اُردو کی پیدائش اور اس کی ہندوستانیت پر سپریم کورٹ کا دوٹوک فیصلہ اس قابل ہے کہ اسے جتنا کوریج ملا ہے اس سے زیادہ ملتا کیونکہ مزید تفصیل اور معلومات لوگوں تک پہنچنی چاہئے اسی لئے ایک الگ زاویہ سے لکھا گیا یہ مضمون اہم ہے
EPAPER
Updated: April 21, 2025, 1:41 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai
اُردو کی پیدائش اور اس کی ہندوستانیت پر سپریم کورٹ کا دوٹوک فیصلہ اس قابل ہے کہ اسے جتنا کوریج ملا ہے اس سے زیادہ ملتا کیونکہ مزید تفصیل اور معلومات لوگوں تک پہنچنی چاہئے اسی لئے ایک الگ زاویہ سے لکھا گیا یہ مضمون اہم ہے
پچھلا ہفتہ اردو زبان کی پیدائش اور اس کی ہندستانیت کی بحث سے مخصوص تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا ہےکہ اُردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہ کسی مخصوص فرقے کی زبان نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور تاریخی فیصلہ ہے جس پر مختلف زبانوں اور تہذیبوں سے وابستہ افراد نے خوشی کا اظہار کیا۔ رویش کمار نے اُردو کے ارتقائی سفر کو ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی، ریختہ اور ریختہ کی روشنی کو جس طرح پیش کیا اس سے بھی اردو کے تعلق سے کچھ وضاحتیں سامنے آئیں ۔ ’’اردو‘‘ سے پہلے اُردو کو کن ناموں سے جانا جاتا تھا، اس کا لوگوں کو علم تو ہے مگر کھل کر اظہار خیال نہیں کیا جاتا۔ اگر کبھی اور کہیں لفظ ہندی، ہندوی اور ریختہ کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی سیاست شامل ہو جاتی ہے۔ یا یہ باور کرانے کی خاموش کوشش کی جاتی ہے کہ ہم کچھ مختلف ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ نام سے کیا ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ نام ہی سے بہت کچھ ہوتا ہے۔
۱۹۶۰ء کی دہائی میں اردو میں ایسے افسانے لکھے گئے جن میں کرداروں کے نام نہیں تھے۔ مَیں ، وہ اور تو نے کرداروں کی جگہ لے لی۔ بلراج مین را سے مَیں نے دریافت کیا تھا کہ آپ کے افسانوں میں کرداروں کے نام کیوں نہیں ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ نام سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مسائل ناموں سے کہیں زیادہ ہمارے ذہن میں ہوتے ہیں جنہیں سیاست کچھ زیادہ فعال بنا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر’’اردو‘‘ کا نام ہندی یا ہندوی ہوتا تو کیا اردو کے بارے میں وہی باتیں کہی جاتیں جو عام طور پر کہی جا رہی ہیں ؟
اس سوال کا جواب ایک سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ اگر آج کی اردو کو ہندی کے نام سے پکارا جاتا تو صورتحال کچھ مختلف ہوتی۔لفظ ’’ہندی‘‘ کہنےاور سننے کا جو روشن پہلو ہے اس کے بارے میں پہلے بھی غور کیا گیا۔ کیا معلوم تھا کہ لفظ ’’ہندی‘‘ کے نہ ہونے کی وجہ سے اردو کو ان دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ تمام اشعار جن میں شاعروں نے لفظ ’’ہندی‘‘ استعمال کیا ہے، انہیں یہاں پیش کرنا طوالت کا سبب ہوگا۔ فکری اور لسانی طور پر لفظ ’’اردو‘‘ کے ساتھ اگر ہمارا ذہن ہندوی یا ہندوستانی ہے تو یہ اردو کی بہت بڑی طاقت ہے لیکن اس طاقت کو مخصوص اشرافی مزاج سے خطرہ بھی رہا ہے۔ رفتہ رفتہ اشرافی مزاج ہی نے اردو کو بولیوں سے دور کر دیا۔ تمدنی زندگی کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ فکری اور لسانی نظام ایک خاص سطح سے نیچے نہ آئے۔ اردو کی لسانی اور تہذیبی تاریخ پر غور کرتے ہوئے اہم ترین لوگوں نے اس پہلو کو نظر انداز کیا۔ رسم خط کا مسئلہ بھی زیر بحث آ جاتا ہے۔ رسم خط کی بنیاد پر کسی زبان کو مقامی یا بیرونی قرار دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ لوگ ایک خاص ذہن کے ساتھ رسم خط کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ رسم خط کے وجود میں کوئی سیاست تو نہیں ہے۔ اسے استعمال کرنے والے موقع سے سیاست کی طرف لے آتے ہیں ۔ رسم خط کی اپنی آوازیں ہیں جو کسی مخصوص لسانی معاشرے سے رفتہ رفتہ ہم آہنگ ہو جاتی ہیں ۔
رسم خط کو دیکھنا اسے لسانی اور تہذیبی سطح پر اپنے وجود میں اتارنا بھی ہے۔ کسی رسم خط کی مخصوص آواز اور لکھاوٹ سے فاصلہ قائم کرنا ایک غیر اخلاقی رویہ ہے۔ آوازوں سے اجنبیت کی بنا پر بھی نام تبدیل کیے جاتےہیں ۔ اجنبیت سیاست کی شکار ہو جائے یا اجنبیت سیاست کی زائدہ ہو تو ایسے میں اس کی معصومیت بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اجنبیت اپنی فطرت کے ساتھ مانوسیت کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔ ہماری لسانی اور تہذیبی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے مختلف ادوار میں کس طرح اور کیوں کر مختلف آوازوں سے رشتہ قائم کیا۔ جائسی کی ’’پدماوت‘‘ جس رسم خط میں ہے وہ وہی ہے جو آج کی اردو کا رسم خط ہے۔ پدماوت کو پڑھتے ہوئے کسی کو کوئی نہ تو شکایت ہوئی اور نہ الجھن۔ رسم خط کو کوئی نام دینا اور پھر اس رسم خط کو سیکھنے کی کوشش کرنا، دونوں کا تعلق ہماری تہذیبی ضرورت اور ذہنی وسعت سے ہے۔ زبان اور رسم خط کے تعلق سے اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اگر اسے ٹھیک سے پڑھا جائے تو ذہنی تنگنائی سے بچا جا سکتا ہے۔
افواہ جب مزاج ٹھہرے تو ایسے میں سنجیدہ کتابیں اور باتیں بہت اچھی نہیں لگتیں ۔ اردو رسم خط کی اجنبیت یا اس سے دوری کے اسباب پر یہاں گفتگو کا موقع نہیں ۔ وقت کا بازار اور وقت کی سیاست ایک بڑی حقیقت ہے۔ ہر تہذیبی اور لسانی معاشرہ اپنے رسم خط کے ساتھ اپنے جذبے کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ رسم خط پر مشکل وقت بھی آتا ہے۔ رسم خط کی تنہائی ایک لسانی اور تہذیبی معاشرے کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی طرح ہے۔ جس رسم خط کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے کوئی معاشرہ جوان اور بوڑھا ہوتا ہے، اس سے پوچھئے کہ رسم خط اس کے لئے صرف لسانی اظہار کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس کی زندگی بھی ہے۔ رسم خط کے تعلق سے پرجوش ہونا فطری ہے مگر رسم خط اپنے دکھ کا خاموش اظہار بھی کرتا ہے۔ کسی رسم خط کی دشواری کا تعلق اس کے شوشوں اور اس کے ان نشانات سے ہے جنہوں نے زمانے کے سرد و گرم کا سامنا کیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی رسم خط کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھئے : امریکہ کی چین دشمنی اور ’’سپرپاوری‘‘ گنوانے کا اندیشہ
ملک اور دنیا کی سیاسی، معاشی اور اقتصادی صورتحال کا اثر رسم خط کی تہذیب پر بھی ہوتا ہے۔ اقتصادی ضرورت مشکل سے مشکل رسم خط کو بھی سیکھنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ کوئی رسم خط کسی دوسرے رسم خط کے مقابلے میں مشکل ہے۔ رسم خط کو مشکل سمجھنا ایک بات ہے اور اس مشکل پسندی کو سیاست کی نظر سے دیکھنا دوسری بات ہے۔ ایک زبان کا رسم خط دوسری زبانوں کے رسم خط کے مقابلے میں اگر سینہ سپر ہے تو اسے دشمنی سے نہیں بلکہ کثیر لسانی نظام سے وابستہ کر کے دیکھنا چاہیے۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک رسم خط نے دوسرے رسم خط سے کیا استفادہ کیا ہے۔ محمد حسن نے اپنی کتاب ’’قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ میں لکھا ہے: ’’اردو زبان اور رسم خط دونوں ایک تہذیبی مفاہمے کا نشان ہیں ۔ اور یہ مفاہمہ صرف دو مختلف روایات کے درمیان نہیں تھا بلکہ مقامی تہذیب اور بین الاقوامی تہذیب کے دھارے کے درمیان تھا، اسی لیے جب کبھی مقامی اور بین الاقوامی عناصر کے درمیان ملاپ اور محبت عروج پاتی ہے تو اردو زبان اور ادب بھی نئی بلندیاں حاصل کرتا ہے اور جب منافرت ان عناصر کو ایک دوسرے سے دور کرنے لگتی ہے تو اردو کے لسانی اور ادبی وقار کو بھی صدمہ پہنچتا ہے۔‘‘
زبان کی لسانی اور تہذیبی تاریخ کو گہرائی کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت پہلے بھی تھی مگر اب زیادہ ہے۔ صرف پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ مسائل اور مباحث کے تناظر کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ کلیم عاجز نے کہا تھا:
اپنی ہی بستی میں ہم سے اپنی ہی بستی کے لوگ
پوچھتے ہیں کون سی بستی کے ہو کیا نام ہے