہموار کرنے کی خاطر برکس اجلاس کے دو دن قبل سرحدی معاہدہ کا اعلان کیا گیا۔
اس معاہدہ نے امریکہ کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ واشنگٹن پچھلے چند برسوں سے چین کی مشکیں کسنے کیلئے بھارت پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ بھارت کو اسی مقصد کی خاطر کواڈ نام کے اس تزویراتی (strategic) اتحاد میں بھی شامل کیا گیا جو امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ممالک نے انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے اقتصادی اور عسکری اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے بنایا ہے۔ بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کم کرکے شی جن پنگ نے نئی دہلی اورامریکہ کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کو شش کی ہے۔ لیکن یہاں یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس معاہدہ سے صرف جمودٹوٹا ہے، دونوں ممالک کے درمیان بارڈر پر جو بڑے تنازعات اور اختلافات ہیں ان کے مستقبل قریب میں حل ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔اس لئے اس معاہدہ سے نئی دہلی اور چین کے رشتوں میں کسی اسٹریٹیجک تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی نئی دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات میں بگاڑ آنے کا اندیشہ ہے۔ برہماچیلانی اور پروین ساہنی جیسے ممتاز دفاعی تجزیہ کاروں نے بھارت۔ چین معاہدہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کے لداخ اوردیگر علاقوں پر اپنے اپنے دعوے ہیں جن میں بھاری تضادات ہیں ۔ تنازعے کے اس بنیادی پہلو کا اس معاہدہ میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پروین ساہنی نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک پرفریب شوشہ (charade) ہے ۔ساہنی کا دعویٰ ہے کہ افواج کاde-escalation نہیں ہوگا تو پھر بھارت کو اپنی وہ زمین واپس کیسے ملی گی جوپیپلز لبریشن آرمی نے ۲۰۲۰ء میں غیر قانونی طریقے سے ہتھیا لی تھی۔