پوتن نے بھی کہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے چوٹی کانفرنس کرنا چاہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شی جن پنگ نے بھی ٹرمپ سے ملنے کی استدعا کی ہے۔ یعنی یہ صحیح ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے ایشیائی سیاست پر اثر پڑرہا ہے۔
EPAPER
Updated: November 19, 2024, 12:58 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai
پوتن نے بھی کہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے چوٹی کانفرنس کرنا چاہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شی جن پنگ نے بھی ٹرمپ سے ملنے کی استدعا کی ہے۔ یعنی یہ صحیح ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے ایشیائی سیاست پر اثر پڑرہا ہے۔
سب سے پہلے تو ہم آپ سے یہ معافی مانگ لیں کہ گزشتہ مضمون میں ہم نے لکھا تھا کہ ٹرمپ کے آنے کی وجہ سے امریکہ کی اندرونی پالیسی پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ضرور تبدیلیاں ہوں گی۔ ایسا نہیں تھا۔ اب یہ معلوم ہورہاہے کہ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کی اندرونی یا داخلہ پالیسی بھی بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہم نے جو نتیجہ اخذ کیا تھا اس کی وجہ امریکہ کے پریس اور اس کی وجہ سے ساری دنیا کے پریس پر اثر پڑنے کا نتیجہ تھا۔ ایک بات یاد رکھئے، امریکہ کا پریس زیادہ تر ڈیموکریٹ پریس ہے کیونکہ یہ میڈیا وہاں سے نکلتا ہے جہاں امریکہ کی معیشت کا انبار ہے اس لئے وہ ڈیموکریٹک امیدوار کے زیادہ طرفدار تھے، ظاہر ہے کہ امریکی میڈیا زیادہ تر ان ہی شہروں سے نکلتا ہے۔ اس کا اثر ساری دنیا کے میڈیا پر پڑا، ہندوستانی میڈیا پر بھی پڑا لیکن ٹرمپ نے اپنی تقریر فتح میں جو باتیں کہیں، انہوں نے نہ صرف اہل امریکہ کو بلکہ ساری دنیا کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ مثال کے طور پر انہو ںنے کہا کہ امریکہ ان تمام خفیہ ایجنسیوں کی چھان بین کرے گا جو جاسوسی کرتی ہیں۔ انہو ں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں ان کے بھی خلاف جاسوسی کرتی رہی ہیں اور انہوں نے یہ کام اس الیکشن میں بھی کیا چنانچہ وہ تمام اداروں میں تبدیلیاں کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ میں جب بھی کوئی نیا صدر آتا ہے تو وہ تمام سرکاری ایجنسیوں میں تبدیلیاں کرتا ہے اور وہاں اپنے لوگ رکھتا ہے لیکن ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بات کی چھان بین کریں گے کہ جب امریکی صدر دو بار سے زیادہ الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے تو سینیٹ اور کانگریس کے ممبران چھ چھ سات سات بار الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ امریکی بیوروکریٹ جب ریٹائر ہوتے ہیں تو سیدھے ان کمپنیو ں میںملازمت کرتے ہیں جن کی وہ چھان بین کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:ٹرمپ کی آمدآمد اور بائیڈن رفو چکر
امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں میں تبدیلی ویسے تو کوئی خاص بات نہیں تھی لیکن اس بار یہ بہت خاص بات ہے۔ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اعلان کیا کہ وہ پامپیو اور میکی کو ہٹانا چاہتے ہیں اور انہیں ان کی نئی کابینہ میں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ پامپیو اس سے پہلے سی آئی اے کے سربراہ رہے تھے۔ ایسے لوگوں کو مایوس کرنا امریکہ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جاسوسی میں شریک تھے۔ ایک بات اورٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاس کھڑے ہوئے ایلون مسک کے لئے یہ کہا کہ یہ شخص ہمارا سپر ہیرو ہےاور اگلی کابینہ میں اس کو اچھی جگہ ملے گی (انہیں ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کی سربراہی سونپی گئی ہے)۔ امریکہ کے الیکشن میںچند ایسی ریاستیں ہیں جنہیں امریکی سیاست میں سوینگنگ اسٹیٹ کہا جاتا ہے، یعنی یہ جھولتی ہوئی ریاستیں ہیں، یہ کبھی ریپبلکن کی طرف جھول جاتی ہیں تو کبھی ڈیموکریٹ کی طرف۔ عام طو رپر یہ ریاستیں زیادہ تر ڈیموکریٹ کی طرف جھکی رہتی ہیں لیکن اس بار ان جھولتی ہوئی ریاستوں نے اپنا سارا زور ریپبلکن پر ڈال دیا۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایلون مسک نے نہ صرف ساڑھے سات کروڑ ڈالر ٹرمپ کی پبلسٹی پر خرچ کئے تھے بلکہ اپنا انٹرنیٹ ٹویٹر جسے اب ایکس کہتے ہیں، ٹرمپ کی مدد کیلئے لگادیا تھا۔
امریکہ میں ٹرمپ کے ان بیانات کو بہت تشویش سے دیکھا جارہا ہے، تو وہاں کی خفیہ ایجنسیوں اور دوسرے اداروں نے یہ سوچا کہ ٹرمپ کی توجہ اس طرف سے ہٹائی جائے چنانچہ ایک واقعہ ہو ا اور یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں، یہ بات امریکہ کے ایک معتبر ٹی وی چینل سی این این نے بھی کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی جیلوں میں قید تین قیدی مبینہ طور پر ٹرمپ کو مارنے کی فکر کررہے تھے، ان میں سے دو تو امریکی ہیں لیکن تیسرا شخص فرہاد شیکری ہے جو ایرانی ہے۔ فرہاد شیکری ایران کے پاسداران سے تعلق رکھتا تھا اور وہی اس کو وہاں سے ہدایات دیتے تھے جن میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ ہار گئے جیسا کہ ان کا خیال تھا ، تو ان کی سیکوریٹی کم ہوجائے گی اسلئے انہیں راستے سے اسی وقت ہٹایا جائے۔ اب یہ ایک عجیب لطیفہ ہے، اگر ایران کے پاسداران امریکی کی جیلوں تک اتنی رسائی رکھتے ہیں تو یہ مذاق بہت بھونڈا تھا، لیکن یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ فرہاد شیکری افغانی تھا اور وہاں سے وہ ایران گیا تھا اس کے بعد وہ امریکہ گیا، یہا ںایک ڈاکہ زنی کے کیس میں اسے سزا ہوئی او راس کیلئے ہی وہ جیل میں قید تھا۔ظاہر ہے کہ امریکی پریس اور میڈیا کی اس لطیفہ گوئی سے لوگ صرف ہنس دیئے۔
ایک بات اور یاد رکھئے کہ ٹرمپ کا آنا اسرائیل کے لئے بہت بڑی بدبختی ہے، اسرائیل کو معلوم ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کے مخالف تو نہیں ہیں لیکن وہاں سے اسرائیل کو جنگ کرنے کے لئے جو مالی امداد ملتی تھی وہ رُک جائے گی۔ اسی لئے اسرائیل اس وقت غزہ اور یمن میں حملے کررہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بیس جنوری سے قبل کرلے اس کے بعد اس کا کھیل بند ہوجائے گا۔ ٹرمپ پہلی بار صدر بنے تھے تو زلمے خلیل زاد ان کے بہت قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ زلمے خلیل زاد کئی ملکوں میں امریکہ سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے چیف آف اسٹاف جنرل عاصم کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ اب چونکہ ٹرمپ صدر بن چکے ہیں اور ان کے عمران خان سے بہت تعلق ہیں اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی پالیسی بدل لیجئے نہیں تو اس کا بھی نتیجہ بہت بُرا برآمد ہوسکتا ہے۔ عمران خان ٹرمپ کی ترجیحی لسٹ میں کس مقام پر ہیں ، یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات میں گڑ بڑ ہوئی ہے اور عمران خان کو قید اس لئے رکھا گیا کہ وہ سیاسی طور پر فوج اور حکومت کے خلاف ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بیان نے پاکستان میں کھلبلی مچا دی تھی اور ٹرمپ کے آنے سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات ہیں وہ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔پوتن نے بھی کہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے چوٹی کانفرنس کرنا چاہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شی جن پنگ نے بھی ٹرمپ سے ملنے کی استدعا کی ہے۔ یعنی یہ صحیح ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے ایشیائی سیاست پر اثر پڑرہا ہے۔