خلائی دوڑ کے برعکس، سپر انٹیلی جنس تیار کرنے کی یہ مقابلہ آرائی کوئی ضمنی پروجیکٹ نہیں ہے۔ یہ اُن کمپنیوں اور ممالک کے بنیادی مفادات سے وابستہ ہے جن میں یہ کام ہو رہا ہے۔
EPAPER
Updated: February 09, 2025, 1:58 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
خلائی دوڑ کے برعکس، سپر انٹیلی جنس تیار کرنے کی یہ مقابلہ آرائی کوئی ضمنی پروجیکٹ نہیں ہے۔ یہ اُن کمپنیوں اور ممالک کے بنیادی مفادات سے وابستہ ہے جن میں یہ کام ہو رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ۲۲؍ جنوری کو تین کمپنیوں اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس (اے آئی ) کے محاذ پر امریکہ کی بالادستی کو برقراررکھنےنے کیلئے ڈیٹا سینٹر اور الیکٹرسٹی پلانٹ کی تعمیر کیلئے ۵۰۰؍ بلین ڈالر کے پروجیکٹ کا اعلان کیا ۔ ۵؍ دن بعد چینی اے آئی چیٹ بوٹ ’’ڈیٖپ سیک ‘‘ متعارف ہوا اور دنیا بھر میں ایپ اسٹور سے سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانےوالا اے آئی چیٹ بوٹ بن گیا۔ ڈیپ سیک کی یہ کامیابی غیر متوقع ہے کیونکہ برسوں سے امریکی صدور نے اے آئی میں استعمال ہونے والی انتہائی پیچیدہ کمپیوٹر چپس تک چین کی رسائی نہیں ہونے دی ۔ اس لئے یہ سمجھا جارہاتھا کہ بہترین ہارڈ ویئر تک اگر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
کچھ لوگ ’ڈیپ سیک‘ کو آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کے میدان میں امریکہ کیلئے ویسا ہی جھٹکا قرار دے رہے ہیں جیسا جھٹکا اسے خلائی محاذ پر روس کے ذریعہ ’’اسپوتنک سیٹیلائٹ ‘‘ کے لانچ کے وقت لگا تھا۔ یہ سمجھنےکیلئے کہ کیا یہ امریکہ اور چین کے درمیان ویسی ہی مقابلہ آرائی ہے جیسی خلائی تکنیک کے میدان میں امریکہ اور روس کے درمیان تھی، ایک نظر خلائی مقابلہ آرائی پر ڈال لیتے ہیں ۔
جرمن سائنسدانوں کو جو راکٹ پروپلشن پر کام کررہے تھے، کو روسیوں اور امریکیوں کے ذریعہ پکڑ لئے جانے کے ایک دہائی بعد اسپوتنک ۱۹۵۷ء میں مدار میں پہنچا ۔ پکڑے گئے جرمن سائنس دانوں میں سب سے اہم وارنر وین براون تھا جنہیں امریکہ نے پکڑا تھا اس لئے اسے بالادستی حاصل تھی ۔ اس بالادستی کے باوجود سوویت یونین ایک باصلاحیت ڈیزائنر سرگئی کورولیوف کی قیادت میں امریکہ سے پہلے خلاء میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سرگئی کورولیوف کا تیار کردہ بنیادی ڈیزائن آج یعنی ۲۰۲۵ء میں بھی روسی راکٹوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ ا سپوتنک کے بعد امریکہ جو پیچھے رہ گیاتھا، نے وہاں تک پہنچنے کیلئے بہت زیادہ وسائل جھونک دیئے۔ اس کے باوجود روس برسوں اس محاذ پر آگے ہی رہا۔ مدار میں پہلا جانور (۱۹۵۷ء میں ) بھیجنے کے بعد پہلا انسان (یوری گاگرین ۱۹۶۱ء میں )،مریخ کیلئے پہلا تحقیقی مشن (۱۹۶۲ء ، خلا میں پہلی خاتون (۱۹۶۳ء) اور خلاء میں پہلی چہل قدمی (۱۹۶۵ء) کے بعد اس نے چاند پر پہلی سافٹ لینڈنگ (۱۹۶۶ء) کی اور ۱۹۶۶ء میں چاند کے مدار میں کامیابی کے ساتھ نہ صرف جانور بھیجا بلکہ اسے بحفاظت واپس لانے میں بھی کامیاب رہا۔
البتہ امریکہ نے بڑی کامیابی۱۹۶۹ء میں حاصل کی جب اس کا خلاء باز چاند پرقدم رکھنے میں کامیاب ہوا ۔اس وقت ’ناسا‘ کا بجٹ ملک کے وفاقی بجٹ کا ۴؍ فیصد تھا۔ امریکہ کی جانب سے چاند پر مزید کچھ ٹیمیں بھیجے جانے کے بعد جب عوام کی دلچسپی کم ہوگئی توناسا کا بجٹ بھی گھٹ گیا ۔ سوویت یونین نے بھی اپنے راکٹ ’این ون‘کی ناکامی اور اس کے کئی بارکریش ہونے کے بعد چاند پر لینڈنگ کی کوشش ترک کر دی۔ یہ جی پی ایس اور موبائل فون بلکہ ٹیلی ویژن کی براڈکاسٹنگ سے بھی پہلے کا دور تھا۔یعنی بہت کم لوگ خلائی مشن اور سیٹیلائٹس پر سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ صورتحال دہائیوں برقرار رہی۔ یہ تھی خلائی مقابلہ آرائی کی کہانی۔
مصنوعی ذہانت کی دوڑ کے معاملے میں کچھ چیزیں مختلف ہیں ۔ اول تو اس کا بنیادی محرک عوامی دلچسپی ہے نہ ملک کیلئے فخر کا عنصر،ا س لئے اس پر حکومتی سطح پر خرچ بھی نہیں کیا جارہا۔ یہ مقابلہ کارپوریٹس کے درمیان ہے جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں ۔ امریکہ میں مقابلہ آرائی کرنے والی کارپوریٹ گھرانے گوگل، فیس بک، ایلون مسک کا ایکس، مائیکروسافٹ اور اوپن اے آئی وہ ہیں جن کے پاس اِس کیلئےسب سے زیادہ وسائل موجود ہیں ۔ اے آئی کا مقصد انسانی سطح کی ذہانت حاصل کرنا اور پھر اس کو خود کو بہتر ہونے دینا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اگر پہلا مقصد یعنی آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کیلئے انسانی سطح کی ذہانت حاصل کرلی جائے تو دوسرا پڑاؤ بہت تیزی سے عبور کرلیا جائےگا۔ اس میں جو کمپنی آگے رہے گی اس کیلئے فائدہ کے زیادہ مواقع ہوں گے ۔اس لئے اس پر خرچ کا انحصار ان عوامل پر نہیں ہوگا جو خلائی مقابلہ آرائی کے خاتمے کا سبب بنے۔ مصنوعی ذہانت کی تحقیق پر جو خرچ ہوا ہے وہ ناسا اور سویت روس کے خلائی پروگرام کے مشترکہ خرچ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اس میں قومی سلامتی کا مفاد بھی شامل ہے۔ اگر چین میدان مار لیتا ہے تو امریکہ اس میدان میں اپنی عالمی بالادستی کھودیگا۔اسلئے امریکہ ہو کہ چین، ان کی حکومتیں اپنی کمپنیوں پر مزید پیش رفت کا دباؤ ڈالتی رہیں گی۔ یورپی یونین جو امریکہ اور چین جیسی ہی معاشی طاقت ہے، اس میدان میں مقابلہ کا ارادہ نہیں رکھتی۔ روس بھی اس دوڑ میں شامل نہیں ہے۔ اس لئے مقابلہ صرف امریکہ اور چین کے درمیان ہے۔
یہ بھی پڑھئے :کچھ لوگ جو آتے ہیں فرشتوں کی صفوں سے
خلائی دوڑ کے برعکس، سپر انٹیلی جنس تیار کرنے کی یہ دوڑ کوئی ضمنی پروجیکٹ نہیں ہے۔ یہ ان کمپنیوں اور ممالک کے بنیادی مفادات سے وابستہ ہے جن میں یہ کام ہو رہا ہے۔ امریکہ اور چین کےعلاوہ دیگر ممالک صرف اس امید کے ساتھ تماشائی بنے رہ سکتے ہیں کہ نتیجہ کسی نہ کسی طرح ان کیلئے بھی فائدہ مند ہو یا زیادہ درست الفاظ میں کہیں تو’’اُن کیلئے کم نقصان دہ ہو۔‘‘ پچھلی ۲؍صدیوں میں مختلف ممالک کے درمیان تکنیک کے محاذ پر تفاوت کم ہوا ہے۔ جب یہ فرق زیادہ تھا تو دنیا کا ایک بڑا حصہ جس میں جنوبی ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کا بڑا حصہ شامل ہے، نوآبادی بن کر رہ گیاتھا۔ بڑی آبادی والے علاقے کم آبادی مگر زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے کنٹرول میں آگئے تھے۔ چین بھی اس دور سے گزرا جسے وہ ’’ذلت کا صدی‘‘قراریتا ہے،۔اس کا آغاز ۱۸۳۹ء میں برطانیہ کے زیر تسلط آنے سے شروع ہوا۔اب وہ اُس پوزیشن پر نہ جانے کیلئے پُرعزم ہے اور ۲۰۲۵ء میں اس کے پاس غلبہ کی صلاحیت موجود ہے۔ اے آئی کی مقابلہ آرائی اور خلائی دوڑ میں ایک اور آخری فرق یہ بھی ہے کہ دونوں کو جمہوریت اور آمرانہ نظام کے درمیان مقابلہ کے طور پر پیش کیاگیا مگر یہ مغرب اور مشرق کے درمیان مقابلہ بھی ہے ۔ ہندوستان جیسی ترقی پزیر جمہوریتیں بھلے ہی ٹرمپ کے امریکہ کی طرف راغب ہوں مگر وہ بھی یہ نوٹ کریں گی کہ امریکہ اور ایشیاء کے درمیان بھی ایک مقابلہ ہے۔