اس جذبے کو اور اس کیلئے مزاحمت کو اُنہوں نے اپنے سروں کا تاج بنا رکھا ہے۔ اسی لئے حالات بدلے ہیں اور مزید بدلنے کا بھر پور امکان ہے۔
EPAPER
Updated: October 14, 2024, 1:33 PM IST | ramze barod | Mumbai
اس جذبے کو اور اس کیلئے مزاحمت کو اُنہوں نے اپنے سروں کا تاج بنا رکھا ہے۔ اسی لئے حالات بدلے ہیں اور مزید بدلنے کا بھر پور امکان ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی نہ تھمنے والی جنگ نے تباہی، بربادی، قتل عام اور انسانی المیہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری اب بھی جاری ہے مگر اب تک کی جنگ اور اِس کے سائے میں فلسطین کی مزاحمت کے کئی اہم پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہئے۔
پہلی بات: جنگ، تباہی، بھکمری اور بے بسی کے باوجود فلسطینی قوم ایک اہم سیاسی طاقت کی اپنی وراثت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس حیثیت کی برقراری میں فلسطینی شہریوں کی استقامت ہی اُن کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر غزہ کے لوگ ٹوٹ جاتے، بکھر جاتے اور مزاحمت کی اپنی روِش کو ترک کردیتے تو اس جنگ کو دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا۔ یہ استقامت یقین دہانی کراتی ہے کہ اِس قوم کی تقدیر صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جانے کی نہیں ہوسکتی خواہ اسرائیل یہی چاہتا ہو بلکہ وہ وقت آئیگا جب یہ قوم سرخرو ہوگی۔
دوسری بات: عرب معاشرے خواہ کتنا ہی اپنے آپ میں اُلجھے ہوئے ہوں ، اُن کے سامنے کتنے ہی چیلنج ہوں ، یہ بات ماننی پڑے گی کہ اُنہوں نے خود کو مجتمع رکھا ہے۔ فلسطینی کاز عالم عرب کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عرب ملکوں نے فلسطینی کاز کی مرکزیت کے اپنے موقف کا بار بار اعادہ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ موجودہ حالات میں بعض عرب معاشرے فلسطین کی براہ راست حمایت نہ کررہے ہوں اور کھل کر سامنے نہ آرہے ہوں مگر مسئلۂ فلسطین کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنے کا اُن کا طرز عمل یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پورا عرب اپنے تمام تر سیاسی بیانیوں میں فلسطین کو مرکزیت عطا کرنے کے اپنے موقف ہی کا نہیں بلکہ فلسطین کی کھل کر حمایت کا بھی حوصلہ دکھائے گا۔
یہی بات پوری ملت ِ اسلامیہ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ ملت پہلے کبھی اتنی متحد نہیں تھی جتنی فلسطین کے معاملے میں آج ہے۔ اس جذبے کو تما م مسلم ملکوں میں اور پوری دُنیا بالخصوص مغربی ملکوں کی مسلم آبادیوں میں بہت آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جو بات پوری قوت کے ساتھ درج ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عربوں اور مسلمانوں میں فلسطین توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تیسری بات: بین الاقوامی قانون اب بھی بے اثر ہے مگر غزہ میں ہونے والی تباہی اور قتل عام نے گلوبل ساؤتھ اور گلوبل نارتھ میں دراڑ ڈال دی ہے۔ (یاد رہے کہ گلوبل ساؤتھ کا معنی ہے وہ ممالک جو صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے جنوب میں واقع ہیں اور جو لاطینی امریکہ، افریقہ، کیبیرین اور ایشیاء کہلاتے ہیں ، اسرائیل، جاپان اور جنوبی کوریا کو چھوڑ کر۔ اور گلوبل نارتھ میں دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک شمارہوتے ہیں )۔ چند ملکو ں کو چھوڑ کر آخر الذکر گلوبل نارتھ اب بھی اپنے پرانے موقف کو دُہرا رہا ہے اور یہ کہتے نہیں تھکتا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ اس کی حرکتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اسے فلسطینی حقوق کی کچھ پروا نہیں ہے۔ اسکے برخلاف افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک اب پہلے سے کہیں زیادہ بلند آواز میں فلسطین کی حمایت کررہے ہیں ۔ اُن کا واضح موقف یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کا یکساں طور پر نفاذ ہونا چاہئے اور انصاف فلسطینیوں کا حق ہے، یہ حق اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ گلوبل ساؤتھ نے جو آواز بلند کی اُسے بین الاقوامی عدالت ِ انصاف اور بین الاقوامی کریمنل کورٹ میں سنا گیا ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اس پر کان دھرے ہیں ۔
قارئین واقف ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۷؍ ستمبر کو ایک قرارداد منظور کی جس میں باقاعدہ تاریخ مقرر کی گئی کہ کب اسرائیل کو فلسطینی علاقے خالی کردینے چاہئیں ۔ اس قرار داد میں بارہ ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔
چوتھی بات: غزہ کی چیخ پکار غزہ ہی میں نہیں گونج رہی ہے بلکہ پوری دُنیا میں سنی جارہی ہے۔ اس سرزمین کی خوفناک تصویریں ، اپنے ماں باپ کو کھو دینے والے بے یار و مددگار بچوں کے چہروں کی بدحواسی، دہشت، دور دور تک تباہی و تاراجی کے مناظر اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں عالمی برادری کی بدترین ناکامی، یہ سب ایسا نہیں ہے کہ چند ہفتوں یا مہینوں میں فراموش کردیا جائے۔ یہ پوری دُنیا کی تمام اقوام کے اجتماعی حافظے میں محفوظ رہنے والی چیزیں ہیں جنہیں درگزر نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین میں اتنا کچھ ہوا ہے اور اس کی اتنی تفصیل اقوام عالم میں پہنچی ہے کہ آئندہ کئی برس تک یہ عوامی حافظے سے محو نہیں ہوسکے گی۔ فلسطینی جدوجہد اور مزاحمت کے تعلق سے عالمی شعور اس حد تک بیدار ہوا ہے کہ دورونزدیک ہر ملک اور قوم کے لوگ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کررہے ہیں ، اسرائیل فلسطین تنازع کو مستند حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس قوم کے ساتھ، جو فلسطین کہلاتی ہے، انصاف ہونا چاہئے کہ اس پر بہت ظلم ہوا ہے۔اس پس منظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گا جب دُنیا کی تمام اقوام، تمام بستیاں ، آبادیاں ، سب بیک زبان کہیں گے کہ فلسطینی عوام کو انصاف ملنا چاہئے، ہر قیمت پر ملنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: کشمیر میں جمہوریت کی بحالی اور نئے امکانات
پانچویں بات: غزہ ایک سال سے مصیبت کے پہاڑ جھیل رہا ہے۔ اس پر کیسی کیسی آفتیں ٹوٹی ہیں یہ اہل غزہ ہی جانتے ہیں ۔ مگر ایک سال کی اس جنگ نے بہت کچھ سکھایا بھی ہے۔ اُن میں سب سے اہم یہ ہے کہ دُنیا کی بڑی سیاسی طاقتیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرتیں کہ کس قدم سے کیا سیاسی نتیجہ برآمد ہوگا مگر کسی قوم کے عزم کو اسلحہ سے توڑا نہیں جاسکتا خواہ اُس قوم پر اسلحہ کی کتنی ہی بارش کردی جائے، اُسے کتنا ہی تباہ کردیا جائے۔ بلاشبہ ایک سال سے جنگ سہتے سہتے، اہل فلسطین تباہ ہیں ، برباد ہیں ، بے بس ہیں ، بے گھر اور بے سروسامان ہیں مگر اس عالم میں بھی اُنہو ں نے اپنے وقار او رجذبۂ آزادی کو سلامت رکھا ہے۔ اسرائیل اُن سے اُن کا یہ جذبہ نہیں چھین سکا۔ یہ جذبہ اُن کی بہت بڑی دولت اور بہت بڑی طاقت ہے جسے وہ کسی بھی قیمت پر اسرائیل کے قدموں میں نہیں رکھ سکتے، وہ مرسکتے ہیں ، جھک نہیں سکتے، آزادی کے اپنے نعرہ کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے۔ غیور قوموں کا سب سے بڑا اثاثہ اُن کی غیرت ہوتی ہے، فلسطینیوں نے اس کی حفاظت کی ہے۔