Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’کردار کھو گیا ہے، خلاء پُر نہیں ہوا!‘‘

Updated: March 15, 2025, 1:40 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہر دور اپنے کردار ساتھ لاتا ہے اور ساتھ ہی لے کر چلا بھی جاتا ہے۔بعض کرداروں کو طویل عمر ملتی ہے۔ وہ کئی دَور تک اپنی موجودگی سے ماحول کو معمور رکھتے ہیں۔ مگر موجودہ دور سابقہ تمام ادوار سے مختلف ہے۔ اس میں لوگ تو ہیں اور بہت ہیں مگر زندہ رہنے والے کردار نہیں ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

زندگی  میں  اُن لوگوں  کی بڑی اہمیت ہے جو بظاہر غیر اہم معلوم ہوتے ہیں  مگر جب اُن کی جگہ خالی ہوجاتی ہے تو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر اہم ہوکر بھی بہت اہم تھے۔ سحری جگانے والوں  کو ان میں  شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ، خواب خرگوش کے مزے لو‘ٹنے والی خلقت کو سحری کیلئے بیدار کرنے کا فریضہ ادا کیا کرتے تھے۔ اکثر لوگ جو ان کی آواز پر سحری کیلئے بستر چھوڑ دیتے تھے، یہ نہیں  جانتے تھے کہ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں ، اُن کا حلیہ کیسا ہے اور وہ ایک دو افراد ہوتے ہیں  یا زیادہ، مگر، اُن کی آواز اور اُس آواز کو وہ جن الفاظ یا اشعار کے ذریعہ اہل محلہ تک پہنچاتے تھے، اُس میں  انفرادیت ہوتی تھی۔ مخصوص آواز، مخصوص انداز، مخصوص پیغام اور مخصوص وقت۔ پرانی یادوں  کے ذخیرہ میں  ایسی آوازیں  اب بھی محفوظ ہیں  مثلاً ’’اُٹھو روزہ دارو، اللہ کے پیارو!‘‘ مگر زمانہ بدل چکا ہے، سب کے پاس گھڑیاں  ہیں ، گھڑیوں  میں  الارم ہے، بلکہ اب تو گھڑیاں  بھی ازکارِ رفتہ ہوچکی ہیں ، ان کی جگہ موبائل سرہانے رکھا رہتا ہے جس میں  دیگر کئی لوازمات کے ساتھ گھڑی اور الارم بھی ہے۔
 موبائل کہلانے والا یہ آلہ، الہ دین کے چراغ سے مشابہ ہے۔ الہ دین کے چراغ کو گھسنا پڑتا تھا، پھر اُس میں  سے ایک دیو برآمد ہوتا تھا جو کہتا تھا کیا حکم ہے آقا۔ موبائل کو نہ تو گھسنا پڑتا ہے نہ ہی اس میں  سے کوئی دیو برآمد ہوتا ہے اور حکم بجا لانے کیلئے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اب بنی نوع انسان کی سحر موبائل کی گھنٹی سے ہوتی ہے اور دن گزرنے کے بعد موبائل ہی اعلان کرتا ہے کہ بس اب سو جائیے، کافی رات ہوچکی ہے۔ سحری جگانے والوں  کی زندگی میں  جھانک کر دیکھنا تو ممکن نہیں  مگر موبائل کی مقبو لیت کے پیش نظر احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی موبائل دیکھ کر سوتے اور موبائل کی آواز پر جاگتے ہوں  گے۔ جو بھی ہو، اس بات کا قلق ہے اور آئندہ بھی رہے گا کہ سحری جگانے کا چلن کم سے کم تر ہوجانے کے بعد معاشرہ کے وہ لوگ عنقا ہوتے جارہے ہیں  جن کی اہمیت اس لئے تھی کہ وہ ایک خوبصورت روایت کے پاسدار اور امین تھے۔ وہ معاشرہ کی جانب سے مامور نہیں  کئے جاتے تھے مگر ایک مخصوص خدمت پر خود کو مامور کرلیا کرتے تھے اور اپنی آواز سے ماحول کو معمور کردیتے تھے۔
 گزشتہ سال اس اخبار میں  لکھنؤ کے رفیق کار احسان الحق نے ’’ہر شاعر سحری نہیں  کہتا، کچھ ہی شعراء ایسے تھے جو سحری کہتے تھے‘‘ کے عنوان سے سحری جگانے کی ختم ہوتی روایت پر کئی معلومات افزا  باتیں  قلمبند کی تھیں ۔ اُنہوں  نے لکھا تھا کہ ’’سحری جگانے والوں  کی  ٹولیاں  تیس چالیس تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ، ان لوگوں  کو کون سا مصرعہ اُٹھانا ہے، کن لوگوں  کو ترنم پیدا کرنا ہے، وغیرہ، کی تربیت سال بھر دی جاتی تھی، بعض ٹولیوں  کے لوگوں  کا لباس بھی مخصوص ہوتا تھا۔‘‘ اس مضمون میں  یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اپنے وقت کے کئی نامور شعراء سحری جگانے والوں  کیلئے لکھا کرتے تھے۔‘‘ اس ضمن میں  دل لکھنوی اور ہزار لکھنوی کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا تھا۔ 
 لکھنؤ کے جن لوگوں  نے وہ آوازیں  سنی ہیں  ممکن ہے ان کی سماعتوں  میں  وہ اب بھی محفوظ ہوں   اس کے باوجود یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ سحری جگانے والے اب نہیں  رہ گئے ہیں ۔ افسوں  جہاں   ان کے نہ رہ جانے کا ہے وہیں  اس بات کا بھی ہے کہ نئی نسل کبھی نہ جان پائے گی کہ وہ کیسی طلسمی آوازیں  تھی اور رمضان کی سحری سے اُن کا کتنا گہرا رشتہ تھا۔
 شاید زندگی اسی کا نام ہے۔ ہر دور اپنے چہرے اور کردار لے کر آتا ہے اور انہیں  ساتھ لے کر وداع ہوجاتا ہے۔ پھر نیا دور نئے چہرے اور کردار لے کر وارد ہوتا ہے۔ زندگی ویسے بھی ایک جیسی نہیں  رہتی۔ کبھی نہیں  رہی۔ تغیر و تبدل اس کا مزاج ہے، اس کا خاصہ ہے اس حقیقت سے آشنائی کے باوجود بہت سے کرداروں  کے نابود ہوجانے کا افسوس رہتا ہے۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں  گزرا جب ہر مسجد کے بانگی صاحب مغرب بعد محلے کے گھروں  پر آواز دیتے تھے۔ گھر کے لوگ اس آواز سے مانوس ہوتے تھے لہٰذا آواز گونجتی ہی نہیں  تھی کہ لوگ جان جاتے تھے کہ اُنہیں  کیا کرنا ہے۔ گھر کی عورتیں  باورچی خانے سے کچھ نہ کچھ لا کر بچوں  کے ذریعہ بانگی صاحب کی خدمت میں  پیش کردیا کرتی تھیں ۔ یہ بانگی صاحب کی خدمات کا صلہ نہیں ، اعتراف تھا۔ یہی بانگی صاحب محلے کے لوگوں  کو نام بہ نام جانتے تھے اور اہل محلہ اُن سے کماحقہ واقف ہوتے تھے۔ بانگی صاحب کا یہ کردار مسلم معاشرہ ہی کا کردار تھا جو غیر معمولی نہ ہونے کے باوجود اہم تھا۔ اتنا ہی غیر اہم ہوتا تو اب تک یاد کیوں  رہتا۔ نئی نسل کے قارئین کیلئے عرض ہے کہ بانگی، بانگ دینے والے یعنی اذان دینے والے (موذن) کو کہتے ہیں ۔ ممکن ہے بعض قصبوں  یا شہروں  میں  بانگی کا کردار اب بھی موجود ہو۔ یہاں  یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ جب کردار ختم ہوتا ہے تو اُس سے وابستہ الفاظ بھی فوت ہوجاتے ہیں  مثلاً بانگی۔ اب کہاں  اور کون استعمال کرتا ہے یہ لفظ؟ 

یہ بھی پڑھئے : مرد و خاتون کے تعلقات کی بنیاد باہمی محبت پر قائم ہے، انہیں رشتوں کا تقدس ملحوظ رکھنا چاہئے!

 اسی طرح ایک کردار مشاطہ (مَشَّاطَہ)۔ گھروں  میں  آنے جانے والی وہ خاتون جو گھر کی خواتین کا بناؤ سنگھار کرتی تھی۔ چونکہ خواتین نیز نوعمر لڑکیوں  سے اس کی واقفیت ہوا کرتی تھی اس لئے وہ رشتے لگانے اور شادی بیاہ کرانے میں  اہم کردار ادا کرتی تھی۔ اب یہ کردار دو الگ الگ کرداروں  میں  تقسیم ہوکر اتنا ماڈرن ہوگیا ہے کہ پہچانا نہیں  جاتا۔ میک اَپ آرٹسٹ کہلانے والی خواتین بھی معاشرہ میں  ہیں  اور رشتے ناطے لگانے والیاں  بھی ہیں  مگر انہیں  مشاطہ نہیں  کہا جاسکتا۔ وہ الگ ہی کردار تھا۔ اُس دور میں  ایک فارسی ضرب المثل مشہور تھی کہ ’’حاجت مشاطہ نیست روئے دلآرام را‘‘ یعنی چہرا حسین ہو تو اُسے بناؤ سنگھار کی حاجت نہیں  ہوتی۔ معاشرہ سے مشاطہ کردار ختم ہوا تو لفظ مشاطہ کے جاننے والے یا تو باقی نہ رہے یا اقل ترین اقلیت میں  آگئے۔ ایسے بے شمار الفاظ اب لغات میں  بند ہیں  اور اپنے جاننے والوں  کو ترستے ہیں ۔ 
 کرداروں  ہی کے باب میں  اس مضمون نگار نے کبھی یہ بھی لکھا تھا کہ دوچار بزرگ ہر محلے میں  ہوتے تھے جو بچوں  کے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے تھے۔ موجودہ معاشرہ میں  بزرگ ہیں  مگر وہ کردار نہیں  ہے۔ سوچئے ایسے کتنے کردار کھودیئے ہم نے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK