امیت شاہ کے بیان پر چوطرفہ ناراضگی ہے۔ بی جے پی نے اس کانوٹس نہیں لیابلکہ کانگریس کو ہدف بنانا چاہتی ہے تاکہ کارروائی کا مطالبہ سرد پڑجائے۔ یہاں پڑھئے کہ اس ضمن میں ہندوتوا وادیوں کی سوچ کیا ہے؟
EPAPER
Updated: December 30, 2024, 1:44 PM IST | ram puniyani | Mumbai
امیت شاہ کے بیان پر چوطرفہ ناراضگی ہے۔ بی جے پی نے اس کانوٹس نہیں لیابلکہ کانگریس کو ہدف بنانا چاہتی ہے تاکہ کارروائی کا مطالبہ سرد پڑجائے۔ یہاں پڑھئے کہ اس ضمن میں ہندوتوا وادیوں کی سوچ کیا ہے؟
حال ہی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ڈاکٹر امبیڈکر کے بارے میں جو کچھ کہا اس آپ واقف ہیں ۔ ایک طرف تو بابا صاحب کی توہین کی گئی اور دوسری طرف الزام کانگریس پر دھرنے کی کوشش کی گئی کہ اس نے بابا صاحب کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔ شاہ کو ان کے تبصرہ کا مناسب جواب دیا گیا، کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے بیان پر معافی مانگیں ۔ لگتا تو نہیں مگر ممکن ہے کہ اس شدید ردعمل کی وجہ سے ان کی اَنا پَست ہوئی ہو اور ان کے سیاسی وزن میں کچھ کمی آئی ہو۔ اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بتاتے ہوئے کہ ان کی پارٹی نے بابا صاحب کے ساتھ کتنا انصاف کیا ہے، اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کی حکومتوں نے مختلف مقامات پر بابا صاحب کے مجسمے نصب کئے ہیں ۔ کیا بابا صاحب موجود ہوتے تو انہیں یہ بات پسند آتی؟ شاہ نے اپنی پارٹی کے سر اس بات کا سہرا بھی باندھا کہ اس نے بابا صاحب کے یوم پیدائش کو ’’سوشل ہارمونی ڈے‘‘ کے طور پر منانا شروع کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کا سماجی آہنگی کا تصور بابا صاحب کے تصورات اور خوابوں کے بالکل خلاف ہے۔ ڈاکٹرامبیڈکر ذاتوں کے درمیان ہم آہنگی کے حق میں نہیں تھے بلکہ ذات پات کے نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی سماجی ہم آہنگی کی مہم کے ذریعہ جس ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں وہ امبیڈکر کے، ذات پات سے پاک سماج کے خواب کی ضد ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بی جے پی دین دیال اپادھیائے کے ’’اِنٹیگرل ہیومنزم‘‘ پر یقین رکھتی آئی ہے جس کے مطابق ہندو سماج کی ابتداء برہما سے ہوئی تھی، برہمن اس کے منہ سے، شتری اس کے بازو سے، ویشیہ اس کی رانوں سے اور شودر اس کے پاؤں سے نکلے ہیں ۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کا یہ بھی خیال ہے کہ اس انداز کی سماجی تقسیم سماج کو مضبوط کرتی ہے۔ اگر سنگھ اور بی جے پی نے واقعی امبیڈکر کا احترام کیا ہوتا تو ان کی حکومت اقتصادی طور پر کمزور طبقات کیلئے ریزرویشن کا اہتمام نہ کرتی، اس کی وجہ سے تو دلتوں ، قبائلیوں اور ایس ٹی کوٹہ میں تخفیف ہوئی ہے۔ اگر ان کے مقاصد نیک ہوتے تو ان کی حکومت دلتوں پر مظالم اور خواتین پر تشدد کے واقعات کو کم کر چکی ہوتی اور اس کےٹھوس شواہد ہمارے آپ کے سامنے ہوتے۔
جہاں تک بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ کانگریس نے امبیڈکر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا تو اس کی تفصیل میں جانا ہوگا اور تحقیق کے ذریعہ طے کرنا ہوگا کہ حقیقت کیا تھی۔ اس کے برعکس جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ ہندوتوا طاقتوں نے امبیڈکر کی سماجی انصاف کی لڑائی کا نہ تو ساتھ دیا نہ حمایت کی۔ اس کے بر خلاف ملک (کانگریس) کی قیادت نے ذات پات کے نظام کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا۔ گزشتہ صدی کی تیسری چوتھی دہائی میں گاندھی جی نے اس موضوع کو اتنی شدت سے اٹھایا تھا کہ اگلے چند سال تک ان کی توجہ انہی مسائل پر مرکوز رہی۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی شادی میں نہیں جائینگے جو بین ذات نہ ہو۔ انہوں نے اپنے سابرمتی آشرم میں ایک دلت خاندان کو رکھا۔ اس سے ناراض ہوکر عطیہ دہندگان نے آشرم کو چندہ دینا بند کردیا۔ آشرم بند کرنا پڑا مگر گاندھی جی نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
یہ درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے امبیڈکر کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہندو مہا سبھا انتخابی جنگ میں امبیڈکر کے خلاف تھی۔ بعد میں بابا صاحب کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا گیا۔ گاندھی جی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بابا صاحب کو عبوری حکومت میں وزیر بنایا جائے۔ گاندھی جی ہی کے مشورہ پر بابا صاحب کو دستور ساز اسمبلی کی مسودہ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ امیت شاہ یہ تشہیر بھی کررہے ہیں کہ امبیڈکر نے مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ کانگریس کی خارجہ پالیسی اور آئین کے آرٹیکل ۳۷۰؍ سے نالاں تھے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی رائے تھی کہ وادیٔ کشمیر، جموں اور لداخ میں الگ الگ ریفرینڈم کرایا جائے تاکہ جموں اور کشمیر کے نسلی تنوع کے ساتھ انصاف ہو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا۔
ان کے استعفیٰ کی اصل وجہ یہ تھی کہ ہندو کوڈ بل کو پارلیمنٹ نے اس کی اصل شکل میں منظوری نہیں دی تھی۔ اس کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کیلئے نہرو نے امبیڈکر سے درخواست کی تھی۔ مسودہ تیار کرتے وقت بابا صاحب نے خواتین کے ساتھ مساوات کو یقینی بنانے پر زیادہ سے زیادہ زور دیا۔ مگر مسودہ منظر عام پر آیا تو جیسے بھونچال آگیا۔ آر ایس ایس اور اس کے حلیفوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس بل کا مقصد سناتن دھرم کو ختم کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کو امبیڈکر اور نہرو کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔
یہ بھی پڑھئے : ’منموہن کیسے تھے؟‘ بمقابلہ ’وہ کیسے نہیں تھے
بہرکیف یہ طویل تاریخ ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امبیڈکر اور سنگھ پریوار کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے آر ایس ایس اور بی جے پی دلتوں اور قبائلیوں کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کررہے ہیں جس کیلئے انہوں نے منصوبہ بند اقدام کئے ہیں لیکن اس سرگرمی کا واحد مقصد الیکشن جیتنا ہے۔ دلتوں کا ایک بڑاطبقہ آئین کا احترام کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آئین نے دلتوں کو ذات پات کی غلامی سے آزاد کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں دلت رائے دہندگان نے کسی حد تک کانگریس کا ساتھ دیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کی وجہ دلت برادران کایہ احساس و تجزیہ ہو کہ بی جے پی نے جو کچھ کیا وہ علامتی ہے۔ اس نے بابا صاحب کے خوابوں کی تعبیر کیلئے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔ امیت شاہ کی پارٹی آئین اور ہندو کوڈبل دونوں کی مخالف تھی ،کیا یہی سماّن تھا جس کا عویٰ وہ کرتے ہیں ؟ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندو راشٹر کا قیام امیت شاہ اور ان کی پارٹی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ یہ وہ ایجنڈا ہے جو بابا صاحب کے تصور ِ آزادی،مساوات، بھائی چارہ اور سماجی انصاف کے بالکل برعکس ہے۔