• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انڈیا اتحاد میں بغاوت کے آثار

Updated: December 18, 2024, 1:33 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

کہنے کو تو کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی سیاسی جماعتیں ایک بڑے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جس کا نام انڈیا اتحاد ہے لیکن اس اتحاد میں اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کا فقدان بار بار منظر عام پر آتا رہا ہے۔ ممتا کے قومی عزائم کے آشکارا ہونے سے انڈیا اتحاد کے اندرونی تضادات مزید نمایاں ہوگئےہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

تیرہ برسوں  سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہتے رہتے ممتا بنرجی شاید تھک گئی ہیں  یا شاید وہ بور ہوگئی ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگست میں  آر جی کار اسپتال میں  ہوئے ریپ اور مرڈر پر عوامی احتجاج نے جس طرح بغاوت کی شکل اختیار کرلی تھی اس سے ممتا بنرجی کو یہ اندیشہ ہو چلا ہے کہ ۲۰۲۶ء میں  ترنمول کانگریس کے لئے اسمبلی الیکشن میں  فتح یابی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوسکتی ہے۔بنگلہ دیش میں  ہندو اقلیتوں  پر ہوئے حالیہ حملوں  کے خلاف مغربی بنگال کے ہندوؤں  میں  جتنا شدید ردعمل ہوا ہے وہ بھی ممتا بنرجی کے اقتدار کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممتا کے عزائم اب ایک صوبے کے حدود سے تجاوز کرچکے ہیں : دیدی اب وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں ۔  
 وجہ خواہ کچھ بھی ہویہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ ممتا بنرجی اپنے لئے کسی نئے سیاسی رول کی متلاشی ہیں  ورنہ کیا ضرورت تھی انہیں  یہ اعلان کرنے کی کہ اگر انڈیا اتحاد میں  شامل دوسری اپوزیشن جماعتیں  انہیں  انڈیا اتحاد کی قیادت سونپنا چا ہیں  تو انہیں  اس ذمہ داری کو قبول کرنے میں  کوئی قباحت نہیں  ہوگی۔  ممتا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی اور انڈیا اتحاد کی سربراہی کی دونوں  ذمہ داریا ں   بیک وقت سنبھال سکتی ہیں ۔ایک بنگلہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ممتا نے پہلے تو انڈیا اتحادکی تشکیل کا پور اکریڈٹ خود کو دے ڈالا اور پھراس کی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سربراہ (ملکارجن کھرگے) اسے ٹھیک طریقے سے چلانے میں  ناکام  ہیں ۔سیاسی پنڈتوں  کا خیال ہے کہ یہ پورا انٹرویو، اینکر کا  سوال اور ممتا کا جواب پہلے سے تحریر کردہ  ڈرامے کے اسکرپٹ کا حصہ تھے۔’’ ممتا بنرجی اپوزیشن اتحاد کی قیادت کیلئے زیادہ موزوں  ہیں ‘‘کابیانیہ ایک سوچے سمجھے سیاسی پلان کا حصہ لگتا ہے۔ ممتا کے اس انٹرویو کے نشر ہوتے ہی ترنمول کانگریس کی سربراہ کو ان کے توقع کے مطابق ردعمل ملنے لگے۔لالو پرساد یادو، شرد پوار اوراکھلیش یادو نے ممتا کی انڈیا اتحاد کی قیادت میں  دلچسپی کا خیر مقدم کیا۔ قارئین نے یقیناً اس بات پر غور کیا ہوگا کہ ممتا کی پیشکش کی حمایت کرنے والے تمام لیڈران کا تعلق راشٹریہ جنتا دل، سماج وادی پارٹی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی جیسی غیر کانگریسی پارٹیوں  سے ہے۔ کانگریس قیادت نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ یہ شوشہ اس وقت کیوں  چھوڑا گیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد کی لیڈر شپ میں  ممتا بنرجی کی دلچسپی کا اظہاراور پوار اور اکھلیش جیسے اہم لیڈروں  کی اس تجویز کی فوری حمایت درحقیقت ملکارجن کھرگے کے خلاف عدم اعتماد اور کانگریس کے خلاف بغاوت کا اشارہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں  بی جے پی اور این ڈی اے کی ناقابل یقین کامیابی سے انڈیا اتحاد کے حوصلے بری طرح پست ہوگئے ہیں ۔ دل شکستہ علاقائی پارٹیوں  کو یہ خدشہ لاحق ہورہا ہے کہ کانگریس پارٹی کہیں  اپنے ساتھ انہیں  بھی نہ لے ڈوبے۔مجھے تو لگتا ہے کہ علاقائی پارٹیوں  کی اندر ہی اندر یہ کھچڑی پک رہی ہے کہ سیٹوں  کی تقسیم میں  کانگریس کی سیٹیں  کم کر دی جائیں  کیونکہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے باوجودکانگریس کی جیت کی در (strike rate) بری طرح گرچکی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں  کانگریس نے ۳۲۶؍ سیٹوں  پر امیدوار اتارے لیکن ۱۰۰؍ سیٹیں  بھی نہیں  جیت سکی۔ انڈیا اتحاد میں  شامل علاقائی پارٹیاں  دراصل یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہیں  کہ کانگریس ہائی کمان اس تکلیف دہ سچائی کو تسلیم کرلے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں  کے باوجود ہندوستان کے عوام کا کھویا ہوا اعتماد واپس پانے میں  کامیاب نہیں  ہوسکی ہے۔ راہل گاندھی کی یاتراؤں  سے پارٹی ورکرز کے حوصلے اور لوک سبھا سیٹوں  کی تعداد ضرور بڑھی ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں  کانگریس کی جو درگت بنی اس نے کانگریس کے احیا کی امیدوں  پر پانی پھیردیا ہے۔ ممتا، اکھیلیش اور پوار شاید یہ بھی پیغام بھی دینا چاہ رہے ہیں  کہ کھرگے کانگریس کی صدارت کے لئے موزوں  ہوسکتے ہیں  لیکن انڈیا اتحاد کے چیئر مین کے حیثیت سے وہ اتحادی جماعتوں  کی امیدوں  پر پورے نہیں  اترے ہیں ۔  پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران کانگریس اور اتحادی جماعتوں  کے اختلافات ابھر کر سامنے آگئے۔ کانگریس اڈانی ایشو پر وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کے مطالبے پر اڑی ہوئی ہے جبکہ سماج وادی اور ترنمول کانگریس نے واضح کردیا ہے کہ وہ کانگریس کے اس جارحانہ موقف کی حمایت نہیں  کرتی ہیں ۔ ۴؍ دسمبر کو جب اپوزیشن اتحاد کے اراکین پارلیمنٹ نے اڈانی ایشو پر احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مکر دوار تک مارچ کیا تو ترنمول کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے نمائندے اس میں  شامل نہیں  تھے۔

یہ بھی پڑھئے : کئی ملکوں کیلئے شام کی بغاوت میں اہم سبق ہے

کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ کے حالیہ بیان سے بھی ا نڈیا اتحاد میں  تیزی سے فروغ پاتی بے اطمینانی اوربدظنی واضح ہوگئی۔ عمر نے برملا یہ کہا کہ کانگریس کو اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ملک بھر کی اپوزیشن پارٹیوں  کے محاذ کی سربراہی کی اہل ہے کیونکہ کئی اتحادیوں  کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ کانگریس اس اہم منصب کی ذمہ داریاں  صحیح طرح سے نہیں  نبھارہی ہے۔ عمر عبدللہ نے ای وی ایم پر کانگریس کے موقف کی بھی مخالفت کی۔ کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوک سبھا الیکشن میں  اسی ووٹنگ مشین کے استعمال کے ذریعہ کانگریس سو سیٹیں  جیت کر جشن مناتی ہے تو اسمبلی الیکشن میں  نتیجہ خراب ہونے سے انتخابی دھاندلی کا واویلا کیوں  مچاتی ہے۔ دیکھا آپ نے!عمر کانگریس کے حلیف ہوتے ہوئے بھی حریف کی زبان بول رہے ہیں ۔ کانگریس پر اس طرح کا طنز تو بی جے پی کے لیڈران کرتے ہیں ۔ کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ اسے نہ صرف اپنے سیاسی اور نظریاتی دشمن بی جے پی کے حملوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنے اتحادی جماعتوں  سے بھی جلی کٹی سننی پڑتی ہے۔ جب سے انڈیا اتحاد معرض وجود میں  آیا ہے تب سے کبھی ممتا تو کبھی اکھلیش اورکبھی پوار تو کبھی کیجریوال، کانگریس اور اس کی لیڈر شپ کو نشانہ مشق بناتے رہے ہیں ۔ کہنے کو تو کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی سیاسی جماعتیں  ایک بڑے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں  جس کا نام انڈیا اتحاد ہے لیکن اس اتحاد میں  اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کا فقدان بار بار منظر عام پر آتا رہا ہے۔ممتا کے قومی عزائم کے آشکارا ہونے سے انڈیا اتحاد کے اندرونی تضادات مزید نمایاں  ہوگئے ہیں ۔ انڈیا اتحاد کی اندرونی چپقلش سے اپوزیشن کے خیمے میں  انتشار اور عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچے گا جس کو ہرانے کے مقصد سے اس اتحاد کا قیام عمل میں  آیا تھا۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK