دس برس گزر گئے، حکمراں جماعت نے مجوزہ قوانین یا ترامیم پر بحث و مباحثہ کی روایت ختم کردی جبکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اب اپوزیشن کمزور نہیں اس لئے یہ روایت بحال کرنی ہوگی۔
EPAPER
Updated: October 06, 2024, 3:07 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
دس برس گزر گئے، حکمراں جماعت نے مجوزہ قوانین یا ترامیم پر بحث و مباحثہ کی روایت ختم کردی جبکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اب اپوزیشن کمزور نہیں اس لئے یہ روایت بحال کرنی ہوگی۔
وزیر اعظم کے مداح ، جن کی تعداد کم نہیں ، محسوس کرنے لگے ہیں کہ اُن کے اقتدار کے تیسرے دور میں رغبت اور جاذبیت والی کوئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ فروری میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ بی جے پی کی تیسری میعاد ایسے اہم فیصلوں سے معمور ہوگی جو آنے والے ایک ہزار پر اثر انداز ہوں گے۔ لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ اُن کی حکومت کے فیصلوں کے خوشگوار اثرات۴؍ جون کے بعد ۱۲۵؍ دن میں نظر آنے لگیں گے، اولین ۱۰۰؍ دنوں میں کیا کیا کرنا ہے یہ طے کیا جاچکا ہے جس کے بعد ۲۵؍ دن میں ان فیصلوں کے اثرات دکھائی دینگے مگر اب جبکہ آئندہ روز یعنی ۷؍ اکتوبر کو اُن کی تیسری میعاد کے ۱۲۵؍ دن مکمل ہونگے، کہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے اور ’’کچھ نہیں ہورہا ہے‘‘ کا احساس ہر خاص و عام میں موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب یہ حکومت اقلیت میں ہے اور بی جے پی پارلیمنٹ میں وہ سب کچھ نہیں کرسکتی جو اُس نے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۲۴ء کے درمیان کیا۔
ہم نے وقف بل کو دیکھا کہ کس طرح اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ پچھلی دہائی میں (اولین دو میعادوں میں ) اپوزیشن کمزور تھا، حکومت نے کسی بھی بل کی جانچ کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اسے کسی کمیٹی کے سپرد نہیں کیا۔قانون کے مسودوں کو یہ جانے بغیر کہ اُن کے مندرجات کیا ہیں ، پاس کروا لینا مودی حکومت کی پہلی دہائی کا غالب رجحان تھا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۹ء (۱۴؍ ویں لوک سبھا) میں ۶۰؍ فیصد بل، اس کے بعد ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان ۷۱؍ فیصد بل جانچ کیلئے مختلف کمیٹیوں کے سپرد کئے گئے تھے۔ مودی حکومت کے اولین پانچ سال میں صرف ۲۵؍ فیصد بل کسی کمیٹی کے حوالے کئے گئے۔
مسودہ ہائے قانون کے ساتھ یہ طرز عمل اپوزیشن کو کھلتا تھا چنانچہ کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، تیلگو دیشم پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے حکومت کو لکھا اور اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ تمام مسودے کسی جانچ کے بغیر نہایت عجلت میں منظور کروائے جارہے ہیں ۔ اپوزیشن کے مکتوبات میں توجہ دلائی گئی کہ کسی بھی مجوزہ قانون پر قانون سازوں کی رائے طلب کی جاتی ہے اور اُن کے مشوروں سے بل میں مناسب ترمیمات کی جاتی ہیں یہ ہماری پارلیمانی جمہوریت کی روایت ہے مگر مودی حکومت نے اس اعتراض کا کچھ نوٹس نہیں لیا اور بغیر جانچ کے آگے بڑھ جانے کا یہ طریقہ اس حد تک پہنچا کہ ۲۰۲۰ء میں کوئی ایک بل بھی جانچ کیلئے کسی کمیٹی کے سپرد نہیں کیا گیا۔ اس سال مارچ اور اگست کے درمیان حکومت نے ۱۱؍ آرڈیننس جاری کئے جن میں انکم ٹیکس ایکٹ کی ترمیم کا آرڈیننس بھی شامل تھا۔ترمیم یہ تھی کہ پی ایم کیئر فنڈ میں دیئے جانے والے عطیات انکم ٹیکس سے ۱۰۰؍ فیصد مستثنیٰ ہونگے۔ آرڈیننس تب ہی جاری کیا جاتا ہے جب پارلیمانی اجلاس جاری نہ ہو اور حکومت کو کوئی فوری قدم اُٹھانا ہو۔ مگر، اس کیلئے بھی یہ شرط تھی کہ جب تک پارلیمنٹ کی منظوری نہ مل جائے کوئی آرڈیننس چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک نافذ العمل نہیں رہ سکتامگر مودی حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کسی جانچ یا منظوری کے بغیر نافذ العمل رہے۔ جن معاملات میں کمیٹیاں تھیں ، حکومت نے اُنہیں کام نہیں کرنے دیا۔ حکمراں جماعت کے اراکین پارلیمان نے اُن سوالات پر بچنے کیلئے جو حکومت کیلئے دشواری پیدا کرسکتے تھے، رول بُک کا سہارا لیا۔ حد تو یہ تھی کہ اُمور داخلہ کی کمیٹی کشمیر سے متعلق کئے گئے فیصلے پر تب بحث کیلئے بیٹھی جب ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاچکا تھا۔ کورونا کی وباء کے بعد پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی آن لائن میٹنگیں بھی نہیں ہوئیں اور اس کیلئے جواز پیش کیا گیا کہ اس کی وجہ سے رازداری متاثر ہوسکتی ہے۔
اپوزیشن کے اراکین پارلیمان ان سب باتوں پر اعتراض کرتے رہے مگر حکمراں جماعت نے تین ھلاق اور آر ٹی آئی کا قانون اس حال میں پاس کروا لیا کہ اپوزیشن نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا تھا۔ ایسے ہی عالم میں یو اے پی اے کی وہ ترمیم بھی منظور کروا لی گئی جس کے تحت حکومت کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔ اور بھی کئی بل جانچ اور مباحثہ کے بغیر منظور کئے گئے چنانچہ پی آر ایس لیجسلیٹیو ریسرچ کے چاکشو رائے نے لکھا کہ قانون سازی سے متعلق جانچ سے احتراز کس طرح ایک بڑا مسئلہ ہے:
یہ بھی پڑھئے: کچھ خبر ہے کہ لُٹی جاتی ہے ہستی اپنی
’’مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام بل یا قانون یکساں پارلیمانی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے، چند ایک پر پارلیمانی کمیٹیوں میں تفصیل سے بحث ہوتی ہے جبکہ دیگر پر تھوڑی بہت بحث ایوان میں ہوتی ہے اور اُنہیں منظور کرلیا جاتا ہے۔ جب حکمراں طبقہ اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے ہوتا ہے تو کئی ایسے قوانین بھی سرعت کے ساتھ منظور ہوجاتے ہیں جو دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں لیکن جب اتفاق رائے نہیں ہوتا تب پارلیمنٹ میں کافی ہنگامہ دیکھنے کو ملتا ہے جیسا کہ زرعی قانوین پر ہوا تھا۔ جب حکومت کسی بل کو بہ عجلت تمام منظور کرواناچاہتی ہے تب آئینی ترمیم کے بلوں کو ب بھی دو یا تین دن لگ جاتے ہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب پارلیمانی کمیٹیاں بل کی ٹھیک طریقے سے جانچ نہیں کرتیں تب اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ ملک کو ناپختہ، ناقص اور نامکمل قوانین کا سامنا کرنا پڑے۔ بحث و مباحثہ اور مشورہ نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ یہ آئین کی روح کے مطابق ہے۔‘‘
مودی حکومت نے صلاح مشورہ کی روایت کو بالائے طاق رکھ دیا۔ ایسا تو انگریزوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ مثالیں موجود ہیں کہ جب اراکین نے کسی بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت نے اسے تسلیم کیا۔ خیر، یہ پرانی بات ہے۔ نیا یہ ہے کہ اپوزیشن اب اتنا کمزور نہیں ہے اور زیادہ امکان یہ ہے کہ حکومت کو سب کو اعتماد میں لینے کی روایت کو بحال کرنا پڑے گا۔ اگر مودی اور ان کی کابینہ نے اس روایت کی پاسداری کی تو ٹھیک ہے ورنہ اُن کی جانب سے جو بے رغبتی خود اُن کے مداحوں میں پیدا ہورہی ہے وہ بڑھتی ہی جائیگی، کم ہونے کا نام نہیں لے گی۔