• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیمی فائنل برابر رہا، نگاہیں فائنل کی طرف

Updated: October 15, 2024, 2:07 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

راہل گاندھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ سیدھے عوام کی طرف جا رہے ہیں۔ کانگریس کا کوئی لیڈر اس طرح عوام کے قریب نہیں گیا۔جی ہاں اندرا گاندھی بھی نہیں، جنہوں نے غریبی ہٹاو کا نعرہ تو ضرور بلند کیا تھا لیکن وہ بھی عوام کے اتنے قریب کبھی نہیں گئیں تھیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جموں کشمیر اور ہریانہ میں  اسمبلی انتخابات ہو گئے۔نتائج ویسے نہیں  آئے جیسی توقع تھی۔حکومت بنانے کے لئے کل ۴۷؍ سیٹوں  کی ضرورت تھی اور بی جے پی کو صرف ایک سیٹ زیادہ ملی ہے۔ کانگریس کا حال بھی کچھ زیادہ خراب نہیں  رہا۔ اسے ۳۷؍ سیٹیں  ملیں ۔کچھ عرصہ قبل ہماچل پردیش، کرناٹک، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پر دیش میں  بھی انتخابات ہوئے تھے، جن میں  سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان بی جے پی کے قبضے میں  چلے گئے  اور کانگریس کرناٹک اور ہماچل پردیش میں برسر اقتدار آسکی۔ ہریانہ کے الیکشن کے بارے میں  کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی وہاں  ای وی ایم کی وجہ سے جیتی ہے لیکن جب اس کا ثبوت مانگا گیا تو اب تک ایسا کوئی ثبوت اس کے پاس نہیں  ہے۔
 کانگریس ای وی ایم کی وجہ سے ہاری ہے یا اس کے اپنے اختلافات اس ہار کی وجہ رہے یہ سب پر عیاں  ہے۔ سبھی جانتے ہیں  کہ راجستھان میں  اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ میں  پرخاش چل رہی تھی۔ کانگریس ہائی کما ن اورسونیا گاندھی نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی کی مداخلت کی بعد یہ جھگڑے ختم ہوئے لیکن جب دو لیڈروں میں جھگڑے ہوتے ہیں  تو اس کا اثر نیچے کارکنوں  تک جاتا ہے ، لیڈر اگر مل بھی جائیں  تو یہ نیچے کے کارکن آپس میں  جھگڑتے رہتے ہیں  اور نتیجے کے طور پر پارٹی کو نقصان ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں  کہ مدھیہ پر دیش میں  دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ کے مابین بہت اختلافات تھے۔کمل ناتھ،  بی جے پی سے لڑنے کےبجائے ہندوتواایجنڈے پر ہی شد ومد کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ دگ وجے سنگھ الگ راگ الاپتے رہے اور کمل ناتھ الگ اپنی ڈفلی بجاتے رہے۔ اس کا بہت نقصان ہوا ۔ مدھیہ پردیش میں  کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں  ملی۔ یہ بھی سچ ہے کہ مدھیہ پردیش میں  بی جے پی ایک نہیں  تھی۔ وہاں  کے، تب کے  چیف منسٹر شیو راج چوہان اور مودی بھی ایک دوسرے کے حریف تھے لیکن شاید بی جے پی کو یہ فن آتا ہے کہ اپنی کمزوریوں  اور جھوٹ کو چھپالے۔ کانگریس کو یہ فن نہیں  آتا۔ یہی بات لوک سبھا کے الیکشن میں  کہی گئی تھی کہ ۸۰ ؍ سیٹوں پر ای وی ایم کا گھپلا ہوا تھا۔ لیکن جب پوچھا گیا تو ۸ ؍ سیٹیں  بھی نہیں  ملیں ۔
 کانگریس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پاس تنظیم نہیں  ہے۔ راہل گاندھی سے یہ توقع کرنا کہ وہ پارٹی بھی بنائیں  یہ ان پرزیادتی اور زبردستی ہوگی۔ راہل گاندھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ وہ سیدھے عوام کی طرف جا رہے ہیں ۔ آج تک کانگریس کا کوئی لیڈر اس طرح عوام کے قریب نہیں  گیا۔ جی ہاں  اندرا گاندھی بھی نہیں ، جنہوں  نے غریبی ہٹاو کا نعرہ تو ضرور بلند کیا تھا لیکن وہ بھی عوام کے اتنے قریب کبھی نہیں  گئیں ۔ اصل میں  کسی پارٹی کی تنظیم کسی ایک فرد کا کام نہیں  ہوتا، اس کے لئے ایک پورا گروہ ہوتا ہے۔ کانگریس کے پاس یہ گروہ نہیں  ہے۔ مثال کے طور پر یوپی میں  کانگریس تنظیمی سطح پر موجود نہیں  ہے، حالانکہ وہاں  بھی راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی بہت مقبول ہیں ۔ ایک اور بات دیکھئے، مغربی بنگال میں  ممتا بنرجی نے کانگریس سے حکومت چھین لی۔ اب کانگریس لاکھ کوشش کرے کہ بنگال اس کے ہاتھ میں  آجائے تو یہ ممکن نہیں  ہے، کیونکہ کانگریس وہاں  بھی موجود نہیں  ہے۔ کانگریس تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں  موجود ہے۔ کیرالا میں  بھی کانگریس ہے، اس لئے وہاں  جو ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
 اب ذرا دیکھئے کہ ہم نے ای وی ایم کے معاملے میں  زیادہ نہیں  کہا، کیونکہ برائی کی اصل جڑ کانگریس کے اندرونی اختلافات ہیں ۔ کانگریس کے لیڈروں  میں  ایک اورعیب بھی ہے۔کانگریسی لیڈروں  میں  آپس میں  مقابلہ آرائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہریانہ میں  بھی بھوپیندر سنگھ ہڈا نے اپنے بیٹے کو لیڈر بنانے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی۔ ان کے بیٹے لیڈر تو بن گئے لیکن سارا نقصان تو پارٹی کا ہوا۔ ایک اور بات دیکھئے نیشنل کانفرنس نے دفعہ ۳۷۰؍ ہٹانے کی  سخت مخالفت کی تھی۔ کانگریس نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ موجود ہے کہ جب تک کسی ریاست کے عوام آئین کی رو ح سے یہ فیصلہ نہیں  کریں  کہ انہیں  جو رعایتیں  دی ہیں ، وہ ہٹائی جائیں  یا نہ ہٹائی جائیں ، تب تک اس صورت کو بدلا نہیں  جا سکتا۔ فاروق عبداللہ نے اس دفعہ کو ہٹانے کی سخت مخالفت کی تھی۔ نریندر مودی نے اس کیلئے اپنے زوردار ہتھیار کا استعمال کیا۔ اس نے فاروق عبد اللہ کو گھر میں  نظر بند کر دیا۔ ہمیں  یاد ہے کہ جب نظر بندی ختم ہوئی تو فاروق عبداللہ نے یہ بیان دیا تھا کہ یہ نظر بندی ان کے بہت کام آئی۔ انہوں  نے اس دوران پورا قرآن مجید ختم کر لیا۔ چلو مودی کی وجہ سے ایک کام اچھا تو ہوا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اہل فلسطین کے پاس کچھ نہیں بچا سوائے جذبۂ آزادی

آپ ذرا خود ہی سو چئے کہ قومی اور بین الاقوامی طور پر بی جےپی کےلئے ہریانہ زیادہ اہم تھا یا جموں  اور کشمیر۔ ای وی ایم تو وہاں  بھی تھی۔اگر کچھ اور نہیں  تو نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی کچھ سیٹیں  کم ہی کر دی جاتیں  تاکہ وہ حکومت نہ بنا پاتیں ، لیکن ایسا نہیں  ہوا اب یہ ہوا ہے کہ عمر عبداللہ کشمیر کے نئے چیف منسٹر ہوں  گے۔ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ کشمیر ایک بار پھر اپنی پرانی حیثیت پر چلا جائے گا اور بی جے پی میں  جس طرح جموں  کشمیر کو تین حصوں  میں  بنٹا تھا وہ تقسیم بھی اب ختم ہوجائے گی۔ اگر نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حکومت نہ بنتی تو بی جے پی آسمان سرپر اٹھا لیتی کہ دیکھو ہم نے کہا تھا کہ کشمیری عوام دفعہ ۳۷۰؍ کو ہٹانے کے خلاف نہیں  ہیں ۔
  یہ پروپیگنڈہ جھوٹ ہوتا لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو بہر حال پڑتا ۔ نیشنل کانفرنس نے اپنی حکومت بنالی۔ اس طرح سیمی فائنل میں  تو دونوں  برابر رہے لیکن اصل فائنل تو جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں  ہوگا۔ جھارکھنڈ میں  مودی اور سورین ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ۔ مہاراشٹر میں  اپوزیشن اتحاد سے مقابلہ ہے۔ اصل مقابلہ یہیں  ہوگا ۔ عنقریب انتخابی تاریخوں  کا اعلان ہوا چاہتا ہے۔ دسمبر تک سب کے سامنے آ ٓجائے گا کہ اس صنعتی اور معاشی ریاست میں  جہاں  اتنے مہینوں  سے زبردست رسہ کشی چل رہی تھی، عوام نے حکومت سازی کیلئے کس کو منتخب کیا ہے۔ ہم تو خاصے پُراُمید ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK