۷؍سال قبل ٹرمپ نے سابقہ جوہری معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا لیکن دوبارہ اقتدار میں آتے ہی وہ خود ایران سے معاہدہ کرنے کیلئے بیتاب ہیں۔
EPAPER
Updated: April 16, 2025, 1:23 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
۷؍سال قبل ٹرمپ نے سابقہ جوہری معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا لیکن دوبارہ اقتدار میں آتے ہی وہ خود ایران سے معاہدہ کرنے کیلئے بیتاب ہیں۔
ٹرمپ کے لئے واقعی کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ایک جانب انہوں نے چین کے خلاف بہت بڑی تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور دوسری جانب امریکہ کے دیرینہ دشمن ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔ ہفتے کے دن عمان کی راجدھانی مسقط میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف کے درمیان پہلے دور کے مذاکرات ہوئے۔ایران کا اصرارہے کہ مذاکرات بالواسطہ تھے جبکہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ بات چیت براہ راست ہوئی۔کیا فرق پڑتا ہے؟اہمیت اس بات کی ہے کہ بات ہوئی۔اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی اور ایرانی رہنما سنیچر کو دوسرے راؤنڈ کے مذاکرات کیلئے ایک بار پھر عمان پہنچ رہے ہیں ۔
امریکہ اور ایران دونوں نے مذاکرات کو’’ مثبت اور تعمیری‘‘ قرار دیا۔ واشنگٹن کے بیان میں مسئلہ کو پیچیدہ تسلیم کرنے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ وٹکوف کی’’ براہ راست بات چیت ایک ایسا مثبت قدم ہے جس سے امریکہ اور ایران دونوں ممالک کے باہمی مفادات‘‘ وابستہ ہیں ۔وٹکوف نے ایرانی وزیرکو یہ اطلاع بھی دی کہ ٹرمپ کی ہدایت دی ہے کہ’’ باہمی اختلافات کو مذاکرات اور سفارت کاری‘‘ کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ امریکی سرکاری بیان سے مفاہمت اور خیرسگالی کے جذبات صاف جھلک رہے ہیں ۔
ایران کے ساتھ دس سال قبل کئے گئے جوہری معاہدہ کو ٹرمپ نے ’’تباہ کن‘‘قرار دیا تھا۔ انہیں اس سے اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے اپنی پہلی مدت میں اسے پھاڑ کر پھینک دیا تھا اوردوسری بار وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی وہ خود ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے بیتاب نظر آرہے ہیں ۔ سابقہ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر صرف ایران اور امریکہ نے ہی نہیں بلکہ چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے بھی دستخط کئے تھے اوراقوام متحدہ نے اس پر اپنی مہر لگائی تھی۔لیکن ٹرمپ کو وہ ناپسند تھا کیونکہ دنیا اسے اوبامہ کی ’’سفارتی کامرانی‘‘قرار دے رہی تھی۔ پھر ٹرمپ پر اسے رد کرنے کا صہیونی دباؤ بھی تھا۔
دوبارہ اقتدار میں آتے ہی ٹرمپ نے قلابازی کھائی اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے جتن کرنے لگے۔انہوں نے مارچ میں ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کوذاتی خط بھیج کر تہران کو بات چیت کی دعوت دی۔ ٹرمپ ایک باکمال ڈیل میکر ہیں ۔ سیاسی اور سفارتی مذاکرات اور بین الاقوامی معاہدوں کو بھی وہ تجارتی ڈیل کی مانند ہی نپٹاتے ہیں ۔ کیا آپ یقین کرینگے کہ ٹرمپ نے جس وٹکوف پر روس اور یوکرین کی جنگ بند کروانے، مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا حل ڈھونڈنے اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کی ذمہ داری دی ہے، ان کا سفارت کاری یا سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے؟ وٹکوف ایک ارب پتی بزنس مین ہیں ۔
نیو یارک ٹائمزکے مطابق ٹرمپ پر یہ دباؤ ہے کہ ایران سے جو جوہری معاہدہ کریں وہ اس معاہدہ سے کہیں زیادہ سخت ہو جو اوبامہ نے ۲۰۱۵ء میں کیا تھا۔ اوبامہ نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر قدغن لگائی جاسکی تھی اور بین الاقوامی جوہری تونائی ایجنسی (IAEA)کو ایرانی تنصیبات کی جانچ پڑتال کی آزادی مل گئی تھی تاکہ تہران اگر کسی قسم کی شرارت کرے تو فوراً گرفت میں آسکے۔ بدلے میں امریکہ نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیا ں ہٹالیں اور اسے دنیا بھر میں اپنا تیل بیچنے کی اجازت مل گئی تھی۔ ایران یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اسکا ایٹمی پروگرام پر امن سویلین مقاصدکیلئے ہے اور جوہری ہتھیار بنانے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں ہے۔
پچھلے سال جولائی میں ایران کا صدر منتخب ہوتے ہی مسعود پیزشکیان نے یہ اعلان کیا تھا کہ ایران پر لگی پابندیاں ہٹوانے کے لئے وہ مغرب خصوصاً امریکہ کے ساتھ رشتے بہتر بنانے کے خواہاں ہیں ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ کے ساتھ نئے جوہری مذاکرات پر آمادگی بھی ظاہر کردی تھی۔ایران اس وقت غزہ، لبنان اور سیریا میں لگے پے درپے زخموں سے چور چور ہے۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت پہلے سے ہی شکستہ حال ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ایران اگر فوراً مذاکرات کی میز پر نہیں آیا تو امریکہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔مذاکرات کی ٹرمپ کی دعوت قبول کرکے ایران کے سیاسی اور مذہبی رہنما ؤں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔
۲۰۱۸ء میں نیتن یاہو کی خوشنودی کی خاطر ہی ٹرمپ نے سابقہ جوہری معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا اسی لئے جب اسرائیلی وزیر اعظم کو خبر ملی کہ اب وہ خود ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے جارہے ہیں تو ان پر گویا بجلی سی گر پڑی۔ جب اسرائیل پر عائد کردہ ۱۷؍ فیصد ٹیرف ہٹوانے کی درخواست لے کر نیتن یاہو پچھلے ہفتے ٹرمپ کے دربار میں پہنچے تو صدر کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ٹرمپ نے انہیں یاد دلایا کہ امریکہ سے اسرائیل کو ہر سال چار ارب ڈالر کی امداد ملتی ہے۔یہی نہیں ٹرمپ نے انہیں یہ اطلاع دے کر مزید پریشان کردیاتھاکہ۱۲؍ اپریل کو امریکہ ایران مذاکرات ہونے والے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی ’پارٹی اور سرکار‘ مودی کے بغیر ؟
نیتن یاہو نے ٹرمپ کو ایران سے لیبیاماڈل کے طرز پر جوہری معاہدہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ ایران مکمل طور پر جوہری پروگرام سے دستبردار ہوجائے۔نیتن یاہو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا ماڈل کا مطلب یہ ہے کہ امریکی نگرانی میں اور امریکی مداخلت سے ماہرین ایران جاکر اس کے نیوکلئیر تنصیبات کو اڑادیں اور تمام جوہری سازو سامان کو منہدم کردیں ۔ اگر ایران ایسا نہیں کرتا ہے تو امریکہ اس کے ساتھ معاہدہ نہ کرے بلکہ اس کے خلاف فوجی کاروائی کرے تاہم ایرانی حکام کو امید ہے کہ ٹرمپ ایران پر حملہ نہیں کریں گے۔ واشنگٹن پوسٹ میں پچھلے ہفتے ایرانی وزیر خارجہ عراقچی کا ایک مضمون چھپا جس میں انہوں نے ٹرمپ کوسمجھایا کہ اگر ایران پر چڑھائی کی گئی تو پورا مشرق وسطیٰ اور اس کے ساتھ امریکہ کو بھی ایک نئی اور بے حد مہنگی اور ہلاکت خیز جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور چونکہ ٹرمپ جنگ مخالف ایجنڈہ پر منتخب ہوئے ہیں اس لئے انہیں یہ ہرگز گوارا نہیں ہوگاکہ امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالربے وجہ ضائع ہوں ۔
پس نوشت: ایران کے جس جوہری پروگرام کو امریکہ آج ختم کرنے پر مصر ہے وہ دراصل امریکہ کی ہی دین ہے۔ ۱۹۵۷ء میں امریکہ نے ایران کی رضا شاہ پہلوی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت ایران میں نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی تھی۔ تہران میں ایران کا پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر بھی امریکہ کی مدد سے ہی تعمیر کیا گیااور اسکے ایندھن کیلئے افزودہ یورینیم بھی امریکہ نے ہی فراہم کیا تھا۔