• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شاہین بہت ہیں منزل کا پتہ نہیں

Updated: September 03, 2024, 1:44 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

یاد کیجئےنریندرمودی کے پہلے راج میں دفعہ۳۷۰ ؍ کا معاملہ تھا۔ اس وقت لوک سبھا او راجیہ سبھا میں ان کی اکثریت تھی کہ امیت شاہ نے اس معاملہ کو لو ک سبھا اور راجیہ سبھا کے دونوں ایوانوں میں منظور کروالیا تھا مگر آج اُنہیں وقف کے معاملے میں حلیف جماعتوں کی سننی پڑ رہی ہے ورنہ وہ کب کسی کی سنتے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

این ڈی اے کے وزیر اعظم کا ان دنوں  کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہمیں  اس ملک کے مودی میڈیا پر ہنسی آتی ہے، وہ غریب سب سے پہلے یا سب سے اوپر نریندر مودی کا ذکر ضرور کرتے ہیں  لیکن انہیں  نہیں  معلوم کہ وہ مودی کے بارے میں  کون سا توصیفی بیان دیں ۔ شاید اس میڈیاکو بھی یہ پتہ نہیں  کہ مودی کا نام میڈیا میں  سب سے پہلے اور سب سے اوپر رکھنے کا بھی ایک مسئلہ ہے، اگر وہ ایسا نہ کریں  تو میڈیا سے لطف اندوز رہنے والوں  کی تعداد اور بھی گھٹ جائے یعنی ایک گمبھیر مالی مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔خود مودی کاایک بہت بڑا مسئلہ ہے، ان کو خواب میں  بھی یہ امید نہیں  تھی کہ اس بارانہیں  ایسے مسائل سے گزرنا ہوگا جو ان کے اب تک کے دور اقتدار میں  کبھی سامنے نہیں  آئے تھے۔ انہیں  یہ خبر ہی نہیں  تھی کہ ان کو  ایسے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑیگا جن سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں  تھا۔ 
 پہلی مثال ایسے قوانین کی ہے جن پر جھکنا یا سرتسلیم خم کرنا ان کی شان کے خلاف تھا، ان میں  سب سے پہلے وہ مسائل ہیں  جن کا تعلق اقلیتوں  خصوصاً مسلمانوں  سے ہے۔ انہوں  نے وقف بورڈ میں  ترمیم کی کوشش کی ، یاد کیجئے  ان کے پہلے راج میں  دفعہ۳۷۰ ؍کا معاملہ تھا۔ اس وقت لوک سبھا او راجیہ سبھا میں  ان کی اکثریت تھی کہ امیت شاہ نے اس معاملہ کو لو ک سبھا اور راجیہ سبھا کے دونوں  ایوانوں  میں  منظور کروالیا تھا مگر آج اُنہیں  وقف کے معاملے میں  حلیف جماعتوں  کی سننی پڑ رہی ہے ورنہ وہ کب کسی کی سنتے تھے۔
  اس مسئلہ پر جے پی سی بنانے کا فیصلہ ان کو اپنی ہار دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے دور میں اپوزیشن اتنا کمزور تھا کہ وہ ذرا بھی تعرض نہیں  کر سکا تھا،  مودی اتنے طاقتور تھے کہ اپوزیشن بھی سمٹ گیا تھا ۔لیکن اس بار جب معاملہ سامنے آیا تو نریندر مودی اور امیت شاہ بہت بے بس سے نظر آئے ، پہلی بار کسی مسئلہ پرمسلمانوں  کا سر’ اونچا‘ ہوا۔ یہی نہیں  مسلمانوں  کیلئے ریزرویشن بھی ایسا ہی معاملہ تھا، مسلمانوں کے لئے ریزرویشن یا کہیں  ا س ریزرویشن کے لئے ایک بات کی جاتی تھی، لیکن اس کو کیا کہئے کہ تلنگانہ میں  چندرابابو نائیڈو نے روزگار میں  مسلمانوں  کو ریزرویشن دے دیا۔ نوکری میں  بھی مسلمانوں  کو کافی سہولتیں  مل گئی ہیں ۔اس بار مودی کیلئے پارلیمنٹ چلانا بہت مشکل ہو رہاہے ،وہ کوئی بات راہل گاندھی کی مدد لئے بغیر حل نہیں  کر سکتے، راہل گاندھی کی مدد لینا نریندر مودی کیلئے ایک کوفت کی مانند ہے۔
 نریندر مودی یا پھر بی جے پی کی خارجہ پالیسی کیا ہے یہ بھی ایک معمہ ہے۔ ا س و قت یہ صورت ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی پڑوسی ملک ایسا نہیں  ہے جسے ہم اپنا دوست کہہ سکیں ، چین اور پاکستان تو ہمارے دشمن ہیں  ہی، دونوں  سے ہماری جنگ بھی ہو چکی ہے لیکن اس کے علاوہ نیپال ہم سے بہت خفا ہے۔ وہاں  کی حکومت کئی بار ہم پرالزام لگا چکی ہے کہ نریندر مودی اس کی اندرونی سیاست میں  برابر دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ، حال ہی میں  یہ بھی کہا گیا کہ حکومت ہند نے وہاں  مقیم ہند نواز شہریوں  کی ایک سیاسی پارٹی بنا لی یا اس کے بننے میں  مدد کی ہے جو حکمراں  پارٹی کی مخالفت کرتے رہتے ہیں ، نیپال اور ہندوستان کی سرحدیں  ملتی ہیں ، لیکن کیا یہ عجب نہیں  ہے کہ فی الحال نیپال کے چین سے بہت اچھے تعلقات ہیں  جبکہ نیپال اور چین کی سرحدیں  ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ۔
 سری لنکا کو بھی شمار کیجئے جس سے  ہمارے تعلقات محض واجبی سےہیں ۔ میانمار تو ایک غیر جمہوری ملک ہے ، اس سے ہمارے تعلقات تو جتنا نہ ہوں  اتنا ہی اچھا ہے، پھر بھی ہمارے مقابلے میں  میانمار اور چین تو آپس میں  تجارت بھی کر رہے ہیں ۔ جن پڑوسیوں  سے ہمارے تعلقات جیسے ہونے چاہئیں  ویسے نہیں  ہیں  اُن میں  اب ایک اور اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ بنگلہ دیش ہے۔ اس پڑوسی ملک کی ’’مفرور‘‘ وزیر اعظم کے بارے میں  مودی سرکار کا   رویہ بھی عجیب ہے، اگر مودی یہ کہہ دیں  اور صاف کہہ دیں  کہ حسینہ شیخ کو ہندوستان نے سیاسی پناہ دی ہے تو یہ بھی ایک غیر سیاسی بیان ہوگا۔ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں  ہو سکتے جب تک دونوں  میں  سےکوئی ایک یا کم از کم کوئی ایک فریق ا پنی پالیسی نہ بدل لے ۔ مشکل تو ہے کہ بنگلہ دیش سے متعلق اپنی کوئی واضح پالیسی بنائی بھی ہے یا نہیں  یہ معلوم نہیں  ہوتا۔
 ایک اور معاملہ بھی نریندر مودی کے لئے درد سر کا درجہ رکھتا ہے، ہانگ کانگ پر چین کا تسلط ہوتے ہی چین نے اپنی پالیسی بدل دی تھی، چین نے اعلان کیا کہ ہانگ کانگ اپنی پرانی پالیسی پر ہی چلے گا، لیکن چین کے تجارتی معاملات ایسے ہیں  کہ اب اسے تجارت ہی پر زور دینا ہے، چنانچہ چین نے ایک کارپوریشن بنائی، اس کا مقصد  ان ممالک کو تجارتی محاذ پر ایکدوسرے کے قریب لانا تھا، ہندوستان اس کا بانی ممبرتھا، بنگلہ دیش، پاکستان ، افغانستان اور مبینہ طور پر ترکی اور کسی حد تک ایران بھی اس کے ممبران ہیں ، اس کارپوریشن کے سال میں  کئی بار اجلاس ہوتے ہیں ،اس کی ایک کانفرنس پچھلے ماہ کرغیزستان کی راجدھانی بشکیک میں  ہوئی تھی۔ مودی اس میں  شریک نہیں  ہوئے کیونکہ اسی ماہ ہندوستان میں  الیکشن جاری تھا۔ اس وقت عدم شرکت کی معقول وجہ تھی۔ اس باریہ اجلاس پاکستان میں  ہوگا مگر  واضح نہیں  ہے کہ وہ  اس میں  شریک ہوں  گے یا نہیں ۔

یہ بھی پڑھئے: آر ایس ایس انتخابی نقصانات کی تلافی کیلئے سرگرم

 ایک اورمعاملہ یہ ہے کہ کوئی ملک سرکاری طور پر ان کو دعوت نہیں  دے رہا ہے، پھر بھی وہ روس اور پولینڈ بھی گئے، روس نے تو ان کی آمد پر اسی دن یوکرین پر شدید حملہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ کئی یوکرینی فوجی شہید ہو گئے، اس کے بعد وہ پولینڈ بھی گئے وہاں بھی وہ بن بلائے مہمان تھے، ان کا ارادہ تو برطانیہ جانے کا بھی تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر مودی برطانیہ بھی گئے تو وہاں  ان کے خلاف مظاہرے ہونگے۔ اُن کاامریکہ جانا توطے ہے لیکن انہوں  نے کہا کہ ان کی بائیڈن سے بات چیت ہوئی تھی، لیکن امریکہ کےصدارتی ریلیز میں  کسی بات کا کوئی ذکر نہیں  تھا،اور ہاں اب راہل گاندھی بھی امریکہ جا رہے ہیں ۔ راہل کو تو راستوں کا بھی پتہ ہے اور منزل کا بھی مگر یہی بات وزیر اعظم مودی کے بارے میں  نہیں  کہی جاسکتی۔ البتہ اُنہیں  یہ  پتہ ہے کہ غیر ملکوں  میں  اُن کی پہلےجیسی مقبولیت نہیں  ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK