• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایران واسرائیل کے سوال و جواب میں کیا ہے!

Updated: November 05, 2024, 1:36 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

ان سوالوں اور جوابوں کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حملہ اور جوابی حملہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی طویل جنگ نہیں ہوسکتی بالخصوص تب تک، جب تک امریکہ میں نئی حکومت باقاعدگی سے اقتدار نہیں سنبھال لیتی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

حال ہی میں  اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے۔ اس حملہ کے بارے میں ہندوستانی میڈیا نے بھرپور کوریج کیا لیکن ہندوستانی میڈیا کے ذمہ داروں  میں  بہت کم لوگ ہیں  جن کی ایرانی میڈیا تک رسائی ہو، صرف چند ایسےسوشل میڈیا والے ہیں  جو اسرائیل اور ایران کی کھوج خبر رکھتےہوں ۔ ان میں  سے اکثروہ ہیں جو کبھی نہ کبھی اسرائیل میں  بطور ملازم کام کر چکے ہیں ۔ ایرانی میڈیا تک رسائی بھی محدود ہے۔ ہم سب انہیں  اس طرح نہیں  جانتے ہیں  کہ ایرانی میڈیا کو پوری طرح سمجھ سکیں لیکن مجبوراًہمیں ان ہی رپورٹنگ پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ یورپی اور امریکی میڈیابھی ان واقعات کی بہت چھان بین کرکے خبر رسانی نہیں  کرتا، اس لئے ہمیں  بھی اسرائیل ایران کی اس جنگ کا وہ حال نہیں  معلوم جو ہونا چاہئے تھا۔
 اتفاق سے ہمیں  ایرانی میڈیا تک رسائی ہو گئی، اس کاواقعہ بھی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں  کہ اب سے چند سال پہلے تک ایرانی ٹیلی ویژن پر ہفتے میں  ایک بار اردو میں  پروگرام ہوتا تھا۔ اس پروگرام میں  عام طور پرصحافی اور کبھی کبھار کسی سیاست داں  کو بلایا جاتا تھا، ہم خوش قسمت تھے کہ ان پروگراموں  میں  ہمیں بار بار جانا پڑتا تھا، ہم نے ایک بار ان سے پوچھا بھی کہ انہیں  ہمارے بارے میں  کیسے معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ ہندوستانی میڈیا کو جا نتے ہیں  اور سمجھتے ہیں کہ کون سے صحافی اور سیاستداں  ہیں  جو ایران کے اُمور کا کماحقہ علم رکھتے ہیں  ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی میڈیا تک ان کی رسائی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ ہندوستانی میڈیا میں اکثر ہمارے مضامین پڑھا کرتےہیں ، انہوں  نے روزنامہ انقلاب کا خاص طور پر نام لیا۔ یہ اتنی تازہ بات نہیں  ہے جتنی یہ کہ آج ایران کے کچھ صحافیوں  سے ہماری ملاقات ہوگئی۔ ہم جس وقت کا ذکر کر رہے ہیں  وہ تھا جب امریکہ خصوصاً اور اس کی وجہ سے مغربی میڈیا ایران کیلئے بہت اچھی رائے نہیں  رکھتا تھا۔ امریکہ اور اس کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک بھی ایران سے مخاصمت رکھتے تھے۔ایران کی معیشت بہت دبا دی گئی تھی۔ اس پر چاروں  طرف سے معاشی پابندی لگا دی گئی تھی اور اسے معاشی پابندیوں  سے دوچار ہونا پڑا تھا۔یہی وہ زمانہ بھی تھا جب امریکہ نے ایک بار ایران پر ہوائی حملہ بھی کیا تھا، لیکن ایران نے ان کے ہوائی جہازوں  کو مار گرایا تھا۔ عین اسی وقت ایرانی میڈیا کی سلور جبلی کا جشن منایا جا رہا تھا، ہمیں  بھی اس وقت اس میں  شامل ہونے کی دعوت دی گئی، یہ بھی وہی وقت تھا جب ہندوستانی میڈیا میں  ایران کے پاسداروں کے بارے میں  بہت توہین آمیز باتیں  کہی جاتی تھیں ۔
 ایران کے ایک صحافی سے ہم نے کہا کہ آپ ایک ذمہ دار صحافی ہیں  اس لئے آپ مبالغہ آرائی سے کام نہیں  لیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب ایران میں  احمدی نژاد کی حکمرانی تھی، ہمارے میڈیا کا کہنا تھا کہ ایرانی پاسداران سخت تھے، ایران میں  نشہ بندی کارواج تھا، یہ بھی کہا جا رہاتھا کہ پاسداران اتنے سست ذہن تھے کہ انہوں  نے ایران کی نسوانی آزادی پر روک لگا رکھی تھی، کہا گیا تھا کہ پاسدار گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت پر نگاہ رکھتے تھے، زور زبردستی کا وہ حال تھا اور پاسداران اتنے سخت تھے کہ اگر کوئی عورت بے حجاب نکلے تو وہ بلا تکلف ایک ناخن کاٹ دیتے تھے۔ اس لئے جب ہم ایران گئے تو ہم نے سب سے پہلے عورتوں  کے ناخنوں  کو دیکھا۔ یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ماشاءاللہ سب نارمل تھے۔
  ہم جب تہران کے ہوائی اڈے پر اترے تب ہمیں  معلوم ہوا کہ ہوائی اڈے کا بہت بڑا عملہ عورتوں پرمشتمل تھا، بعد میں  ہمیں  یہ بھی معلوم ہوا کہ ایرانی بینکوں  میں بھی عورتیں برسرکار ہیں  اوروہ بھی خاصی بڑی تعداد میں  موجودہیں  ۔ ایرانی فضائیہ بھی لڑکیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم نے تہران کوایک صاف ستھرا شہر پایا جہاں  ٹریفک کا اژدہام تھا، ہم آیت اللہ خمینی کی رہائش گاہ بھی گئے، خمینی کی وطن واپسی پر حکومت نےانہیں  ایک بڑا محل پیش کیا لیکن انہوں  نے ایک ایسا مکان تلاش کیا جس میں  ایران کے متوسط طبقے کے لوگ رہا کرتے تھے۔ یہاں  اب ان کا نواسہ رہتا ہے۔ ہم جب لکھنؤ میں  تھے تو ہمیں  بتایا گیا تھا کہ آیت اللہ خمینی نے فرانس جانے کے بعد ایک بار لکھنؤ کا بھی دورہ کیا تھا، ہم نے چاہا کہ ہم آیت اللہ خمینی کے نواسے سے اس کا ذکر بھی کریں  لیکن چونکہ اطلاع مصدقہ نہیں  تھی اس لئے ہم نے اس کا ذکر کرنا بے ادبی سمجھا، اسرائیل کے حملے سےایران میں  کیا ہوا، اس کی ہمیں  پوری اطلاع نہیں  تھی کیونکہ ہماری فارسی کافی کمزور ہے لیکن اسی درمیان تہران اور عراق کے پاس والے ایک دیہات پر حملہ ہوا جو اسرائیل کی فضائیہ نے نہیں  کیا تھا۔ چھوٹے ڈرونس کے ذریعہ ہونے والے اس حملے کے بعد ایران نے کہا کہ وہ اس سے صرفِ نظر نہیں  کرے گا بلکہ جوابی کارروائی ضروری سمجھتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت کا معاملہ اور ہم

  آپ جب یہ مضمون پڑ ھ رہے ہو ں  گے اس وقت امریکہ میں  الیکشن ہوچکے ہوں  گے اس لئے کوئی لمبی جنگ بھی نہیں  ہو گی تو کم سے کم میدان کارِزار کسی جنگ سے اور ہم اور آپ ایک ذہنی دباؤ سے کم سے کم اس الیکشن تک محفوظ ہیں ۔
 ایک بات یہ بھی بتاتے چلیں  کہ اگر اسرائیل نے اس بار میدان ِ کارزار میں  کوئی بدمعاشی کی تو اس کا جواب وہی ہوگا جو ہم ایک بار پہلے بھی لکھ چکے ہیں  کہ اسرائیل خود کو مٹانے پر تُلا ہوا مانا جائیگا۔ اس کے علاوہ کوئی لمبی جنگ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سارا کا سارا عرب علاقہ اس کی لپیٹ میں  آجائیگا اور لبنان میں  حالات اور زیادہ خراب ہوجائینگے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سعودی عرب کے محمد بن سلمان نے آخر کار یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگراسرائیل نے ایران کی طرف کوئی جہاز بھیجا تو سعودی عرب اسے روک لے گا۔ ہم نے آخر کار کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ اب سے پہلے سعودی سے اس قسم کی کوئی تنبیہ نہیں  آئی تھی۔ یہ بھی خیال رہے کہ عرب امارات نے پچھلے کچھ عرصہ میں  اسرائیل کو جو بے پناہ سہولیات دی ہیں  اور ایران کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اس لئے ایران متحدہ امارات سے بھی خفا ہے ۔ اس لئے کوئی لمبی جنگ متحدہ عرب امارات کو بھی اپنے دامن سمٹ لے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK