دنیا کے بیشتر ملکوں میں بولنے اور سمجھنے والوں کا ایک حلقہ رکھنے والی ایک زبان کی ایک تخلیق کا اردو کی کسی تخلیق سے موازنہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اردو کو تو ہندوستان میں حکومت کیا ان اداروں کی بھی پوری سرپرستی حاصل نہیں ہے جو اردو کے فروغ کے لئے قائم کئے گئے ہیں یا جنہیں لسانی اقلیت کا ادارہ ہونے کے سبب اقلیتی ادارہ ہونے کا درجہ دیا گیا ہے
اردو زبان، ادب، تہذیب، اساتذہ، طلبہ اور قارئین مجھے بہت عزیز ہیں ۔ انہیں جب کوئی برا کہتا ہے تو مجھے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ ایک روز صبح دس گیارہ بجے چند انجان چہرے میرے گھر آ دھمکے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ’’جو بے کار ہیں انہیں بھی بہت کام ہوتا ہے۔‘‘ آپ لوگوں کو آنے سے پہلے وقت لینا چاہئے تھا۔ بہرحال ان کے ہاتھ میں ایک خبر کا تراشہ تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ انگریزی ناول نگار جارج آرویل کے ناول ’’انیمیل فارم‘‘ کے اب تک گیارہ ملین (ایک کروڑ دس لاکھ) نسخے فروخت ہوچکے ہیں ، دو فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔ کیا اردو کے کسی ادیب یا صحافی کی کسی تخلیق کے اتنے نسخے کبھی فروخت ہوئے ہیں ؟ میرا جواب تھا کہ میں تین میں نہ تیرہ میں ، آپ یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں ؟ البتہ مجھے آپ سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ گزشتہ دس برس میں اردو کے کسی بھی ادیب کی کتنی کتابیں آپ نے یا آپ کے دوستوں اور عزیزوں نے خریدی ہیں ؟ یہ سن کر وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ میں نے ایک اور سوال پوچھ لیا کہ کیا جارج آرویل کے ناول کو بھی آپ نے پڑھا ہے؟ میں نے پڑھا ہے اور میری رائے میں اس ناول میں آج کی جمہوریت و سیاست کو نشانہ بنانے کے ساتھ مستقبل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، ان ادیبوں اور صحافیوں سے صرف نظر کیا گیا ہے جو صرف ارباب اختیار و اقتدار کا جھولا سر پر رکھ کر چلتے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے اقلیتی سیل اور اکیڈمیوں کی جانب سے ہزارو ں جلسے منعقد کئے مگر مولانا آزاد کو دوسری زبانوں میں متعارف نہ کراسکے۔ ’خوشامد کلچر‘ کو فروغ دینا اردو اور اردو والوں کی خدمت تو نہیں ہے۔
ادب کو سیاست و اقتدار کا غلام بنانا تو اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی معافی نہیں ۔ اربابِ اقتدار کی خوشامد کرنے والے تو دور، ادب پر ارباب اقتدار کی رائے بھی اس قابل شاید ہی ہوتی ہے کہ کسی سنجیدہ محفل میں اس پر گفتگو کی جائے کہ ۔ ایک مثال یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء میں جب ودیادھر نائپال کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تو برطانیہ، جہاں وہ مقیم تھے ، کے ارباب اقتدار تو چپ رہے مگر ہندوستان کے ارباب اقتدار نے خوب جشن منایا۔ اُس وقت وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی تھے ۔ انہوں نے بیان دیا کہ ’’نائپال کی تحریروں یا نگارشات میں ہندوستانی اقدار کی گہری نشاندہی ملتی ہے۔ ان کی ادبی سوچ سبھی حدود سے بالاتر ہے اور وہ ساری انسانیت کے لئے ایک جیسے اعلیٰ و ارفع خیالات رکھتے ہیں ۔‘‘ اب نائپال کے اعلیٰ و ارفع خیالات پر بھی نظر ڈالئے۔ ہندوستانیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’بیشتر ہندوستانیوں میں ایمانداری نہیں ہے۔‘‘ ہندوستانیوں کے ساتھ جو بات ہے وہی ہندوستانی تصانیف کے ساتھ بھی ہے کہ یہ بغیر کسی تاریخ کے خلاء میں تحریر کی جاتی ہیں ۔ برطانیہ ، جہاں وہ قیام پذیر تھے، کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ’’دوم درجے کے لوگوں کا ملک ہے۔‘‘ ناول کی صنف جس کی وجہ سے ان کی پہچان قائم ہوئی ، کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ ناول ایک دوغلی صنف ہے۔ یہ تیزی سے پھیلتی جارہی ہے ۔ ہر شخص ایک ناول لکھ رہا ہے… یہ ان سبھی ناولوں کی نقل ہے جو پہلے لکھے جاچکے ہیں ۔‘‘ تاج محل کے بارے میں موصوف کی رائے تھی کہ ’’یہ بیکار سی چیز تنزلی کی نشانی ہے، اتنی ظالم کہ وہاں زیادہ دیر تک رکا نہیں جاسکتا۔‘‘ بندیا، جو بیشتر ہندو خواتین، اور کہیں کہیں مسلم عورتیں بھی پیشانی پر لگاتی ہیں ، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’بندیا کا مطلب ہے کہ میرا سر خالی ہے‘‘
یہ بھی پڑھیئے:بہار میں اسمبلی انتخاب کی سرگرمیاں اور اقلیت!
جی ہاں نائپال ہی کا ذکر ہے۔ اسلام کے بارے میں ان کی سوچ ہے کہ ’’اسلام سخت اصولوں کا مذہب ہے۔ یہ بات جدید ہندوستان سے متضاد ہے۔‘‘ نائپال کے مختلف موضوعات پر رائے کو مختصراً ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء کے ’’آؤٹ لک‘‘ میں جمع کردیا گیا ہے۔ ان کے پیش نظر وزیراعظم واجپئی کا یہ تبصرہ کہ نائپال کی نگارشات میں ہندوستانی اقدار کی گہری نشاندہی ہے، بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے برعکس ہندوستان ہی کے انگریزی ادیب نِسیم ایزکل Nissim Ezekiel نے اسی دور میں اپنے مضمون ’’نائپال اور میرا ہندوستان‘‘ میں لکھا کہ ’’نائپال کو خوش اور مطمئن کرنا بہت مشکل کام ہے۔ وہ اسلام سے خوش نہیں ، ہندوستان کی شہری زندگی انہیں پسند نہیں ، یہاں کی زندگی سے انہیں نفرت ہے ، وہ جدھر بھی دیکھتے ہیں انہیں غریب ہندوستانی ہر طرف رفع حاجت کرتے نظر آتے ہیں ۔‘‘
ادیب اور سیاستداں وہ بھی برسراقتدار سیاستداں کی آراء کا فرق واجپئی جی اور نِسم ایزکل کے تبصروں سے واضح ہوجاتا ہے۔ آپ کو گفتگو اور تبصرہ نہیں ، غور کرنا چاہئے کہ کیا کبھی آپ نے کوئی ادبی کتاب خریدی ہے، کسی ادیب کی مالی اور ذہنی مشکلات کو سمجھنے اور اس کو اس سے نکالنے کی کوشش کی ہے ؟ نہیں تو آپ کو تبصرہ کرنے کا حق کس نے دیا؟ یہ سن کر وہ لوگ انگریزی زبان میں ایک دعوت نامہ کا غلط اردو ترجمہ دکھانے لگے کہ ہم تو اس پر گفتگو کرنا چاہتےتھے۔ میں نے کہا کہ گفتگو کی کیا ضرورت ہے، جس نے ترجمہ کیا یا اسے وائرل کیا ہے اسی سے پوچھ لیتے!
مجھے برا یہ محسوس ہوا کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں بولنے اور سمجھنے والوں کا ایک حلقہ رکھنے والی ایک زبان کی ایک تخلیق کا اردو کی کسی تخلیق سے موازنہ کیوں کیا جارہا ہے۔ اردو کو تو ہندوستان میں حکومت کیا ان اداروں کی بھی پوری سرپرستی حاصل نہیں ہے جو اردو کے فروغ کیلئے قائم کئے گئے ہیں یا جنہیں لسانی اقلیت کا ادارہ ہونے کے سبب اقلیتی ادارہ ہونے کا درجہ دیا گیا ہے اور کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ ان کے خلاف بولے۔ احتجاج بھی کرتے ہیں تو تضحیک کرنے کے انداز میں ۔ مجھ جیسے شخص سے جو یہ کہنے میں حق بجانب ہے مگر کہتا نہیں کہ ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘۔
احتجاج ہی کرنا ہے تو ان سے کیجئے جو فروغ اردو کے نام پر اردو زبان، ادب اور تہذیب کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔ اردو ان کے لئے اپنی تشہیر کا ذریعہ ہے مگر اپنی تشہیر کے لئے بھی وہ جن لوگوں یا طریقوں کو استعمال کرتے ہیں وہ اردو ادیبوں کی حوصلہ شکنی اور خود ان کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں ۔ اردوسے محبت کرنے اور معیاری نگارشات پیش کرنے والے آج بھی بہت ہیں مگر سرگرم صرف وہ ہیں جن کا کام تخلیق نہیں تخریب ہے۔ اس سازشی ٹولے کو اردو دوست نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ اگر اردو دوست ہیں تو اردو دشمن کون ہے؟