بی جے پی نے ایک بار پھر راہل گاندھی کو امریکہ میں کی گئی ان کی تقریر کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جو ہمیشہ اِس پارٹی کی شدید تنقیدوں کی زد پر رہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 07, 2024, 1:43 PM IST | ram puniyani | Mumbai
بی جے پی نے ایک بار پھر راہل گاندھی کو امریکہ میں کی گئی ان کی تقریر کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جو ہمیشہ اِس پارٹی کی شدید تنقیدوں کی زد پر رہتے ہیں۔
اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں راہل گاندھی نے کئی مقامات پر سامعین سے بات چیت کی۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں انہوں نے حاضرین میں بیٹھے ایک سکھ سے اس کا نام دریافت کیا۔ وہ ہندوستان میں ۲؍ مخالف سیاسی نظریات پر گفتگوکر رہے تھے اور یہ بتانا چاہ رہےتھے کہ ہندوستان میں تنگ نظری پر مبنی سیاست مضبوط اور جارح ہوتی جارہی ہے۔مذکورہ شخص سے اس کا نام پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ’’لڑائی اس بات پر ہے کہ ایک سکھ کی حیثیت سے انہیں پگڑی باندھنے کی اجازت ہوگی یا نہیں ، یہ کڑا پہن سکیں گے یا نہیں ، یا یہ کہ بحیثیت سکھ یہ گردوارہ جا سکیں گے یا نہیں ؟ لڑائی اسی بات کی ہے اور صرف ان کی نہیں ہے بلکہ تمام مذہبی اقلیتوں کیلئے ہے۔‘‘ یہ صاف ہے کہ سکھوں کی مثال محض اتفاق تھی، وہ ہندوستان میں اقلیتوں کو ڈرانے اورخوفزدہ کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ بی جےپی سے تعلق رکھنےوالے کچھ سکھ اور دیگر لیڈر ہمیشہ کی طرح راہل گاندھی کے اس بیان کو لے اُڑے ۔ انہوں نے ان پر ملک دشمن کا لیبل چسپاں کیا اور مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام عائد کردیا۔ ان تنقیدوں میں جان بوجھ کر شہریوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق اور سماج کے مختلف طبقات کےطرز عمل کواندازہ کیا گیا۔ بی جے پی نے اس موقع کو ایک بار پھر راہل گاندھی کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جو ہمیشہ اِس پارٹی کی شدید تنقیدوں کی زد پر رہتے ہیں ۔
راہل گاندھی نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ وضاحت پیش کی اور اپنے نظریۂ ہندوستان کو بیان کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ہمیشہ کی طرح بی جےپی جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ وہ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سچ کا سامنا نہیں کر سکتے لیکن میں ہمیشہ اُن اقدار کے حق میں بات کرتا رہوں گا جن کاتعلق نظریہ ہندوستان سے ہے۔ یہ ہیں کثرت میں وحدت، مساوات اور باہمی محبت۔‘‘
راہل گاندھی جو کہنا چاہ رہے تھے،اسے سمجھے بغیر کابینی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے انڈین ایکسپریس میں مضمون لکھ ڈالا کہ ہندوستان میں سکھ صرف ایک بار بحرانی کیفیت کا شکار ہوئے اور وہ ۸۰ء کی دہائی تھی۔ ان کا اشارہ ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کی طرف تھا۔ انہوں نے راہل گاندھی کا موازنہ محمد علی جناح سے کردیا جو ملک کی تقسیم کے درپے تھے۔ انہوں نے یہ نہیں مانا کہ وہ بی جے پی حکومت تھی جس نے کسان مخالف قوانین کو واپس لینے سے قبل مہینوں اُن کسانوں کے مطالبات کو پوری طرح نظر انداز کیا۔ اس احتجاج میں بہت سے سکھ تھے اوران پر خالصتانی ہونے کا الزام بھی عائد کردیا۔ جہاں تک۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فساد کا معاملہ ہے تو اس کے مجرموں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس لیڈر منموہن سنگھ نےجو ایک دہائی تک ملک کے وزیر اعظم رہے، سکھ مخالف فسادات کیلئے معافی مانگی اور امید کی جاتی ہے کہ اس کے مجرمین کو جلد از جلدقانون کے مطابق سزا ملے گی۔
اس بات پر کبھی توجہ نہیں دی گئی کہ جب سکھوں کو نشانہ بنایا جارہاتھا تو بی جےپی اور آر ایس ایس کبھی ان کے دفاع میں یا ان کوبچانے کیلئے آگے نہیں آئے۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں فرقہ پرستی کے عروج پر تحقیق کرنےوالے معروف محقق شمس الاسلام نشاندہی کرتے ہیں کہ سکھوں کے اس ہولناک قتل عام میں آر ایس ایس بھی شامل رہا۔ ان کے مطابق’’اس مجرمانہ ملی بھگت کا کلیدی ثبوت آر ایس ایس کے سرکردہ نظریہ ساز نانا جی دیشمکھ کے ذریعے ۸؍ نومبر۱۹۸۴ء کو’ ضمیر کی تلاش کا وقت ‘(مومنٹس آف سول سرچنگ) کے عنوان سےجاری کیا جانے والا وہ دستاویز ہے ( جسے بعد میں جارج فرنانڈیز نے اپنے ہندی رسالہ ’’ پرتی پکش‘‘ میں بھی شائع کیاتھا۔) اس سے اُن بے قصور سکھوں کےقتل عام اور آبروریزی کےبہت سے مجرموں کے چہروں سے نقاب ہٹانے میں مدد مل سکتی ہے جن کا اندرا گاندھی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ سکھوں کو منظم طریقے سے قتل کرنے کیلئے رضاکار کہاں سے آئے تھے۔ اس دستاویز میں نانا جی دیشمکھ ۱۹۸۴ء کے سکھوں کے قتل عام کا جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔‘‘
آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے سدرشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’سکھ ازم دراصل ہندو مذہب کا ہی ایک فرقہ ہے اور خالصہ کا قیام اسلام سے ہندوؤں کوبچانے کیلئے ہواتھا۔۲۰۱۹ء میں موہن بھاگوت کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان ایک ہندو قوم ہے۔ ان دونوں بیانات کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ یہ بیانات آر ایس ایس کی ذہنیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سکھ ازم محض ایک فرقہ نہیں ہے بلکہ مکمل مذہب ہے، جسے گرو نانک دیو نے قائم کیا تھا۔ انہوں نے صاف کہاتھا کہ ’’ نہ ہم ہندو ، نہ ہم مسلمان۔‘‘
پنجاب ٹربیون اور نوا زمانہ جیسے بڑے پنجابی اخباروں نے اپنے اداریوں میں بھاگوت کے بیان پرسخت تنقید کی۔ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی ( ایس جی پی سی) اور شرومنی اکالی دل جو این ڈی اے کا حصہ اوربی جے پی کی حلیف رہی ہے، اس نے بھی بھاگوت کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: مجوزہ قوانین پر بحث کی روایت کو بحال کرنا ہوگا
سکھ مذہب کے ہندودھرم کا حصہ ہونے کے دعوے کی تردید کانھ سنگھ نابھہ کی کتاب ’’ہم ہندو نہیں ‘‘ میں کی گئی ہے۔اگر ہم سکھوں کی روایات پر توجہ دیں تو ہمیں ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور میل جول کا پہلو نظر آتا ہے۔ گولڈن ٹیمپل کی بنیاد میاں میر نے رکھی۔ سکھ مذہب بابا فرید اور دیگر صوفی سنتوں کے ساتھ ساتھ کبیر اور روی داس کا بھی احترام ملتاہے ۔سکھوں کی مذہبی کتاب ’’گروگرنتھ صاحب‘‘ میں صرف سکھ گروؤں کی تحریریں نہیں ہیں بلکہ مسلم صوفیوں اور ہندو سَنتوں کی تحریریں بھی ہیں ۔ اس کا بنیادی خیال اور ہدف انتہاپسندوں کی جانب سےعائد صنفی اور ذات پات کی عدم مساوات کو دور کرنا ہے۔برصغیر میں پیدا ہونے والے مذاہب، بدھ مت، جین اور سکھ سبھی انسانوں کے درمیان برابری کی وکالت کرتے ہیں ۔ بہت سے سکھ رہنما صرف اقتدار کی خاطر بی جے پی میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، سکھ مت کی انسانی اقدار اور برہمنی عقائد کے درمیان تضاد پر توجہ دیئے بغیر۔ جیسا کہ امبیڈکر نے کہا کہ برہمن ازم ہندوتوا کا سب سے اہم حصہ ہے۔ یہی سبب تھا کہ انہوں نےہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مذہب قبول کیا۔سکھ مت ہندوستانی تاریخ کےمسلم دور میں پروان چڑھا۔ کئی سکھ تنظیموں کے سخت ردعمل کے بعد اب آر ایس ایس نے سکھ مذہب کو ایک آزاد مذہب کے طور پر قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ راہل گاندھی کا بیان قطعاً تفرقہ انگیز نہیں ہے اور ہندوستانی آئین کی اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔