این آر سی بل کی ناکامی کے بعد ہم اب وثوق سے کہتے ہیں کہ وقف بل بھی کبھی پاس نہیں ہوگا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تیلگو دیشم سرکار نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس بل کو ہرگز نہیں مانے گی۔
EPAPER
Updated: December 10, 2024, 1:19 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
این آر سی بل کی ناکامی کے بعد ہم اب وثوق سے کہتے ہیں کہ وقف بل بھی کبھی پاس نہیں ہوگا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تیلگو دیشم سرکار نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس بل کو ہرگز نہیں مانے گی۔
بی جے پی نے مسلمانوں کو ایک بار پھر ڈرانے کے لئے وقف بل پیش کیا تھا فی الحال یہ بل ملتوی کردیا گیا ہے، بی جے پی کے لیڈروں کی بات مان لی جائے تو یہ بل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔اس لئے یہ بل دوبارہ پیش کئے جانے تک تو ہم لوگوں کو راحت مل گئی۔یہ بل جب بھی پیش کیا گیا بل وہی ہوگا۔ اس لئے اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
جیسا کہ ہم نے کہا کہ اس بل کامقصد بھی مسلمانوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کا تھا،خدا کا شکر ہے کہ اب ہندوستانی مسلمان بھی اس شرارت سےآگاہ ہوگئے ہیں ، وہ اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ کسی بھی سیاسی شرارت سے ڈرنے کے بجائے یہ جان لیاجانا ضروری ہو گیا ہے کہ کسی بل کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ پہلے ہندوستانی مسلمانوں کوقانونی چارہ جوئی کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، یہ کمی بھی اب دور ہوگئی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مودی سرکار کے پاس اتنی ہی اکثریت ہوتی تووہ اس بل سے مسلمانوں میں وہی خوف پیدا کرتی جو اس سے پہلے وہ این آر سی بل کے ذریعہ پیدا کر چکی تھی۔ این آر سی بل بھی ایک شرارت انگیز عمل تھا۔
ہمیں بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب این آر سی بل پیش ہوا تھا تو مسلمانوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اس طرح مسلمانوں کو یہ دھمکی دی جا رہی تھی کہ وہ اس بل کے سہارے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر ہندوستانی ثابت کریں گے لیکن جیسا کہ ہم ان کالموں میں پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں ، چاہے وہاں جمہوریت برائے نام ہو یاوہ حکومت جو چاہے وہی کر سکتی ہو، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حکومت کوئی ایسا قانون بنائے جس سے کسی ایک مذہب یا فرقےکو نقصان پہنچ سکتا ہو، بلکہ کوئی ایسا قانون بھی نہیں بنا یا جاسکتا ہے جس سے کسی ایک مذہب یا فرقہ کو فائدہ بھی ہو۔این آر سی بل میں ایسی باتیں کہی گئی تھیں جن سے ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی بڑی آسانی سے غیر ہندوستانی ہوجاتی ہے ، اس بل میں یہ شرط لگائی گئی تھی کہ کسی ہندوستانی کو اپنے کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف ہندوستانی ہو بلکہ اس کے باپ دادا کیلئے یہ ثابت کرے کہ آزادی کے بعد وہ بھی ہندوستانی ہیں ۔ جن کے پاس گھر ہیں ان کے پاس ذاتی گھر ہوں ، ہندوستان میں ذاتی گھر بنانا تاج محل بنوانے سے کم نہیں ۔ ہم اسی وقت یہ بھی جان گئے تھے کہ اس شرط کوثابت کرنا بہت مشکل ہے ۔بل میں یہ شرط بھی تھی کہ خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے آدھار کارڈ یا ووٹنگ کارڈ قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس بل کا سب سے زیادہ اثر آسام میں تھا۔ امیت شاہ کا خیال تھا کہ یہاں کے مسلمان زیادہ تر بنگالی بولتے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ بنگالیوں کو بنگلہ دیشی ثابت کرنا آسان ہوگا۔ اس کے بعد ان لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجنا بہت آسان ہوجائے گا لیکن جب مردم شماری کی پہلی رپورٹ آئی تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اسّی فیصد سے بھی زیادہ ہندو تھے جنہیں خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے کاغذات پیش کرنے تھے۔
اس میں امیت شاہ نے ایک شرارت اور کی تھی ، انہوں نے یہ کہا تھا کہ خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے صرف باپ دادا کے نام نہ یاد ہوں بلکہ ان کی ایک ثقافتی شناخت بھی ہو۔ امیت شاہ کی شرارت یہ تھی کہ وہ یہ جانتے تھے کہ کم از کم آسام میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے اور یہ سب مسلمان مغربی بنگال سے ادھر آئے تھے اور ان کی زبان بھی بنگالی تھی تو یہ ثابت کرنا کہ یہ نہ صرف ہندوستانی نہیں ہیں بلکہ دہشت گرد بھی ہیں ، بہت آسان ہوجائے گا۔ انہوں نے یہ ثابت نہ کرنے والوں کے لئے آسام میں ایک بہت بڑا قید خانہ بھی بنوالیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے ’بنگالیوں ‘ کو ہزاروں کی تعداد میں اس قید خانے میں قید کیا جائے گا۔ اب پتہ نہیں کہ وہ قید خانہ کس حال میں ہے، اس میں کوئی ہے بھی یا وہ صرف ایک عجائب گھر بن گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت کی بنگلہ دیش کی حسینہ حکومت نے بھی یہ اعلان کیا تھاکہ اگر اس طرح کے لوگ بنگلہ دیش بھیجے گئے تو وہ انہیں اپنا شہری نہیں مانے گی۔ اس کے علاوہ بھی بنگال کی ممتا حکومت نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت این آر سی بل کو مان بھی لیتی ہے تو بنگال حکومت اسے نہیں مانے گی ۔ یہ یاد رکھئے کہ اس بل کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہندوستان کا ہر صوبہ اس کو مان لے، اگر ایک صوبے نے بھی اس پر عمل نہیں کیا تو باقی صوبوں کو اس بل کو نہ ماننے کا جواز مل جائے گا، چنانچہ اس کے بعد امیت شاہ یا تو این آر سی بل کو ہی بھول گئے یا اپنی یادداشت ثابت کرنے کے لئے ضمنی طور پر دو چار جگہ اس کا نام لے لیتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے :مہا یوتی نے نفرت انگیزی کا ’مہا حربہ ‘ اپنایا
این آر سی بل کی ناکامی کے بعد ہم اب وثوق سے کہتے ہیں کہ وقف بل بھی کبھی پاس نہیں ہوگا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تیلگو دیشم سرکار نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس بل کو ہرگز نہیں مانے گی۔ اس نے تو اپنے صوبے میں رہنے والے مسلمانوں کو کچھ ریزرویشن بھی دیا ہے، بالکل یہی نتیش کمار کے بعد والی سرکار کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے جس کو بہار کے مسلمانوں کے ووٹوں کی بہت ضرورت ہوگی اور اس نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ اگریہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو نتیش کمار کی جے ڈی یو اس کی مخالفت کرے گی۔
جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت اب بھی باقی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر باقی نہ ہوتی تو مودی سرکار کو مکمل اکثریت مل جاتی جو اسے نہیں ملی۔ چنانچہ یہ سمجھنا کہ مودی اور امیت شاہ ،کشمیر کے ۳۷۰؍ دفعہ کی طرح یہ بل بھی پا س کرالیں گے ، اب یہ ناممکن ہے او ر ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ ۳۷۰؍ہٹانے کا بل بھی یہی مودی اور امیت شاہ سرکار دوبارہ بحال کرے گی کیونکہ اس سلسلے میں پیش ہونے والے مقدموں میں جسٹس نریمن شاہ نے کہا تھا کہ یہ بل ہندوستان کے سیکولرازم کے نظریہ کے خلاف ہے اور یہ بات اب بڑھی ہی چلی جائے گی۔ ہندوستانی مسلمانوں کویاد رکھنا چاہئے کہ اب بھی اس ملک میں جمہوریت اور قانون کی گنجائش ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی۔