Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ٹرمپ مسلط کررہے ہیں ایک نیا ورلڈ آرڈر

Updated: March 05, 2025, 1:33 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

پچھلے ہفتے وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر نے زیلنسکی کے ساتھ جیسا توہین آمیز سلوک کیا اس کی مثال امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی ۔ کیا دنیا امریکی صدر کی عالمی داداگیری کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ دکھائیگی؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ۲۰؍جنوری کو امریکہ کا حکمراں  بدل گیا وہ غلط سمجھ رہے تھے۔ اس دن صرف امریکہ کا صدر ہی نہیں  بلکہ امریکہ بدل گیا۔وہائٹ ہاؤس میں  ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کی افتتاحی تقریب امریکہ میں  انقلابی تبدیلیوں  کا اعلان تھی۔ ٹرمپ اور ان کے لٹھ بازوں  نے چند ہفتوں  میں  ہی امریکہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ ۲۸؍فروری کو وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں  امریکی صدر کی ان کے یوکرینی ہم منصب سے ہوئی ملاقات دراصل وہائٹ ہاؤس میں  کی جارہی سفارتی غنڈہ گردی کا لائیوٹیلی کاسٹ تھی جسے ساری دنیا دم بخود ہوکر دیکھ رہی تھی۔ ٹرمپ کو اس بات کا پورا اندازہ تھا کہ وہ مکالمہ نہیں  تماشہ کررہے ہیں  اسی لئے رپورٹروں  کی جانب دیکھ کر یہ دعویٰ کیا: "This is going to be great television"
 تین سال قبل اسی امریکہ نے یوکرین کو روس سے جنگ کے لئے اکسایا اورآج یہی امریکہ یوکرین پر جنگ شروع کرنے کا الزام لگارہا ہے۔ اسی امریکہ نے روس کی شکست تک جنگ جاری رکھنے کا عہد کررکھا تھا اور آج یہی امریکہ جنگ فوراً ختم کرنے کے لئے یوکرین پر دباؤ ڈال کر روس کے سر پر فتح و کامرانی کا تخت سجانا چاہتا ہے۔ امریکہ کو دشمن ولادیمیر پوتن کے ساتھ جو جارحانہ سلوک کرنا چاہئے تھا، وہ دوست ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ کررہا ہے۔
  زیلنسکی کل امریکہ سمیت سارے مغرب کی آنکھوں  کا تارا تھے۔ دو سال قبل جب وہ امریکہ کے دورے پر آئے تھے تو بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں  ایک ہیرو کی طرح ان استقبال کیا تھا۔ پچھلے ہفتے اسی ہیرو کو رسوا کرکے واشنگٹن سے واپس بھیجاگیا۔
  پچھلے ہفتے وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں  امریکی صدر نے زیلنسکی کے ساتھ جیسا توہین آمیز سلوک کیا اس کی مثال امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں  نہیں  ملتی ۔ ٹرمپ کی جلی کٹی تنقیدوں  کی تاب نہ لاکر جب زیلنسکی رخصت ہوگئے اس کے بعد ٹرمپ کی ہدایت پر یوکرین کے وفد کو وہائٹ ہاؤس سے نکال باہر کردیا گیا۔ ٹرمپ اور نائب صدر وینس بار بار زیلنسکی کو جتاتے رہے کہ ان کا ملک ان کے ٹکڑوں  پر پلتاہے اسی لئے انہیں  امریکہ کا احسان مند ہونا چاہئے۔ امریکی صدر نے زیلنسکی کو ان کی اور یوکرین کی اوقات بھی یاد دلا دی۔ معروف تجزیہ کار تھامس فریڈمین کے مطابق اس بات کا یقین تو نہیں  ہے کہ امریکی صدر ایک روسی ایجنٹ ہوسکتا ہے لیکن کم از کم ٹیلیویژن اسکرین پران کا طرز عمل ایک روسی ایجنٹ جیسا ہی تھا۔ایک ڈیموکریٹ سینیٹر نے تو یہاں  تک کہ دیا کہ ٹرمپ کا طرز عمل پوتن کے پالتو کتے جیسا تھا۔
 ٹرمپ کے ہاتھوں  ہوئی زیلنسکی کی شرمناک دھلائی پر ماسکو میں  بغلیں  بجائی جارہی ہیں ۔ روسی حکومت کی ترجمان نے کہا کہ زیلنسکی اپنی خیر منائیں  کہ ٹرمپ نے ان کو جوتے نہیں  مارے۔ ٹرمپ America First اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے دوسری بار منتخب ہوئے ہیں ۔ ٹرمپ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے متعدد ممالک کے سربراہان کو شرف ملاقات بخش چکے ہیں ۔ ان رسمی میٹنگوں  کے دوران وہ اپنے بیرونی مہمانوں  کی جم کربے عزتی کرتے ہیں ، ان کو جلی کٹی سناتے ہیں ، فرمان جاری کرتے ہیں  اور ان پر بار بار احسان جتاتے ہیں ۔ان کے دماغ میں  شاید یہ سودا سما گیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سربراہان کو ذلیل کرکے اپنی برتری اور امریکہ کی عظمت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔ سفارت کاری ایک آرٹ ہے اور ٹرمپ اس سے نابلد ہیں ۔ ٹرمپ ایک سیاستداں  نہیں  بلکہ سوداگر ہیں ۔ وہ مذاکرات نہیں  ڈیل کرتے ہیں ۔ وہ امریکہ کے دشمنوں  سے زیادہ دوستوں  کیلئے خطرناک ہیں ۔ ٹرمپ یوکرین کو روس کے ہاتھوں  کوڑی کے مول بیچنے پر آمادہ ہیں ۔زیلنسکی سے ان کی خفگی کا سبب یہ ہے وہ امریکی صدر کے منصوبے کی مخالفت کررہے ہیں ۔اب ٹرمپ کابینہ کے چند اراکین تو زیلنسکی کی برطرفی کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں ۔ نہ تو یوکرین اس جنگ کے لئے تیار تھا اور نہ ہی روس۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے دونوں  کواس جنگ کے لئے مشتعل کیا بلکہ اس جنگ میں  دھکیلا۔ٹرمپ جنگ بند کرنے کے لئے آج زیلنسکی کا ہاتھ مروڑرہے ہیں  جبکہ ان کے پیش رو بائیڈن نے تین سال قبل زیلنسکی کا ہاتھ مروڑ کر انہیں  پوتن سے بھڑنے کے لئے مجبور کیا تھا۔
 یہ جنگ دراصل روس کے خلاف امریکہ کی پراکسی وار تھی۔ تین سال قبل یہ جنگ شروع کروانے میں  امریکہ کا فائدہ تھا۔ آج اسے بند کروانے میں  اس کا مفاد وابستہ ہے۔ ٹرمپ امریکہ کی دیرینہ خارجہ پالیسی کو تہ و بالا کرنے پر آمادہ ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ یورپی اتحادی در اصل امریکہ کوکھوکھلا کررہے ہیں ۔ ٹرمپ اب روس سے دشمنی ختم کرکے ایک نئی پارٹنر شپ کا آغاز کرنا چاہتے ہیں  تاکہ چین کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرسکیں ۔نصف صدی قبل امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اسی طرح کا ایک ڈرامائی سفارتی اقدام کیا تھا۔ انہوں  نے سوویت یونین کو زک پہنچانے کے لئے چین کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ اسی لئے ٹرمپ اس وقت روس کو شیشے میں  اتارنے کے لئے جو سفارتی چال چل رہے ہیں  ا سے "Reverse Nixon policy"کہاجارہا ہے۔ روس سے دوستی کی خاطر وہ یوکرین کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ یوکرین کی آزادی اور خودمختاری میں  بھی انہیں  کوئی دلچسپی نہیں  ہے۔ انہیں  ہرقیمت پر یوکرین کے بیش قیمت معدنیات حاصل کرنے کی جستجو ہے اوروہ زیلنسکی کو یہ ڈیل کرنے کے لئے بھی مجبور کررہے تھے لیکن زیلنسکی نے اس وقت تک اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جب تک امریکہ یوکرین کی سلامتی کی ضمانت نہیں  دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: جھوٹ کی پرتیں ایک نہ ایک دن کھل جاتی ہیں

 ٹرمپ اس وقت کسی کی کوئی بات سننے کے موڈ میں  نہیں  ہیں ۔ وہ روس۔یوکرین جنگ کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں  اور اس کیلئے یوکرین اور یورپی یونین سے پوتن کی تمام شرائط تسلیم کروانے پر مصر ہیں ۔ اتوار کو لندن میں  یورپی ممالک کے سربراہان کی ایک بے حد اہم میٹنگ ہوئی جس میں  زیلنسکی کے آنسو پونچھے گئے اور یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا۔ لیکن برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک کے سربراہان در اصل امریکہ کے بدلے ہوئے تیور سے بے حد پریشان ہیں ۔ واشنگٹن میں  ٹرمپ کے رفقا یہ دعویٰ کررہے ہیں  کہ اوول آفس میں  زیلنسکی کے ساتھ ہوئے تصادم کے بعد ساری دنیا امریکی صدر کی لیڈرشپ اور امریکہ کی عالمی طاقت کا لوہا مان رہی ہے۔ دراصل ٹرمپ اپنا نیا ورلڈ آرڈر ساری دنیا پر مسلط کرنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کیا اسے بلا چوں  چرا تسلیم کرلیتی ہے یا امریکی صدر کی عالمی داداگیری کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ دکھاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK