گاندھی جی کی عظمت کے کئی راز ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کے افکار و نظریات ہر دور میں اپنی معنویت منواتے ہیں۔ اُن کی بعضـ تحریروں کے حوالے سے یہ مضمون دیکھئے:
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 1:38 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | Mumbai
گاندھی جی کی عظمت کے کئی راز ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کے افکار و نظریات ہر دور میں اپنی معنویت منواتے ہیں۔ اُن کی بعضـ تحریروں کے حوالے سے یہ مضمون دیکھئے:
تشدد کی خبروں کے درمیان گاندھی جی کے خیالات پر مبنی کتاب ’’خوراک کی کمی اور کھیتی‘‘ مل گئی جو نو جیون پرکاشن مندر، احمد آباد سے ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ بھارتنو کمار اس کے مرتب ہیں ۔ ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۶ء گاندھی جی نے خوراک اور کھیتی کے سلسلے میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔۱۹۴۲ء میں ’’ہریجن‘‘ پر پابندی عائد ہوئی تھی، ۱۹۴۶ء میں دوبارہ اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ کتاب پر طویل عرصہ گزر چکا ہے، خوراک اور کھیتی کے سلسلے میں بہت سی تجاویز پیش کی گئیں ، اور ان کے نتائج بھی منظر عام پر ہیں اس کے باوجو داِس کتاب کا مطالعہ ماضی کے ساتھ حال کی طرف آنے کا ایک زمینی تجربہ بھی ہے۔
خوراک کی کمی اور کھیتی کے تعلق سے تصورات چاہے جتنے مختلف اور فلسفیانہ ہوگئے ہوں مگر ان کی زمینی سچائی اپنی معنویت پر بدستور اصرار کرتی ہے۔ خوراک اور زراعت کا رشتہ کتنا قدیم اور کتنا جدید ہے، اس رشتے پر مشکل وقت ضرور آیامگر اس پر سوچ بچار کئے بغیر نہ تو حکومت باقی رہ سکتی ہے اور نہ سیاست بلکہ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار بھی خوراک اور زراعت پر ہے۔ خوراک کی کمی اور زیادتی انسانی زندگی کی دو بڑی سچائیاں ہیں ۔ جہاں کمی ہے وہاں تشدد کا خطرہ ہے اور جہاں زیادتی ہے وہاں تشدد کے ختم ہونے کی اُمید جاگتی ہے۔ خوراک کی کمی کس طرح اور کیونکر تشدد کو بڑھاتی ہے، اس کا تجزیہ مختلف سماجی، معاشی اور سیاسی نقطہء نظر کی روشنی میں کیا جاتا رہا ہے۔ خوراک کی زیادتی اور کمی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی زندگی۔ مساوات اور برابری کا خواب ہر زمانے میں دیکھا گیا، خواب دیکھنے والوں نے اپنے اپنے طور پر کوششیں بھی کیں لیکن زیادتی اور کمی بدستور مختلف ناموں اور حوالوں کے ساتھ باقی رہی۔
مساوات ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر کے انتظار میں نہ جانے کتنی آنکھیں پتھرا گئیں ۔ عام انسانی زندگی کے مسائل کم ضرور ہوئے مگر ان کی جگہ دیگر مسائل نے لے لی۔ تشدد اور نفرت کی تشکیل و تعمیر میں خوراک کی کمی کا کتنا حصہ ہے اس بارے میں پہلے بھی غور کیا گیا ہے۔ تشدد ایک ایسی زیادتی ہے جس کا سبب اکثر اوقات وسائل کی کمی ہوتا ہے۔ وسائل مہیا ہوں تو بھی تشدد اور غصہ اپنی راہ ہموار کر لیتا ہے۔ ایک بڑی آبادی روز مرہ کی زندگی میں کن حالات اور کن کیفیات سے دوچار ہے اس کا لیکھا جوکھا اکٹھا کرنا آسان نہیں ۔ اس کتاب میں عام انسانی زندگی کے تعلق سے زمینی سطح پر غور وفکر کیلئے جو مثالیں ملتی ہیں ، ان سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ مسائل کا حل اپنے موجودہ وسائل کو ایمانداری کے ساتھ استعمال کرنے میں ہے۔
حکومت اور سیاست کیا کرتی ہے اس پر نگاہ ضرور رکھنی چاہیے لیکن اپنے طور پر ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں ، یہی وہ حقیقت ہے جو اکثر اوقات بڑی باتوں اور بڑی محفلوں کے درمیان کھو جاتی ہے۔ خوراک اور زمین یہ دو لفظ کس قدر زندگی سے لپٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ زمین کو دیکھ کر خوراک کا خیال آتا ہے اور زندگی کا بھی۔ کھیتی زمین میں ہوتی ہے لیکن ایک ایسی کھیتی بھی ہے جس کی زمین انسانی ذہن ہے۔ ذہن کی زمین اگر زمینی نہ ہو تو خوراک بھی اس زمین سے بہتر طور پر نہیں مل سکتی۔ گاندھی جی نے خوراک اور کھیتی کے سلسلے میں بنیادی مسائل کو پیش نظر رکھا ہے۔
ایک وہ شخص جس کے پاس زمین بہت کم ہے اور ایک وہ شخص جس کے پاس زمین زیادہ ہے، دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے۔ کمی اور زیادتی کو گاندھی جی نے اس کے دائرہ کار میں رہ کر دیکھا ہے۔ کمی کو زیادتی سے خطرہ ہے نہ زیادتی کو کمی سے۔ گاندھی جی کے خیالات اُس وقت کے وسائل کی روشنی میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ، موجودہ وقت میں بھی دیکھے جانے کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ایک جگہ گاندھی جی فرماتے ہیں : ’’اناج کی تنگی کے بارے میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں آپ لوگوں کا دھیان پھر پریسیڈنٹ ٹومن کی امریکن عوام کو دی گئی اس صلاح کی طرف لے جاؤں گا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکن لوگوں کو کم روٹی کھا کر یورپ کے بھوک سے مرتے لوگوں کیلئے اناج بچانا چاہئے۔ میں اس سجھاؤ کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں کہ اس کے پیچھے امریکہ کا اقتصادی فائدہ اٹھانے کا گندا ارادہ چھپا ہوا ہے۔ کسی کے انصاف کا اندازہ اس کے کاموں کی بنیاد پر ہونا چاہیے پس پشت ارادے پر نہیں ۔ ایک بھگوان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ انسان کے دل میں کیا ہے۔ اگر امریکہ بھوکے یورپ کو اناج دینے کیلئے فاقہ کرے گا یا کم کھائے گا تو کیا ہم اپنے خود کیلئے یہ کام نہیں کر سکیں گے۔ خوراک اور بھوک اس کی ایک ایسی حقیقت ہے جو جغرافیائی حد بندیوں سے ماورا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: معاشی مسائل کا حل ممکن ہے اگر کچھ سیکھا جائے
گاندھی جی نے اپنے لوگوں کو دوسرے ملک کی مثال دی تاکہ سیاسی اختلافات کے باوجود مشترکہ انسانی اقدار پر نگاہ کی جائے۔ انہوں نے مختلف پھلوں اور فصلوں کیلئے مشورے دیئے ہیں کہ انہیں کیسے اُگایا جائے۔ یہ خیالات اتنے عملی ہیں کہ انہیں زمین کی پیداوار کہا جا سکتا ہے۔ خیالات زمینی بھی ہوتے ہیں اور آسمانی بھی۔ مہاتما کے نزدیک قلت ِاناج انسانی خوشحالی کا سب سے بڑا رخنہ ہے۔ کھانے اور پینے کے سلسلے میں جتنی صفائی کی ضرورت ہے اس کی طرف بھی یہاں متوجہ کیا گیا ہے۔ پھلوں کو اتنی بار دھو لینا چاہیے کہ ان کا منفی اثر نہ ہو۔ محسوس کیجئے کہ گاندھی جی کے ان خیالات کا رشتہ ماحولیات سے کتنا گہرا ہے۔ دھواں فضا کو آلودہ کرتا ہے، ظاہر ہے کہ ان تحریروں میں اس آلودگی کا بھی ذکر ہے جو اَزخود پیدا ہو جاتی ہے۔
تشدد اور نفرت کا بیج خوشحالی کی سرزمین پر بھی بویا جا سکتا ہے مگر بدحالی کو کم اور ختم کئے بغیر تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ تشدد خوف کی پیداوار ہے جو تب پیدا ہوتا ہے جب محرومی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ تشدد نے دنیا کو سوائے خوف و دہشت کے کچھ نہیں دیا۔ تشدد کو بھی دنیا سے خوف و دہشت کے علاوہ اور کیا ملا لیکن تشدد کی نفسیات میں اتنی عجلت شامل ہے کہ اسے ٹھہر کر سوچنے کا موقع ہی نہیں ۔ گفتگو شکست قبول کر لے تو تشدد فتح کا اعلان کرنے لگتا ہے۔ تب تشدد کی زبان سب سے بڑی زبان بن جاتی ہے۔