ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت اختلافی آوازوں کو برداشت نہیں کرتی، اسی لئے سول سوسائٹی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے مگر اس کی وجہ سے کئی بہت اچھے کام بھی نہیں ہوپاتے ۔
EPAPER
Updated: September 22, 2024, 2:57 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت اختلافی آوازوں کو برداشت نہیں کرتی، اسی لئے سول سوسائٹی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے مگر اس کی وجہ سے کئی بہت اچھے کام بھی نہیں ہوپاتے ۔
اِس ماہ کی دو شہ سرخیاں اس وقت میرے سامنے ہیں ۔ ایک کا تعلق ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کی جانب سے اس بات پر شاباشی ہے کہ ہندوستان نے دہشت گردی کیلئے ہونے والی سرمایہ کاری (ٹیرر فائنانسنگ) اور منی لانڈرنگ پر اچھے طریقے سے قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ دوسری خبر بھی ایف اے ٹی ایف ہی سے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ادارے نے مذکورہ معاملات میں ہندوستانی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ بہت تکنیکی باتیں ہیں اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان خبروں میں جو کچھ کہا گیا ہے اُس کا مفہوم کیا ہے۔
آج کل کی خبروں کا تواتر کے ساتھ مطالعہ کرنے کے عادی لوگ گواہی دیں گے کہ ہندوستانی حکام کا نیا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کم و بیش ایک غیر سرکاری تنظیم کو ہر ماہ غیر قانونی قرار دیتے ہیں ۔ جو بھی غیر سرکاری تنظیم ممنوع قرار پاتی ہے اُس کی خبر اخبارات میں لازماً شائع ہوتی ہے۔ جن کی خبریں شائع نہیں ہوتیں وہ ایسی غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو دشوار حالات میں خود ہی فیصلہ کرتی ہیں اور اپنے دفاتر کو تالہ لگا دیتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں این جی اوز کے بند ہونے کا سرکاری ڈاٹا سرکاری ویب سائٹ پر آویزاں نہیں کیا جاتا جبکہ ماضی میں ایسا ہوتا تھا۔ سول سوسائٹی کا قافیہ تنگ کرنے کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کے ساتھ حکومت کا طرز عمل ایسا ہے جیسے کسی جرم کے خلاف ہوتا ہے۔ جان بوجھ کرایسی کارروائیاں کی جارہی ہیں کہ سول سوسائٹی سے وابستہ تنظیمیں رضاکارانہ طور پر اپنا کام بند کردیں اور نتیجتاً وہ لوگ خاموش بیٹھ جائیں جو بہت سے معاملات میں قانون کی بالادستی اور حقوق کی حفاظت کیلئے احتجاج کرتے ہیں ۔ اس پس منظر سے تو بہت سے قاری واقف ہو ں گے اس لئے ہمیں اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کون سے سوالات ہیں جو اُٹھائے جانے چاہئیں ، واضح طور پر اور بلند آواز میں ۔ اِس وقت یہ ضروری ہے بلکہ مَیں تو کہتا ہوں کہ یہی مناسب موقع ہے جب ایف اے ٹی ایف (فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس) نے ہندوستان کی میوچوئل ایوالیوشن رپورٹ (ایم ای آر) ۱۴؍ سال کے تعطل کے بعد شائع کی ہے اور ہندوستان سے کہا ہے کہ وہ غیر منافع جاتی شعبہ (غیر سرکاری تنظیموں ) کے معیارات پر کاربند رہنے سے احتراز پر رپورٹ پیش کرے۔
اب تک کی سطور پڑھنے کے بعد کوئی قاری دریافت کرسکتا ہے کہ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کیا ہے اور اس کے بارے میں جاننا کیوں ضروری ہے؟ تو آئیے پہلے اس سوال کا جواب دے لیں ۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس دراصل ایک کثیر محکمہ جاتی سرکاری ادارہ ہے جس کے ۴۰؍ اراکین ہیں ۔ اس ادارہ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی منی لانڈرنگ، دہشت گردی کیلئے ہونے والی فنڈنگ اور عام تخریب کے اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی پر خرچ ہونے والی رقومات کے لین دین سے نمٹے چنانچہ یہ ادارہ معیارات مقرر کرتا ہے کہ کس طرح مختلف ملکوں کا جائزہ لے گا۔ انہی معیارات پر مختلف ملکوں کو جانچا پرکھا جاتا ہے اور اُن کی درجہ بندی کی جاتی ہے کہ اُنہوں نے منی لانڈرنگ کے خلاف یا دہشت گردی کی فنڈنگ کے خلاف کیا اقدامات کئے۔ ہندوستان بھی ایف اے ٹی ایف کا رُکن ہے۔ یہ ادارہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ۲۰۲۳ء میں ہمارے ملک کی سول سوسائٹی نے ایک دستاویز تیار کی جس میں بتایا گیا کہ حکومت ِ ہند کس طرح ایف اے ٹی ایف کے معیارات کی خلاف ورزی کررہی ہے اور اس کے بنائے ہوئے چند قوانین مثلاً غیر ملکی عطیات کا قانون ایف سی آر اے، منی لانڈرنگ مخالف قانون پی ایم ایل اے اور ان کے ساتھ ہی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون یواے پی اے کو سول سوسائٹی کی آواز دبانے یا اُن لوگوں کو خاموش کرنے کا ہتھیار بنالیا ہے جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اُٹھانے کی جرأت کرتے ہیں ۔ واضح رہنا چاہئے کہ ایف اے ٹی ایف ایسا ادارہ ہے جو اپنے رُکن ملکوں کے درمیان موازنہ کرتا ہے کہ کس ملک نے طے شدہ ضابطوں اور معیارات کی کتنی پاسداری کی ہے۔ اس کی رپورٹ بھی ایک قسم کی موازنہ جاتی رپورٹ ہوتی ہے جو ’’میوچوئل ایوالیوشن رپورٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ ادارہ اُن ملکوں کو جو طے شدہ معیارات کی پاسداری نہیں کرتے، مزید نگرانی میں رکھتا ہے۔ ایسے ممالک جس زمرہ میں آتے ہیں وہ ’’ہائی رِسک جورِسڈکشن‘‘ کہلاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان اور ترکی جیسے ملکوں کو اس میں شامل کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
کافی تاخیر کے بعد ہندوستان کا میوچوئل ایوالیوشن نومبر ۲۳ء میں شروع ہوا اور جون ۲۴ء میں ختم ہوا۔ اختتام پر ایف اے ٹی ایف نے ایک خلاصہ شائع کیا جس میں اِس ادارہ نے ہندوستان کی یہ کہتے ہپوئے تعریف کی کہ اس کا ٹیکنیکل کمپلائنس کافی اعلیٰ معیاری ہے۔یہ وہی بات ہے جسے ہم نے مضمون کے ابتدائی حصے میں پہلی شہ سرخی کے حوالے سے بتایا۔ لیکن،اس کے ساتھ ہی ادارہ نے یہ بھی کہا کہ ملک (ہندوستان) کو غیر منافع جاتی شعبے (غیر سرکاری تنظیموں ) کا قافیہ تنگ کرنے سے باز آجانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف کی سفارش نمبر ۸؍ کا حوالہ دیا گیا۔ اس کا کیا مراد ہے؟ سفارش نمبر ۸؍ میں درج ہے کہ رکن ممالک کو صرف اُن غیر منافع جاتی (این پی اوز) کوٹارگیٹ کرنا چاہئے جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کی فنڈنگ کے معاملے میں ایسے ہوں کہ آلہ کار بن سکتے ہوں ۔ ہماری حکومت نے اس سفارش کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسے قوانین بنالئے جن کے ذریعہ سول سوسائٹی آرگنائزیشنوں کے خلاف کارروائی کرنا آسان ہوگیا۔ اس وجہ سے تنظیمیں وہ خدمات بھی انجام نہیں دے پارہی ہیں جو سو فیصد قانون کے دائرہ میں ہیں ۔
ہماری وزارت مالیات نے مذکورہ نشاندہی سے چشم پوشی کی اور درج بالا پہلے نکتے کی بنیاد پر اپنی پیٹھ تھپتھپائی کہ ایف اے ٹی ایف نے اسے عمدہ درجہ سے نوازا ہے۔ اَب تین سال بعد پھر ہمارا جائزہ لیا جائیگا اس لئے حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ قانونی دائرہ میں رہ کر کام کرنے والے غیر منافع جاتی شعبہ کو ہلکان کرنے کا سلسلہ موقوف ہو، تاکہ اچھا کام کرنے والی تنظیمیں سکون کا سانس لیں ۔