اس میں شک نہیں کہ اس عالمی ادارہ کی مستقل رکنیت کا ہمارا مطالبہ پرانا ہے اور آبادی نیز جمہوری روایات کے پیش نظر ہم اس کے حقدار ہیں مگر کیا ہم اس ادارہ کے قائم کردہ معیارات کو ملحوظ رکھتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔
EPAPER
Updated: November 04, 2024, 1:56 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
اس میں شک نہیں کہ اس عالمی ادارہ کی مستقل رکنیت کا ہمارا مطالبہ پرانا ہے اور آبادی نیز جمہوری روایات کے پیش نظر ہم اس کے حقدار ہیں مگر کیا ہم اس ادارہ کے قائم کردہ معیارات کو ملحوظ رکھتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۱۵؍اراکین ہیں ۔ ان میں ۵؍ مستقل ہیں اور ۱۰؍ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کو اس کی غیر مستقل رُکنیت کا اب تک آٹھ مرتبہ موقع مل چکا ہے۔ اب تک کا آخری یعنی آٹھواں موقع ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ء کیلئے تھا۔ نویں مرتبہ بھی یہ اعزازحاصل ہوسکتا ہے جو ۲۰۲۸ء اور ۲۰۲۹ء کیلئے ہوگا۔
دُ نیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑی آبادی والے ملک کی حیثیت سے یہ ہمارا حق ہے کہ اس عالمی ادارہ میں ہماری آواز سنی جائے۔آ بادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے اس ادارہ میں ہماری مستقل شمولیت عالمی اُمور میں ہمارے اثرورسوخ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی مگر اپنے حق کے سامنے ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ آئیے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ گزشتہ چند برسوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کے ساتھ ہماری وابستگی کاکیا حال ہے:
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے سلامتی کونسل میں مضبوط کردار نبھانے پر توجہ نہیں دی ہے، جو نہ توانسانی حقوق کے اقدار کے مستقل اطلاق کے ساتھ اصولی موقف اختیار کرنے کو تیار ہے نہ ہی اس نے کونسل کے طریق ِ کار کے ساتھ تعمیری کام کیا ہے۔
ہندوستان ۱۸؍ میں سے ۱۶؍ سال انسانی حقوق کونسل کا رکن رہا جس کا حالیہ دورانیہ ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۴ء کا ہے۔ (اقوام متحدہ کی) انسانی حقوق کونسل کی قرارداد ۶۰/۲۵۱ کے مطابق ’’کونسل کیلئے منتخب ہونے والے اراکین حقوق انسانی کے اعلیٰ ترین معیارات کو برقرار رکھیں گے، حقوق انسانی کے تحفظ میں کونسل کے ساتھ مکمل تعاون کرینگے اور رکنیت کی مدت کے دوران اُن کی کاکردگی کا جائزہ لیا جائیگا۔‘‘ مگر ہماری کارکردگی کچھ اور کہتی ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین اور اس ادارے کی حقوق انسانی کونسل کے ۲۵؍ تنقیدی بیانات کا ہدف رہے ہیں ۔ یہ ۲۰۱۹ء کے بعد کی صورتِ حال ہے۔ ان تنقیدوں کے ساتھ ہی ہمارے یہاں کی حقوق انسانی کی کیفیت اور اس سلسلے کے بین الاقوامی قوانین کے تئیں ہماری عدم پاسداری پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۱ء سے ۲۴؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کے درمیان ہماری حکومت کے بارے میں یو این ہیومن رائٹ ایکسپرٹس نے ۲۵؍ تنقیدی بیانات جاری کئے ہیں بالخصوص رُکنیت کی آخری دو میعادوں کے دوران۔ یہ وہ ایکسپرٹس (ماہرین) ہیں جو ہیومن رائٹس کونسل نے مقرر کئے ہیں اور جن کی ذمہ داری عالمی سطح پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا اور متعلقہ ملکوں کو ان کے خلاف متنبہ کرنا ہے۔ ہماری حکومت نے ان بیانات میں سے محض ایک تہائی پر وضاحت کرنے یا اُن کا جواب دینے کی زحمت کی۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ہماری حکومت نے یو این اسپیشل پروسیجر کے تحت ہونے والے دوروں کی اجازت دی ہے۔ اس کے پاس، ایسے دوروں کی ۱۹؍ درخواستیں اب بھی معرض التوا میں ہیں ۔ چند درخواستیں وہ ہیں جو ۱۹۹۹ء سے التوا میں ہیں (مثال کے طور پر اذیت رسانی سے متعلق خصوصی نمائندہ کے دورہ کی درخواست)۔
اپنے آخری عالمگیر متواتر جائزہ میں ، ایک طریقہ کار جس کے ذریعے ہر ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی جانچ کی جاتی ہے اور اس میں بہتری کیلئے سفارشات پیش کی جاتی ہیں ، ۲۱؍ ممالک نے ہندوستان پر زور دیا کہ وہ اپنے ہاں مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو بہتر بنائے۔ ان سفارشات میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ نفرت انگیز تقاریر اور حکومت کی طرف سے امتیازی پالیسیوں کو اپنانا مثلاً تبدیلیٔ مذہب مخالف پالیسی پر نظر ثانی کرنا اس کی بھی تلقین کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ۱۹؍ ملکوں نے کہا کہ ہندوستان کو تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرنی چاہیے۔ یہ ایک معاہدہ ہے جس پر ہم نے ۱۹۹۷ء میں دستخط کئے تھے لیکن کبھی اس کی توثیق نہیں کی۔ ہم نے ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۷ء میں یہ تو کہا کہ اس معاہدے کی توثیق ضروری ہے مگر توثیق کی نہیں ۔ ایک طرف یہ معاہدہ بند ذمہ داری پوری نہیں کی گئی اور دوسری طرف پولیس اور حفاظتی ایجنسیوں پر اذیت رسانی اور جبری ’’اقبال جرم‘‘ کا الزام عائد ہوتا رہا۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہندوستان حقوق انسانی سے متعلق ۹؍ میں سے صرف ۶؍ معاہدوں میں فریق ہے۔
خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کو ختم کرنے اور حقوق اطفال کے کنونشن سے متعلق رپورٹیں بھی اب تک التوا میں ہیں ۔ یہ ’’اوور ڈیو‘‘ ہوچکی ہیں اور بھجوائی نہیں گئی ہیں ۔
کشمیر میں حقوق انسانی کامعاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کا دفتر ۲۰۱۸ء؍ اور ۲۰۱۹ء کی رپورٹ میں کہہ چکا ہے کہ حکومت کو حقوق انسانی سے متعلق بین الاقوامی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہئے، مسلح افواج کے خصوصی اختیارات کا قانون ختم کرنا چاہئے، صحافیوں پر عائد کی گئی پابندیوں کو ہٹانا چاہئے اور ہر طرح کی پابندی اور روک ٹوک کی جانچ کروانی چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: شاخِ زیتون سے ارضِ زیتون تک خون ہی خون ہے
ضرورت تھی کہ ہم ان مشوروں پر غور کرتے اور صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ہم نے اُن رپورٹوں کو لغو اور اپنے بیانیہ میں جانبدارانہ قرار دیا یہاں تک کہ اس عالمی ادارہ پر ’’دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے‘‘ تک کا الزام عائد کردیا۔ کیا یہ ذمہ دارانہ طرز عمل ہے؟
یہ حقیقت بھی افسوسناک ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی انتقامی کارروائیوں کی رپورٹ میں ہمارے ملک کا نام بھی شامل ہے مگر ہم اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ ۲۰۲۰ء کی رپورٹ میں ، سیکرٹری جنرل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک میں ’’جاری دھمکیوں اور انتقامی کارروائیوں نے مبینہ طور پر سول سوسائٹی کے کچھ نمائندوں کو مزید انتقام کے خوف سے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرنے سے روک دیاہے‘‘ ۔ یہ اور ایسی کئی شکایات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ہندوستان سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت کا خواہشمند ہے تو اسے عالمی ادارہ کو اعتماد دلانا ہوگا کہ وہ حقوق انسانی کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ ہے اور اس ادارہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔