مشاعرہ تہذیبی مرکز کہلاتا تھا۔ اب نہیں رہ گیا ہے۔ اکا دکا مشاعرے اعلیٰ معیاری ہوں تو ہوں ورنہ چہار جانب جو کچھ ہورہا ہے وہ مشاعرہ نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: December 13, 2024, 1:47 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
مشاعرہ تہذیبی مرکز کہلاتا تھا۔ اب نہیں رہ گیا ہے۔ اکا دکا مشاعرے اعلیٰ معیاری ہوں تو ہوں ورنہ چہار جانب جو کچھ ہورہا ہے وہ مشاعرہ نہیں ہے۔
چائے پینے پلانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتدا میں دودھ نہیں ملاتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی تو چائے میں دودھ ملانے کو انگریزوں کی بدعت کہا کرتے تھے، مولانا آزاد نے ’غبار خاطر‘ میں چائے اور چائے نوشی کا تذکرہ بڑے سرور بخش انداز میں کیا ہے۔ اس میں بھی دودھ کا ذکر نہیں ہے۔ شعری نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد کی بنیاد پڑی تب بھی ناظم مشاعرہ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ شاعر کے سامنے شمع رکھی جاتی تھی اور وہ اپنا کلام سناتا تھا۔ لیکن مشاعروں کی لسانی جمہوریت جیسے جیسے وسیع ہوتی گئی اور سامعین میں سخن شناس کے ساتھ سخن ناشناس بھی شامل ہونے لگے اور شاعر، ناشاعر اور متشاعر کا فرق مٹتا گیا تو ناظم مشاعرہ کی نہ صرف ضرورت پیش آئی بلکہ اس کی ریشہ دوانیاں بھی بڑھتی گئیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نسیم قریشی کو مَیں نے بچپن میں ایک بار نظامت کرتے ہوئے سنا ہے۔ بڑا وقار تھا ان کی گفتگو میں ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی برجستگی اور زود گوئی مشاعروں کی فضا بدل دیتی تھی۔ یہ الگ بات کہ کبھی کبھی شعراء کی دِل آزاری کا بھی باعث ہوتی تھی۔ کسی مشاعرہ میں جب فہرست ان کے ہاتھ آئی تو انہوں نے کہا اس میں ایک نام ’لکھنؤ والی‘ کا ہے۔ اشارہ والی آسی کی طرف تھا جو اس وقت والی لکھنوی لکھا کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی سامعین قہقہے لگانے لگے اور اس کے بعد والی نے اپنا نام والی آسی لکھنا شروع کر دیا۔ بزمی چریا کوٹی، ملک زادہ منظور احمد، ثقلین حیدر اور انور جلالپوری نے اردو کی لسانی جمہوریت کو وسیع تو کیا مگر ’’سامعین‘‘ اور ’’مجمع‘‘ کا فرق مٹا سکے نہ مشاعرہ کے سامعین کے ذوق کی تربیت کرسکے۔ دھیرے دھیرے حال یہ ہوا کہ احتجاج کو اچھی شاعری اور پھوہڑ پن کو مزاح سمجھا جانے لگا۔ ایک بار پنڈت ہری چند اختر، بسمل سعیدی اور جگن ناتھ آزاد مسوری کے ایک مشاعرہ میں شرکت کرکے لوٹ رہے تھے تو پنڈت جی نے کہا مشاعرہ بہت خراب ہوا۔ آزاد کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ مشاعرہ تو بہت اچھا ہوا آپ خراب کیوں کہہ رہے ہیں ؟ پنڈت جی نے کہا شعراء میں لڑائی ہوئی نہ گالم گلوج ہوئی، معاوضہ میں کمی بیشی کا جھگڑا ہوا نہ ہوٹل کی کوئی چیز گم ہوئی، کیا خاک کامیاب مشاعرہ ہوا؟
بعد میں ناظم مشاعرہ نے تھوک میں شعراء کی سپلائی کا کاروبار کرنا شروع کیا تو مشاعروں کا بُرا حال ہوگیا۔ کسی کو یاد نہیں رہا کہ مشاعرے اُردو تہذیب کی جلوہ گاہ اور نئی نسل کی تربیت گاہ ہیں ۔ اُردو میں ایک ہی لفظ کو الگ الگ معنی میں اور تخلیقی استعمال کی صورت میں بالکل نئے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مشاعروں میں شرکت اور شعراء کے کلام کی سماعت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں مماثل الفاظ بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور بیک وقت دو، تین اور چار معنی دینے والے الفاظ بھی۔ مثلاً نسب (نسل)، نصب (گاڑنا، قائم کرنا) یا ارض (زمین) عَرض (چوڑائی) اور عرض (التماس) ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں اور ہیں بھی ایک جیسے مگر ان کے معانی الگ الگ ہیں ۔ اسی طرح حرم، مکہ معظمہ کی مرکزی مسجد کو بھی کہتے ہیں اور بیوی کو بھی۔ داد ایک جلدی بیماری کو بھی کہتے ہیں اور انصاف یا تعریف و ستائش کو بھی۔ اسی طرح لفظ ’’کف‘‘ بلغم یا جھاگ، آستین کا اگلا حصہ، پیر کا تلوا اور ہاتھ کی ہتھیلی یعنی چار معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ تخلیقی استعمال سے شعراء اور نثار بعض الفاظ کو معنوی توسیع کے عمل سے بھی گزارتے ہیں ، مثلاً اقبال کا شعر ہے:
ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار
(نظم: آزادیشمشیر کے اعلان پر، کتاب: ضرب کلیم)
مصرعِ ثانی کسی شعر کے دوسرے مصرعےکو کہتے ہیں ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو ایک شعر فرض کریں تو پہلا مصرعہ وہ تھا جو جانبازی اور جہاں بانی سے عبارت تھا، دوسرا مصرعہ ’فقر‘ ہے کہ وہ بھی تلوار کی مثل کاٹ کرتا ہے۔ یہ بھی ان کا شعار ہوجائے تو وہ حیدر کرار اور خالد بن ولید کی یاد تازہ کرسکتے ہیں ۔
مگر اب مشاعروں میں ایسے ایسے نا شاعر، متشاعر اور ناظم اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ لفظوں کے تلفظ اور معنی کی سانس اکھڑنے لگی ہے۔ ابھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک مشاعرہ میں ایک ناظم صاحب نے فرمایا کہ امراوتی اور علی گڑھ دونوں الف سے لکھا جاتا ہے۔ اچھا ہوا کہ ان کا تعلق مسلم یونیورسٹی سے نہیں ہے جس کے بارے میں مجاز نے کہا تھا کہ ’جو ابر یہاں سے اٹھے گا....‘‘ ورنہ وہ ابر ’ع‘ سے لکھنا شروع کر دیتے۔ مشاعرے مجلسی تنقید کا بھی عملی نمونہ تھے۔ یہاں زود گوئی اور برجستگی کے نمونے بھی سامنے آتے تھے اور ان کی داد بھی ملتی تھی۔ دلیؔ کی علی منزل کی ایک نشست میں جب جانشین داغ نوح ناروی نے خاص انداز سے مصرعہ پڑھا:
یہ دل ہے جگر ہے یہ کلیجہ
تو پنڈت ہری چند اختر نے برجستہ مصرعہ لگایا اور پڑھا:
قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا
یہ بھی پڑھئے: ہماری دعویداریاں اور حقیقتیں
یہ سنتے ہی سامعین کے ساتھ جناب نوح نے بھی قہقہہ لگایا۔ محفل زعفران زار ہوگئی۔
کبھی کبھی مجلسی تنقید کا سلسلہ دیر تک جاری رہتا تھا اور اس کا جواب بھی دیا جاتا تھا۔ ایک بار پنڈت اختر نے جوش ملیح آبادی سے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں ؟ جوش نے جواب دیا ’’میرا تو ایک ہی مزاج ہے۔‘‘ اس وقت پنڈت جی خاموش رہے مگر چند روز بعد جب جوش سے ملے تو انہوں نے خبر دی کہ ’’ابھی جگن ناتھ آزاد کے والد تشریف لائے تھے۔ پنڈت جی نے سنجیدگی سے پوچھا ’’کتنے؟‘‘
بعض لوگ اعتراض کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں مگر دوسروں پر، اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتے اس کے برعکس بعض لوگ بڑی سے بڑی خطا کرنے والے کو بھی نہیں ٹوکتے کہ تعلقات خراب ہوجائیں گے یا گروپ ٹوٹ جائیگا۔ یہ دونوں ہی صورتیں خطرناک ہیں ۔ ان سے مشاعروں کی تہذیب کے علاوہ کئی اچھے پروگرام تباہ ہوچکے ہیں ۔ بعض لوگ غلط اردو میں اچھے لوگوں اور اچھے پروگرام کے خلاف منتظمین کو ورغلانے میں بڑے مستعد ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ سستی شہرت اور چرب زبانی کے سبب نظامت کرتے اور ندامت کا سبب بنتے ہیں ۔ علی گڑھ میں جو صاحب نظامت کر رہے تھے وہ تو بے مزا نہیں ہوئے مگر ان کی نظامت میں مشاعرے میں شرکت کرنے والے بھی کچھ الگ نہ تھے ورنہ ان کو بھی ندامت ہوتی۔