• Thu, 12 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شام کی بشار الاسد حکومت کا عبرتناک انجام

Updated: December 11, 2024, 1:46 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

۲۰۱۱ء میں بہار عرب کی آمد کے بعد جب مصر اور تیونس میں آمر حکمرانوں کا تختہ پلٹا جا چکا تو شام میں بھی اُمید جاگی۔ ایک دن درعہ شہر کے ایک اسکول کی دیوار پر چند بچوں نے شرارتاً یہ فقرہ لکھ دیا ’’ اب تمہاری باری ہے!‘‘ کاش بشار الاسد نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہوتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جس برق رفتاری سے شام میں  بشارالاسد کی حکومت منہ کے بل گر پڑی اس سے ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے آگئی کہ خواہ ڈکٹیٹرشپ کتنی ہی مضبوط اور لافانی کیوں  نہ نظر آتی ہو، وہ بنیادی طور پر کھوکھلی ہوتی ہے۔ تیرہ برسوں  تک جبر اور استبداد کے ذریعے حکومت مخالف طاقتوں  کی شورشوں  کو ناکام بنادینے والی شامی حکومت محض تیرہ دنوں  میں  تاش کے پتوں  کی طرح بکھر جائے گی یہ کسی کے وہم و گمان میں  نہیں  تھا۔
  یہ صحیح ہے کہ بشارالاسد کے خلاف پہلے عوامی مظاہرے اور بعد میں  بغاوت ۲۰۱۱ء میں  ہی شروع ہوگئی تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ شام میں  آہنی ہاتھوں  سے بغاوت کو کچلنے کی حکومت کی کوششوں  کی وجہ سے جلد ہی خانہ جنگی بھی پھیل گئی تھی۔ اس میں  بھی کوئی دورائے نہیں  ہے کہ اپوزیشن فورسیز نے ملک کے کئی علاقوں  کو اپنے تسلط میں  لے لیا تھا۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گاکہ ایران، روس اور حزب اللہ کی عسکری اور تزویراتی مدد سے بشار نے باغیوں  کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ ۲۰۲۰ء سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے حکومتی فوج خانہ جنگی میں  فتح یاب ہوگئی ہے اور چند حصوں  کو چھوڑ کر سارے ملک میں  پھر اسد کی گرفت بحال ہوگئی ہے۔ بشار ایک عرصے تک سفارتی تنہائی جھیلنے کے بعد ایک بار پھر اقوام عالم میں  اپنا کھویا ہوا مقام واپس پا رہے تھے۔ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں  شام کی حکومت کے ساتھ رشتے اور رابطے دوبارہ استوار کرنے لگی تھیں ۔ پچھلے سال دس برسوں  کے بعد جدہ میں  عرب لیگ کے اجلاس میں  انہیں  مدعو کیا گیا تھا۔ پندرہ دنوں  قبل تک بشار کی حکومت مکمل طور پر محفوظ نظر آرہی تھی اسی لئے ۳۰؍ نومبر کے دن جب ہیئت التحریر الشام کے پرچم تلے باغی جنگجوؤں  نے ملک کے بڑے شہر حلب پر آسانی سے قبضہ کرلیا تو دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ پھر تو ایک کے بعد ایک شہر مثلاً حماۃ، حمص اور ادلیب وغیرہ باغیوں  کے سامنے سرنگوں  ہوتے رہے اور اتوار کے دن تاریخی راجدھانی دمشق بھی حکومت کے ہاتھ سے نکل گئی۔
  بشار کی فوج نے لڑنے سے انکار کردیا اور تیزی سے آگے بڑھتے جنگجوؤں  کے سامنے ہتھیار ڈالنے میں  ہی عافیت سمجھی۔ بشار کو اپنی فوج سے زیادہ بھروسہ حزب اللہ، ایرانی ملیشیا اور روسی فضائیہ پر تھا۔ بیرونی ملیشیا نے جب دیکھا کہ خود شامی فوج پسپا ہورہی ہے تو اس نے بھی محاذآرائی سے منہ موڑ لیا۔ بشار حکومت کے زوال کے اسباب سمجھنے کیلئے اس کے ٹائمنگ پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس وقت اسرائیل نے لبنان میں  حزب اللہ کے اور غزہ میں  حماس کے صف اول کے لیڈروں  اور کمانڈروں  کو ہلاک کرکے نہ صرف ان تنظیموں  کا بلکہ ایران کا بھی حوصلہ پست کردیا ہے۔ حزب اللہ نے لبنان میں  کڑوے گھونٹ پی کر اسرائیل کی شرائط پر جنگ بندی تسلیم کی ہے۔ روس یوکرین کی جنگ کی دلدل میں  بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ شام کے محاذ میں  اب اس کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ ایران، بشارکی فوجی مدد کرکے اسرائیل کو حملہ کرنے کا کوئی جواز فراہم نہیں  کرنا چاہتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پوتن کے ساتھ یہ ڈیل کرلی ہو کہ وہ اگر شام سے لاتعلق ہوجائے تو اسے یوکرین محاذ پر رعایت دی جاسکتی ہے۔ سابق بھارتی سفارتکار تلمیذ احمد نے تو یہاں  تک دعویٰ کیا ہے کہ بشار حکومت کی ڈرامائی معزولی کسی ’’گہری بین الاقوامی سازش‘‘ کا نتیجہ ہے جس میں  اسرائیل، ترکی اور امریکہ شامل ہیں ۔
  شام کے باغیوں  کی مدد کرنے والی سب سے اہم بیرونی طاقت ترکی ہے۔ شام کے شمال مغربی علاقے جو باغی تنظیموں  کا گڑھ ہیں ، ترکی کی سرحد کے قریب ہیں ۔ ۲۰۱۱ء میں  بشار کے خلاف جب علم بغاوت بلند کیا گیا تھا تو رجب اردگان نے کھل کر اس کی حمایت کی تھی۔ انہوں  نے وقتاً فوقتاً ان تمام اسلامی عسکریت پسند گروہوں  کی مدد کی جو شام کی طویل خانہ جنگی میں  سرگرم رہے ہیں ۔ سیریا کی طویل خانہ جنگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ترکی ہی ہے۔ بارہ تیرہ برسوں  کے دوران بے سروسامان شامی باشندے لبنان، اردن، عراق، مصر اور ترکی میں  جائے پناہ ڈھونڈتے رہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے بڑی تعداد یعنی ۳۳؍ لاکھ مہاجرین نے ترکی میں  ہی پناہ لے رکھی ہے۔ یہ مہاجرین اس وقت تک وطن لوٹنے کی پوزیشن میں  نہیں  تھے جب تک وہاں  علوی خاندان کی حکومت قائم تھی۔ اب بشار کے زوال کے بعد رجب اردگان کو امید ہے کہ ترکی کی معیشت کوشامی مہاجروں  کے اضافی بوجھ سے نجات مل پائے گی۔ 
 بیرونی سازش کی تھیوری قابل قبول ہے تاہم بشار کے قابل اعتماد روسی اور ایرانی عسکری اتحادیوں  کا یوں  نظریں  پھیر لینا حیرت انگیز ہے۔ حکومتی افواج کا ملک کے سربراہ کو تنہا چھوڑ دینا ناقابل وضاحت نہیں  ہے۔ تیرہ برسوں  کی طویل محاذ آرائی سے فوج کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے۔ فوج کی ایک بڑی تعداد بہت عرصے قبل منحرف ہوکر باغیوں  سے جا ملی تھی۔ فوج نے تو محض میدان چھوڑا، ملک کے صدر تو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔

یہ بھی پڑھئے: بیساکھی الٹ پھیر ہورہی ہے او ربھی ہوگی

 ۲۰۱۱ء میں  بہار عرب کی آمد کے بعد جب مصر اور تیونس میں  آمر حکمرانوں  کا تختہ پلٹا جا چکا تو شام میں  بھی یہ امید جاگی کہ بہار کا جھونکا آئے گا۔ ایک دن درعہ شہر کے ایک اسکول کی دیوار پر چند بچوں  نے شرارتاً یہ فقرہ لکھ دیا ’’ اب تمہاری باری ہے۔‘‘ اسکولی بچوں  کو کیا پتہ تھا کہ ان کی طفلانہ شرارت ایک انقلاب کو جنم دینے والی ہے۔ کاش بشار نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہوتا تو ان کا ملک اتنی تباہی اور ہلاکتوں  سے بچ جاتا اور انہیں  یوں  منہ چھپا کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ فرار ہونا نہیں  پڑتا۔
پس نوشت: بشار نے ۲۴؍ برسوں  تک اور ان کے والد حافظ اسد نے تقریباً ۳۰؍ سال تک شام پر حکومت کی۔ علوی خاندان کے پچاس سالہ دورِ اقتدار میں  خواہ اور جو بھی عیب ہوں  ، یہ پوری طرح سیکولر تھا۔ یہ کیسی دلخراش ستم ظریفی ہے کہ بشار جیسے سیکولر حکمراں  کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے امریکہ کو اسلامی جہادیوں  سے ہاتھ ملانے میں  بھی کوئی تامل نہیں  ہوا۔ ہیئت التحریر الشام نام کے جس عسکری گروہ نے بشار کا تختہ پلٹ دیا اس کی جڑیں  النصرہ سے ملتی ہیں  جو القاعدہ کی مقامی یونٹ ہے۔ بشار کی معزولی پر جوبائیڈن اور ٹرمپ دونوں  جشن منارہے ہیں ۔ وہ شاید یہ اہم نکتہ فراموش کر بیٹھے ہیں  کہ ہیئت کے سربراہ ابومحمد جولانی جو شام کے نئے سیاسی نظام میں  کلیدی کردار نبھائیں  گے، کو امریکہ نے چند سال قبل دہشت گرد قرار دے ان کے سرپر ۱۰؍ملین ڈالر کا انعام مقرر کردیا تھا۔ عالمی طاقتیں  اپنے مفاد کے حصول کی خاطر جن عسکری گروہوں  کو استعمال کرتی ہیں ، مطلب نکل جانے کے بعد انہی پر دہشت گرد کا لیبل چپکا دیتی ہیں ۔

syria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK