واقعہ تو سب جانتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے مگر کم ہی لوگ ’’خیال‘‘ سے واقف ہیں۔ موجودہ دور میں انسان اتنی تیز رفتار زندگی گزار رہا ہے کہ اُس کے پاس ایسے موضوعات پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ اس مضمون میں واقعہ اور خیال نیز ان کے باہمی تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے۔
دُنیا کے بیشتر بڑے مفکرین اور قلم کاروں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مشکل وقت خیال پر آیا ہے۔ خیال کی ایک سے زیادہ سطحیں ہوتی ہیں اور خیال کی ہر سطح زندگی سے وابستہ ہے۔کبھی خیال کی کوئی سطح اتنی سطحی ہو جاتی ہے کہ فکری مسائل اجنبی سے ہو جاتے ہیں ۔ ایسے وقت میں مکالمہ مشکل ہو جاتا ہے۔ خیال کا کسی ایک منزل پر ٹھہر جانا، محرومی کے سوا اور کیا ہے۔یہ محرومی معاشرے کے لئے اس وقت زیادہ ہو جاتی ہے جب ٹھہرا ہوا ذہن اپنے ٹھہرنے کا جواز ڈھونڈنے لگتا ہے۔ کبھی وہ دوسروں کو اپنی سطح تک گھسیٹ کر لانا چاہتا ہے۔ خیال کا واقعہ بن جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ذہن اور زمانہ کسی خیال کو اپنی تہذیبی زندگی کی ضرورت بنا چکا ہے لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جسے ہم خیال کا واقعہ کہتے ہیں یا خیال کا واقعہ بن جانا کہتے ہیں ، اس میں خیال کی کوئی سطح بہرحال باقی رہتی ہے۔عام زندگی میں ہم جن واقعات کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں ، ان سے متعلق غور کرتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ جانا اور نگاہ کا سامنے کے حقائق پر ٹھہر جانا، خیال سے دور ہو جانا ہے۔ جو حقائق بہت نمایاں ہیں ان کی پیشکش کی سطح واقعاتی ہونے کے باوجود فکری بھی ہو سکتی ہے۔ اس فکر کا رشتہ خیال سے بھی ہے۔ واقعے کا خیال بن جانا، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مستقل طور پر حل نہیں ہو سکتا۔ ایسا وقت بھی گزرا ہے جب ہماری سیاسی،تہذیبی اور ادبی زندگی خیال سے پہچانی جاتی تھی۔واقعہ خبر بنتا اور مخصوص ذہنی سطح کے ساتھ تجزیے کےعمل سے گزرتا۔ خبر کی سرخی مشتعل کرتی مگر خبر کامحاکمہ اور تجزیہ شعور کو بیدار بھی کرتا تھا اور بالیدہ بھی۔
واقعہ ایک معنی میں تاریخ بھی ہے جس کی کئی تعبیرات ممکن ہیں ۔ جب واقعہ خیال کی سرحد کو چھونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں واقعے کی ٹھوس زمین نرم ہونے لگتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ خیال کیوں کر ہمیں واقعے کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ فکری سطح پر ہم ہمیشہ واقعہ کی زمین اور سطح کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ زمینی سطح ہے جو خیال کے ساتھ بلند ہونے لگتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کچھ پھیلتی سی جا رہی ہے۔
عام زندگی میں واقعے کی جو اہمیت ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ہماری علمی اور تہذیبی زندگی رفتہ رفتہ واقعے کی نذر ہو جاتی ہے اور پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ذہن گہرائی کے ساتھ کسی مسئلے کے بارے میں سوچنے پر آمادہ نہیں ۔خیال واقعے سے جب پھوٹتا ہے تو ایسے میں خیال کی دنیا واقعے سے بلند ہو جاتی ہے۔
اس کی ضرورت صرف ادب ہی کو نہیں بلکہ تاریخ اور سیاست کو بھی ہے۔ خیال سے ڈر لگتا ہے۔یہ بات طرح طرح سے گزشتہ چند برسوں اور دہائیوں میں دہرائی گئی۔ واقعہ جو کبھی اور کہیں حادثے کی صورت میں رونما ہوتا ہے،اس کی تعبیر کے لیے بھی ایک حساس ذہن کی ضرورت ہے۔صورتحال یہ ہے کہ گفتگو کا رخ خیال کی طرف مشکل ہی سے ہو پاتا ہے۔ سامنے کے واقعات اور واقعات سے وابستہ چند حقائق ہی ہمارے لیے اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔اور انہی سے ہماری تہذیبی زندگی روشن دکھائی دیتی ہے۔جب واقعے کو دیکھنے کا تناظر چھوٹا ہو جاتا ہے تو اس کی تعبیر بھی تنگ نظری کا شکار ہو جاتی ہے۔ عام زندگی میں واقعہ زندگی کی اگر سب سے بڑی سچائی ہے تو اسی کے ساتھ واقعے کا خیال بن جانا بھی ہماری ایک بڑی ضرورت ہے۔ واقعہ خیال کو راہ دیتا ہے یا خیال واقعے کی راہ ہموار کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب تحریر ہی فراہم کر سکتی ہے۔
اخبار واقعات کا اظہار بھی ہے اور خیال کی دنیا کو وسعت بخشنے کا وسیلہ بھی۔ اخبار کے بارے میں یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اسے خیال سے نہیں بلکہ واقعے سے سروکار ہے۔ اس غلط تصور نے اخبار کے لئے بڑے مسائل پیدا کر دیئے ہیں ۔
عام طور پر جو تحریریں شائع ہوتی ہیں ان سے ہماری یہ توقع پوری نہیں ہوتی کہ واقعہ کے ساتھ ساتھ خیال بھی ہمارے لئے اہم ہے۔ خیال پر جو مشکل وقت آیا ہے، اس کا سبب موجودہ زندگی کی عجلت پسندی بھی ہے۔ تیز رفتاری اور عجلت پسندی کو کبھی الگ الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خیال غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے، واقعہ فوری طور پر کسی مسئلے کے تعلق سے بکھرے ہوئے خیالات کو ایک مرکز پر لے آتا ہے۔ واقعہ کی یہ روش عصری زندگی کا ایک بڑا حوالہ ہے۔ اس کا احترام بہرحال ضروری ہے لیکن ٹھیک اسی وقت اور اسی موڑ پر خیال کو بھی راہ پا جانا چاہیے۔ یوں دیکھیں تو واقعہ کے ساتھ خیال کو روکا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ ہمیشہ واقعے کے ساتھ ہوتے ہیں اور خیال انہیں ایک فالتو سی شے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اکثر خیال کا مذاق اڑاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ یہ لوگ اصل میں وقت کے ساتھ نہیں ہیں ۔گویا واقعہ وقت کے ساتھ ہے اور خیال گزرے ہوئے وقت کے ساتھ یا اس وقت کے ساتھ جو ابھی آیا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کوئی تو وجہ ہوگی زیلنسکی کو اتنا ڈانٹنے کی
کچھ لوگ ہمیشہ خیال کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کی تحریر اور تقریر بتاتی ہے کہ وہ اصل میں نہ واقعہ کے ساتھ ہیں اور نہ خیال کے ساتھ۔ خیال کی ہر سطح اپنا ایک جواز رکھتی ہے مگر ان سطحوں کے درمیان ہمیشہ مکالمہ جاری رہتا ہے۔ایک سطح دوسری سطح کے ساتھ ہو جاتی ہے اور خیال کی دنیا ایک دم سے اوپر تلے ہونے لگتی ہے۔ یہ عمل فکری طور پر اتنا غیر منطقی ہے کہ اس کا کوئی جواز پیش کرنا بہت دشوار ہے۔کون سا خیال کس کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھ جائے گا اس کی خبر تو خیال کو بھی نہیں ہوتی۔
اس عمل میں خیال سے گزرنے والا شخص کتنا خوش نصیب یا بدنصیب ہو سکتا ہے اس کا تعلق تو دراصل اپنی توفیق، ریاضت اور حساسیت سے ہے۔ واقعے کوخیال کی ضرورت ہے اور خیال کو واقعے کی ضرورت ہے۔ یہ کبھی فاصلہ قائم کر لیتے ہیں اور کبھی فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔ قربت اور فاصلے کا یہ کھیل وقت کے جبر سے وابستہ ہے۔ وقت کا جبر واقعے کو اکثر اوقات خیال میں تبدیل کر دیتا ہے۔لیکن اسے سمجھنے اور محسوس کرنے کے لئے ذہن کا منطقی ہونا بھی ضروری ہے اور تخیلاتی بھی۔۔