• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کئی ملکوں کیلئے شام کی بغاوت میں اہم سبق ہے!

Updated: December 17, 2024, 1:27 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

برصغیر کے اکثر لوگوں کو بشار الاسد کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ شام میں جمہوری قدروں کو ملیا میٹ کررہے تھے محض اس لئے اقتدار باقی رہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 دنیا کے نقشے پر نظر ڈالئے تو ایک عجیب تماشہ نظر آتاہے۔ اس تماشہ کا سب سے بڑا منظر تو بہرحال ملک شام ہے۔ شام ہماری دنیا کا وہ حصہ ہے جسے ہم سب بڑی جذباتیت سے عالم اسلام کا ایک اہم حصہ مانتے ہیں  مگر وہاں کے بارے میں  زیادہ نہیں  جانتے۔ سیاسی حالات سے تو یہاں  کے لوگوں  کی واقفیت بہت محدود اور مختصر رہی ہے۔ ہم لوگ صرف اتنا جانتے اور یہی جان کر خوش ہوتے تھے کہ وہاں  کے حکمراں  بشار الاسد ہیں  جو سابقہ حکمراں  حافظ الاسد کے صاحبزادے ہیں ۔ اکثر لوگوں  نے اس کے آگے جاننے کی کوشش نہیں  کی اور یہ تو کسی کے وہم و گمان میں  نہیں  تھا کہ یہ دونوں  حکمراں  عوام دوست نہیں  تھے بالخصوص بشار الاسد نے تو عوام پر ظلم و جبر کا دریا بہا دیا تھا۔ ان سے پہلے اُن کے والد حافظ الاسد نے تقریباً تیس سال شام پر حکومت کی۔ حافظ الاسد صدر بننے سے پہلے شام کی سابقہ حکومت میں  وزیردفاع ہوا کرتے تھے۔  بشارالاسد لندن میں  تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں  کے سرجن تھے۔ 
 بہرحال ۸؍ دسمبر کو اسد فیملی کا ۵۳ ؍سالہ دور اقتدارختم ہوگیا۔ شروع میں  بشار الاسد کے صدر بننے تک لوگ یہ کہتے تھے کہ وہ شام کو نئے ترقیاتی سفر پر گامزن کرینگے چنانچہ اُمید کی جارہی تھی کہ جمہوری ادارے پھلتے پھولتے اور ترقی کرتے رہیں  گے۔ بیرونی مبصرین کی توقعات کی بات نہیں ، خود شامیوں  کابھی یہی خیال تھا۔مگر بشار نے جو تاریخ مرتب کی وہ آئندہ نسلوں  کیلئے درس عبرت ہے۔ کوئی نہیں  جانتا تھا کہ اُن کے خلاف بغاوت بھی ہوسکتی ہے مگر شام کے حالیہ واقعات بہت تیزی سے نتیجہ خیز ہوتے چلے گئے اور بشار کو اپنی سرزمین پر پناہ گاہ تک نہیں  مل سکی۔ اُنہیں  جان بچا کر بھاگنا ہی پڑا۔ 
  اتفاق سے بشارالاسد کے خلاف بغاوت کرنے والوں  میں  سب سے بڑی باغی ’ کرد ‘ تھے۔کردستان کیا ہے اس سوال کے جواب سے اکثر قارئین واقف ہیں  کیونکہ عراق میں  صدام حسین کے دورِ حکومت میں  کردوں  کی بغاوت یا کردوں  کی جانب سے صدام حسین حکومت کو مسائل کا سامنا کے بارے میں  کافی پڑھا جاتا تھا۔   کرد ایران، عراق اور شام تک پھیلے ہوئے ہیں  اور ترکی میں  ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ کہنا کہ ترکوں  نے بشارالاسدکی مدد کی تھی،  غلط ہے۔ ترکی بشارالاسدکی اس لئے حمایت کرتے تھے کہ وہ ان کرد باغیوں  کو دبانے کی کوشش کررہے تھے۔  اس میں  کوئی اور الگ سیاسی پہلو نہ دیکھا جائے۔ اتفاق سے غازی صلاح الدین ایوبی بذات خود کرد تھے جنہوں  نے صلیبی جنگ میں  رومن امپائر کو بری طرح شکست دی اور  طاقتور رومن امپائر کو دھول چٹا دی تھی۔
  بشارالاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے بارے میں  یہ بھی بتادیں  کہ دونوں  عراق کی پارٹی بعث پارٹی کے ممبر تھے مگر شام میں  اس پارٹی کو شامی بعث پارٹی کہا جاتا ہے۔ بہرحال اب شام میں ۵۳؍ سال کے بعد بعث پارٹی کے اقتدار سے عوام کو نجات مل چکی  ہے۔ بشارالاسدکے فرار ہونے کے بعد ابتدائی خبروں  میں  بتایا جارہا تھا کہ ان کا جہاز لاپتہ ہوگیا ہے، لیکن پھر یہ خبرآئی اور شاید مصدقہ خبر کہ اب وہ ماسکو میں  ہیں  اور ہمارے خیال میں   یہی ان کے اور ان کے خاندان کے لئے مناسب جگہ ہے۔
  شام کے انقلاب کے بعد یہ یاد رکھنا  ضروری ہے کہ اس خطہ کے عوام خاص کر عرب عوام اب کھلونوں  سے  بہلتے نہیں  ہیں ، وہ چاہتے ہیں  کہ اقتدار میں  ان کا حصہ ہو۔  شا م کے انقلاب کے بعد عرب حکمرانوں  کو بھی سنبھل جانا چاہئے کیونکہ عرب دنیا وہ ہے جو بہار عرب سے دوچار ہوچکی ہے اور لوگو ں  کو جمہوریت کا یقین ہونے لگا ہے۔یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ اس حقیقت کا احساس عالم اسلام کے مسلمانوں  کو بھی ہونے لگا ہے۔ اب کوئی حکومت دولت یا جبر سے عوام کو اپنامحکوم نہیں  بنا سکتی۔
 سنا ہے کہ ایک عدالت نے بشارالاسدکے حکم کی وجہ سے پینتالیس لوگوں  کو پھانسی دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ ۸؍ دسمبر کو ہونے والا تھا لیکن اس سے پہلے کہ یہ لوگ تختۂ دار پر چڑھائے جاتے بشار الاسد نے خود کو بے یار و مددگار پایا، اُن کا تختہ الٹ گیا اور ساری ’’خدائی‘‘ دھری کی دھری رہ گئی۔ اُدھر بشار الاسد سے پنڈ چھوٹا اِدھر شام میں  جشن منایا جانے لگا کیونکہ تمام قیدی قید خانوں  سے رہا کردیئے گئے تھے۔ ایک حقیقت یہ بھی جان لیجئے کہ جیلوں  میں  زیادہ تر عورتیں  قید تھیں ۔ ایک مرد قیدی نے بتایا کہ وہ  انتالیس سال سے جیل میں  تھا۔ ایک اور نے بتایا کہ تیرہ سال سے اس نے دھوپ نہیں  دیکھی۔ یہ بعث پارٹی اور اسد خاندان کے جبر کا نتیجہ تھا۔

یہ بھی پڑھئے : عبادت گاہ قانون ۱۹۹۱ءجسے نظر انداز کیاگیا

 شام کے واقعات کی تفصیل سے اکثر قارئین واقف ہیں  اس لئے ہم زیادہ تفصیل میں  جانے سے گریز کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتے ہیں  کہ وہاں  جو کچھ ہوا اُس کے اثرات دیگر عرب ملکوں  پر مرتب ہوسکتے ہیں  اس لئے ہر عرب ملک کے حکمرانوں  کو متنبہ ہوجانا چاہئے۔ جیسا کہ بالائی سطور میں  کہا گیا، عرب ممالک بہارِ عرب سے گزر چکے ہیں ۔ عوام جب متحد ہوتے ہیں  تو کوئی حکومت کتنی ہی طاقتور ہو، اُس کا اختتام قریب معلوم ہوتا ہے۔ 
 شام میں  ہونے والے واقعات کے بعد پاکستان کو بھی ہوشیار ہونا پڑے گا۔ وہاں  کی موجودہ حکومت بھی جابروں  جیسی حرکتیں   کررہی ہے۔ اگر انہوں  نے یہ نہ سمجھا تو جلد یا بہ دیر ان کا انجام بھی بشارالاسدکی طرح ہوسکتا ہے۔شام کے انقلاب نے عرب دنیا میں  ایک ہلچل پیدا کی ہے اور دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ عرب سربراہ  چاہے جو کریں  لیکن عرب عوام اب جمہوری حقوق سے بہت اچھی طرح آگاہ ہورہے ہیں ۔ عالم اسلام اور عالم عرب کا جمہوری حقوق سے باخبر اور بیدار ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس مثبت تبدیلی کا خیرمقدم ہی کیا جائیگا۔ لگتا ہے کہ شام کے حاکموں  کے زوال میں  نئے دور کی بیداری کا آغازپوشیدہ ہے۔ہم اسے بہت مثبت پہلو سمجھتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ شام میں  اب یہ رجحان اور تیز ہوگا، عوام اپنے حقیقی مسائل و معاملات کے حل اور تصفیہ کیلئے جمہوری انداز اپنانے کی فکر کرینگے اور اپنے حکمرانوں  پر مثبت دباؤ ڈالیں  گے۔ یہ آثار اب نمایاں  ہیں ۔

syria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK