حالات ایسے ہیں جیسے ہاہاکار مچی ہو، ٹرمپ اعلان بھی کررہے ہیں، فیصلے بھی کررہے ہیں اور فیصلے واپس بھی لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 1:51 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
حالات ایسے ہیں جیسے ہاہاکار مچی ہو، ٹرمپ اعلان بھی کررہے ہیں، فیصلے بھی کررہے ہیں اور فیصلے واپس بھی لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔
کیا اہم معاملے میں غیر اہم طریقے سے آگے بڑھا جاسکتا ہے؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ تجارت میں دُنیا اُسے لو‘ٹ رہی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے نقصانات کی تلافی کرے۔ اس کا خیال ہے کہ اس نے اتنا برآمد نہیں کیا جتنا اسے درآمد کرنا پڑا ہے کیونکہ ڈالر مضبوط تھا اور دیگر ملکوں کی کرنسیاں کمزور۔ڈالر چونکہ عالمی تجارت اور لین دین کی کرنسی ہے اس لئے ہمیشہ اس کی مانگ رہتی ہے چنانچہ اس کا مضبوط ہونا فطری ہے۔ اسی بنیاد پر اکثر ملکوں سے امریکہ کے تجارتی تعلقات میں اسے خسارہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی درآمد زیادہ رہتی ہے اور برآمد کم۔ اس تناظر میں امریکہ کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک اپنی کرنسی کو جان بوجھ کر کمزور رکھتے ہیں تاکہ وہ امریکہ کو دھوکہ دے سکیں ۔ امریکہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اسے کھربوں ڈالر محض اس لئے خرچ کرنے پڑتے ہیں تاکہ دُنیا کے مختلف ممالک اپنی سلامتی کو یقینی بناسکیں ۔ اس کیلئے وہ الگ الگ جگہوں پر فوجی مراکز قائم کرتا ہے اور جنگیں لڑتا ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکہ پوری دُنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ٹیرف کے معاملے میں جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ سنا جائے اور اُس پر عمل کیا جائے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ دُنیا امریکہ سے سازو سامان خریدے، جتنا پہلے خریدتی تھی اب اُس سے زیادہ خریدے۔ اس کا یہ بھی اصرار ہے کہ دفاعی سازو سامان زیادہ سے زیادہ خریدا جائے۔ اسی طرح دُنیا کے ممالک اپنی فیکٹریاں امریکہ میں قائم کریں اور امریکی خزانے کو مستفید کریں ۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکہ کے جو عزائم ہیں اُن سے واقف ہیں ۔ امریکہ کی اپیلیں ، دھمکیاں وغیرہ وغیرہ درست ہیں یا نہیں ، مبنی بر حقیقت ہیں یا نہیں ، یہ الگ موضوع ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارہ اُس کے بجٹ کے خسارے اور زیادہ اخراجات کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے اِسے ضرورت ہے کہ بیرونی ملکوں سے زیادہ سرمایہ امریکہ میں داخل ہو۔ اگر آپ غور کریں تو یہ بات بآسانی تسلیم کریں گے کہ کسی بھی ملک نے امریکہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ نہیں کہا کہ آپ ہماری سرزمین پر فوجی مراکز قائم کریں ۔ امریکہ کس پر حملے کرے اور کس جنگ میں کود پڑے، یہ بھی اس کے ارباب اقتدار ہی طے کرتے ہیں ، دیگر ملکوں کے اتفاق رائے سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر اس موضوع کو بھی فی الحال علاحدہ رکھئے اور بنیادی سوال کی طرف آئیے کہ کیا اہم معاملات میں غیر اہم طریق کار اختیار کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے؟
یہاں اہم معاملے سے میری مراد ٹیرف پلان ہے۔ اس کے ذریعہ واشنگٹن مینوفیکچرنگ کی سرگرمیوں کو واپس امریکہ سے وابستہ کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ دُنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ کا مرکز بن جائے۔ اس کی کوشش ہے کہ چین پر انحصار کم سے کم ہو۔ واشنگٹن یہ تو چاہتا ہے کہ ڈالر کی حیثیت برقرار رہے اور مختلف ممالک ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر ہی کو فوقیت دیں ، ٹیرف کے ذریعہ اسے اربوں ڈالر حاصل ہوں جس کی وجہ سے اس کا بجٹ متوازن ہوجائے یعنی امریکہ ایک بار پھر عظیم بن جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے جس کیلئے منصوبہ بندی بھی بہت اچھی ہونی چاہئے مگر، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، امریکہ کے ٹیرف پلان کی وجہ سے پوری دُنیا میں انتشار پیدا ہوگیا ہے اور وہی سب ہورہا ہے جس کی پیش گوئی ٹرمپ کے ناقدین نے کی تھی۔ اس کی وجہ سے بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ کے بزنس نیٹ ورک کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ کسی کو خوشگوار نتائج کی اُمید ہے۔ عالم یہ ہے کہ امریکی تجارتی نمائندہ کانگریس کے اراکین کے سامنے پیش ہوتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہائٹ ہاؤس میں فیصلہ بدل چکا ہے اور ٹرمپ صاحب اپنے کسی فیصلے پر یوٹرن لے چکے ہیں ۔ امریکی وزیر مالیات نے جو بیانات دیئے وہ الگ ہیں اور کامرس کے سکریٹری نے جو بیانات دیئے وہ الگ ہیں ۔ دونوں جانب کے بیانات میں کوئی تال میل اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ چین کے صدر نے اُن سے بات چیت کی اور مسائل کے حل کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر فوراً ہی چینی ارباب اقتدار کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے اپنے بیان کے ذریعہ مارکیٹ کو سنبھالنے کی کوشش کی، چینی بیان کی وجہ سے مارکیٹ پھر لڑھک گئی۔
یہ بھی پڑھئے : پارہ پارہ کرگئی دل، ایسی آفت پھر نہ ہو
اگر اس اہم معاملے کی، اہمیت کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو یہ بات ذہن میں رکھی جاتی کہ جن ملکوں کو ہدف بنایا جارہا ہے وہ سخت ردعمل کا اظہار کریں گے اور جوابی اقدامات بھی اُن کی جانب سے ہونگے۔ مگر اب جبکہ وہ فیصلے کرچکے، اعلانات کرچکے اور اُن کی پالیسی کے خلاف دُنیا کے مختلف ملکوں کا ردعمل بھی سامنے آچکا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ٹرمپ آخر چاہتے کیا ہیں ۔ اگر وہ فری ٹریڈ چاہتے ہیں تو مینوفیکچرنگ کو امریکہ میں منتقل کرنے کا منصوبہ کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر مینوفیکچرنگ امریکہ میں منتقل ہوگئی تو اس کی وجہ سے ٹیرف متاثر ہوگا اور امریکہ جتنا کمانا چاہتا ہے نہیں کما سکے گا چنانچہ تجارتی خسارہ باقی رہے گا۔ ٹرمپ کی پالیسی سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر چین سے یہ خطرہ ہے کہ وہ امریکہ کی معاشی برتری کو چیلنج کرسکتا ہے تو اس سے مذاکرات کا سوال ہی کیوں پیدا ہورہا ہے؟ یہ سوالات پوچھے جاسکتے تھے اور پوچھے جانے چاہئے تھے مگر ٹرمپ نے اس کا موقع ہی نہیں دیا اور صدارت سنبھالتے ہی یکے بعد دیگرے فیصلے اور اعلانات شروع کردیئے۔ جن لوگوں نے سوال کرنا ضروری سمجھا اُنہیں اینٹی نیشنل کہہ دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بننے سے روکنا چاہتے ہیں ۔
جو حالات پیدا ہوئے ہیں اُن سے صاف ظاہر ہے کہ ٹرمپ اور اُن کے رفقائے کار نیز اُنہیں مشورہ دینے والوں نے جامع منصوبہ بندی نہیں کی اور اسی بنیاد پر مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اقدام کے ذریعہ انہیں جو اُمیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں گی۔ ٹرمپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُنہیں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جتنی مشکلات میں وہ ان دنوں گھرے ہوئے ہیں ۔