جن فوجی افسروں نے ماضی میں امریکہ کی وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تھا، وہ آج خوداپنی سر زمین پر دہشت گردانہ وارداتیں سر انجام دے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 08, 2025, 1:39 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
جن فوجی افسروں نے ماضی میں امریکہ کی وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تھا، وہ آج خوداپنی سر زمین پر دہشت گردانہ وارداتیں سر انجام دے رہے ہیں۔
نئے سال کا سورج طلوع ہوتے ہی امریکہ کی سرزمین دہشت گردی کے دو واقعات سے دہل کررہ گئی۔ پہلا واقعہ نیو اورلیئنر میں ہوا اور دوسرا لاس ویگاس میں ۔ دونوں واقعات میں کئی مشابہتیں ہیں ۔ دونوں جگہ قتل و غارتگری کے لئے بندوق، گولے بارود یا کسی اور اسلحہ کے بجائے تخریب کار وں نے کرائے کی گاڑیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ دونوں نے ایک ہی آن لائن سروس سے گاڑی کرائے پر حاصل کی۔ دونوں حملہ آور تارکین وطن نہیں بلکہ پیدائشی امریکی شہری تھے۔ دونوں حملےLone Wolf حملے تھے۔ دونوں دہشت گردوں میں ایک اور اہم بات مشترک تھی: دونوں کا تعلق امریکی ملٹری سے تھا اوردونوں نارتھ کیرولینا کے فورٹ بریگ نامی ملٹری اڈے میں تعینات رہے تھے جو ملک کے سب سے بڑے فوجی اڈوں میں سے ایک ہے۔
چونکہ نیو اورلیئنز کی واردات میں ملوث مجرم کا نام شمس الدین جبار تھا اس لئے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چند متعصب میڈیا نے دونوں حملوں کا سلسلہ اسلامی انتہا پسندی اور جو بائیڈن کی کھلی سرحدوں والی امیگریشن پالیسی سے جوڑنے میں دیر نہیں کی۔ ٹرمپ کو اپنے مخصوص نفرت انگیز ایجنڈہ کو فروغ دینے اور بائیڈن پر نشانہ لگانے کا موقع ہاتھ آگیا اور انہوں نے دعویٰ کردیا کہ جبار حال میں امریکہ میں وارد ہوا مہاجر تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جبار ٹیکساس میں جنما اور پلا بڑھاایک محب وطن امریکی شہری تھا۔
متعصب میڈیا اور ٹرمپ کے ردعمل کے برعکس حقیقت پسند امریکی صحافیوں اور دہشت گردی کے ماہرین نے اس اہم نکتے کی نشاندہی کردی کہ اگر کسی ایک ادارے کو دہشت گردی کی سب سے بڑی جائے پیدائش کہا جاسکتا ہے تو وہ امریکی آرمی ہے۔ نیو اورلیئنز میں اپنے ٹرک سے چودہ لوگوں کو روندکر ہلاک کردینے والاجبار ایک سابق فوجی افسر تھا جس نے پندرہ سال تک فوج کے مختلف شعبوں میں کام کیا تھا۔ لاس ویگاس میں ٹیسلا ٹرک میں دھماکہ کرنے اور بعد میں خود کو گولی مارکر ہلاک کرنے والا میتھیو لیولسبرگر امریکی اسپیشل فورسز میں خدمات انجام دے رہا تھا اور جبار کی طرح وہ بھی افغانستان میں تعینات رہ چکا تھا۔
سال نو کے موقع پر امریکہ میں ہوئی تشدد کی دونوں وارداتیں فوج کے موجودہ اور سابق عہدے داروں کے ذریعہ اجتماعی قتل و غارت گری کے ارتکاب کے بڑھتے واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ ایک سال قبل ایسوسی ایٹیڈپریس نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا کہ حاضر سروس اور سابقہ ملٹری افسروں میں انتہاپسندی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ٹرمپ کا آناکسی کیلئے اچھا کسی کیلئے برا
اس موضوع پر میری لینڈ یونیورسٹی میں Study of Terrorism and Responses to Terrorism, (START ) کی ریسرچ کی گئی۔ اس ریسرچ کے مطابق ۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۰ء تک ہر سال اوسطاً سات فوجی اہلکار انتہاپسندانہ تشدد اور قتل و غارت گری کا ارتکاب کرتے تھے۔ ۲۰۱۱ء سے ان کی تعداد بڑھ کر ۴۵؍ ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۰ء سے ۲۰۲۳ء تک ۷۳۰؍ لوگوں نے جن کا تعلق امریکی ملٹری سے تھا اجتماعی ہلاکتوں والے جرائم کا ارتکاب کیا۔ ان لوگوں کو ان جرائم کی ترغیب اپنے سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی اور ذاتی مسائل سے ملی تھی۔ان وارداتوں میں تین سو سے زیادہ نہتے اور بے گناہ شہری مارے گئے اور تقریباً دو ہزار زخمی ہوگئے۔امریکی فوجی اہلکاروں کے ذریعہ عام شہریوں کے قتل کی وارداتیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تیس سال قبل اوکلاہاما سٹی میں واقع فیڈرل بلڈنگ میں ہوئے دہشت گردانہ بم دھماکے میں ۱۶۸؍ لوگ مارے گئے تھے اور پانچ سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ۲۰۰۱ء کے ورلڈ ٹریڈ سینٹرحملوں کو اگر الگ رکھیں تواوکلاہاما سٹی بمباری امریکہ کی تاریخ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات کہی جاسکتی ہے۔اپریل ۱۹۹۵ء میں ہوئی اس واردات کی ذمہ داری فوراً عرب دہشت گردوں پر ڈال دی گئی تھی لیکن جب تحقیقات میں اس بھیانک جرم کی پرتیں کھلنے لگیں تو امریکہ سکتے میں رہ گیا۔ اس بھیانک جرم کا ارتکاب کسی بیرونی دشمن نے نہیں بلکہ ایک سفید فام امریکی شہریTimothy McVeighنے اپنے ساتھی Terry Nichols کی مدد سے کیا تھا۔ دونوں کا تعلق امریکی ملٹری سے تھا ۔ تموتھی کو سزائے موت اور نکولس کو عمر قید کی سزا دی گئی۔
STARTکی تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی فوج سے تعلق رکھنے والے قتل و غارتگری کے مجرموں کی اکثریت (۵ء۷۳؍ فیصد) کا تعلق امریکہ کے دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں اور تحریکوں سے تھااور صرف ۱۵؍ کا تعلق القاعدہ جیسی اسلامی تنظیموں سے تھا۔ اجتماعی ہلاکتوں کا ارتکاب پہلے سب سے زیادہ ذہنی مریض کیا کرتے تھے اب فوجی اہلکار کررہے ہیں ۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں ہمہ وقت ایسی جنگوں میں ملوث رہتی ہے جن کاکوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ ایسی غیر قانونی اور خیر اخلاقی جنگوں کے متعدد بھیانک نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ وہ فوجی جو بیرون ملک تشدد اور قتل کرتے تھے وہ اب اپنے ملک میں یہی سب کچھ کررہے ہیں ۔ جن فوجی اہلکاروں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ ہزاروں کلو میٹر دور کسی ملک کے نہتے شہریوں پر بم برسانا بہادری اور دیش بھکتی ہے انہیں اب لگتا ہے کہ اپنوں کا خون بہانا بھی کوئی ایسا غلط کام نہیں ہے۔ لاس ویگاس کے حملہ آور کا یہ دعویٰ کہ وہ قوم کو جگانے کی کوشش کررہا ہے کافی دلچسپ ہے۔
۲۰۰۱ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگو ن پر ہونے والے ہولناک حملوں کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی تھی۔ بش کے وار آن ٹیرر میں حصہ لیتے ہوئے امریکی ملٹری نے افغانستان اور عراق میں خون کی ندیاں بہادیں اور دونوں ممالک کو تباہ و برباد کردیا۔ آج ۲۳؍ سال بعدبھی امریکہ دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے میں ناکام ہے۔ سپر پاور ہزاروں کلو میٹر دور نہتے اور مجبور باشندوں کا قتل عام کرنے کے باوجوددہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکا۔ ستم ظریفی دیکھئے جب ’’عالمی دہشت گرد دشمنوں ‘‘ کی تلاش میں امریکی حکمرانوں کی پوری توجہ مسلم ممالک پر مبذول تھی، تب خود امریکہ کی سرزمین پر گھریلو دہشت گردی تیزی سے پھل پھول رہی تھی۔ اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جن فوجی افسروں نے ماضی میں امریکہ کی وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تھا، وہ آج خوداپنی سر زمین پر دہشت گردانہ وارداتیں سر انجام دے رہے ہیں ۔