لوک سبھا الیکشن کو زائد از دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اسلئے اب بہت سی باتیں یا سوالات پرانے لگنے لگے ہیں مگر وہ سوالات بہت اہم ہیں۔ ان پر بات ہونی چاہئے۔
EPAPER
Updated: August 26, 2024, 1:19 PM IST | Parkala Prabhakar | Mumbai
لوک سبھا الیکشن کو زائد از دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اسلئے اب بہت سی باتیں یا سوالات پرانے لگنے لگے ہیں مگر وہ سوالات بہت اہم ہیں۔ ان پر بات ہونی چاہئے۔
موجودہ دور کے حالات پریشان کن ہیں ۔ ہم نے ایک بہت خراب انتخابی فنڈنگ سسٹم دیکھا جو انتخابی بونڈ کی شکل میں جاری تھا (جسے بعد میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا)۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو بھی دیکھا۔ کتنا غیر شفاف انداز تھا اس کا۔ ہم نے انتخابی مہم بھی دیکھی۔ کتنی منافرت انگیز تھی یہ۔ چنانچہ انتخابی فنڈنگ، الیکشن کمیشن کی ورکنگ اور انتخابی مہم، یہ تین چیزیں خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہیں جنہیں مَیں ’’مودی ۳‘‘ کہتا ہوں جس کا مطلب مودی کا تیسرا دورِ اقتدار بھی ہے اور جس سے مذکورہ تین نکات بھی جھلکتے ہیں ۔ اس کے باوجود مَیں الیکشن کمیشن کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ کیوں ٹھہراؤں ؟ یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ ایک خود مختار ادارہ ہے۔ کیا اس کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے؟ نہیں ۔ ہم کیوں شک کریں ؟ نہیں جناب عالی ہم کو شک نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ آئینی اور غیر جانبدار ادارہ ہے۔ مَیں کہتا ہوں ہمیں اس پر بھروسہ کرناچاہئے۔ ہم نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک بی جے پی اُمیدوار انتخابات کا سامنا کئے بغیر انتخاب جیت گیا۔ ووٹنگ ہوئے بغیر جیت گیا۔ آپ جانتے ہیں کہاں اور آپ جانتے ہیں کیسے۔ اس کے باوجود ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اندور میں کیا ہوا؟ جو کچھ ہوا یا ہونے جارہا تھا آپ اس سے بھی واقف ہیں اس کے باوجود ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔پولنگ شروع ہوئی تو ہر مرحلے کے بعد پولنگ سے متعلق جو اعدادوشمار ظاہر کئے جانے چاہئے تھے وہ ظاہر نہیں کئے جارہے تھے۔ اس پر کافی احتجاج کیا گیا۔ تب، تاخیر سے ہی سہی، اعداد و شمار ظاہر کئے گئے۔ کتنے ووٹ پڑے یہ نہیں بتایا گیا تو کیا ہوا، ووٹنگ کا فیصد تو بتا دیا گیا، اسی لئے ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ آپ کو علم ہوگا کہ کبھی الیکشن کمیشن ٹویٹ نہیں کرتا تھا، اس بار اس نے ٹویٹ بھی کیا۔ اسی لئے ہمیں اس پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ الیکشن سے کچھ ہی پہلے اس ادارے کے دو کمشنروں کی تقرری ہوئی تھی۔ تقرری کیلئے کون سا طریقہ اختیار کیا گیا یہ آپ جانتے ہوں گے۔ اس سے پہلے ایک کمشنر نے استعفیٰ دے دیا تھا یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا۔ ان سب کے پس پشت کیا معاملہ تھا یہ ہم نہیں جانتے مگر ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
نئے کمشنروں کی تقرری کے فوراً بعد ۷؍ مراحل میں انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے منصوبے کو کیسے حتمی شکل دے دی گئی؟ یہ ہم نہیں جانتے اس کے باوجود ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اب اور آگے بڑھئے۔ ۷؍ مراحل میں انتخابات کا اعلان ہوا اچھی بات ہوئی مگر کن ریاستو ں میں کتنے مرحلوں میں الیکشن ہوگا اس کا منصوبہ تو عجب ہی تھا۔ تمل ناڈو میں ۳۹؍ سیٹیں ہیں ۔ تمام ۳۹؍ سیٹوں کا الیکشن ایک ہی مرحلے (دِن) میں کرلیا گیا لیکن راجستھان کی ۲۵؍ سیٹیوں کیلئے دو مرحلے۔ تمل ناڈو میں زیادہ سیٹیں مگر پولنگ کے مرحلے کم، راجستھان میں کم سیٹیں مگر پولنگ مرحلے زیادہ۔ ایسا کیوں ؟ جواب نہیں ملتا مگر ہمیں الیکشن کمیشن پر بھر وسہ کرنا چاہئے۔ یہی حال دیگر ریاستوں کا بھی تھا۔ کرناٹک میں ۲۸؍ سیٹیں مگر دو مرحلے، مدھیہ پردیش میں ۲۹؍ سیٹیں مگر ۴؍ مرحلے، جھارکھنڈ میں ۱۴؍ سیٹیں مگر ۴؍مرحلے، آسام میں ۱۴؍ سیٹیں مگر ۳؍ مرحلے، چھتیس گڑھ میں ۱۱؍ سیٹیں مگر ۳؍ مرحلے، مہاراشٹر میں ۴۸؍ سیٹیں مگر ۵؍ مرحلے، بہار میں مہاراشٹر سے کم یعنی ۴۰؍ سیٹیں مگر ۷ مرحلے۔ کون بتاسکتا ہے کہ کس ریاست میں پولنگ کتنے مرحلوں میں ہوگی یہ طے کرنے کے پیچھے کیا حقیقت تھی؟ کون سی دانشمندی تھی؟ اگر یہ سوال ہے، واجبی اور بنیادی سوال ہے تو اس کا جواب کون دے گا؟ الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا اس کے باوجود ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ رہی جواب کی بات تو مَیں چاہتا ہوں کہ جواب ملے تاکہ مَیں بھی استفادہ کرسکوں اور اگر مجھے کوئی ذاتی کام ہو مثال کے طور پر مجھے اپنی کار دھونی ہو تو میں طے کرسکوں کہ اسے ایک مرحلے میں دھوؤں یا مَیں اسے سات مراحل میں بھی دھو سکتا ہوں ۔ میں چاہتا ہو ں کہ الیکشن کمیشن کی منطق سے فائدہ اُٹھا کر اُسی منطق کو اپنی ذاتی زندگی میں آزماؤں ۔ اسی لئے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ دو وزرائے اعلیٰ کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اپوزیشن پارٹی کے بینک کھاتے منجمد کردیئے گئے تھے ۔ ایسا ہی اعتراض کرنے والے لوگوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران ضابطۂ اخلاق کا سختی سے نفاذ نہیں ہوا۔ اعتراض کرنے والوں نے وزیر اعظم کے اُن بیانات کا حوالہ دیا جن میں اُنہو ں نے کہا تھا کہ اپوزیشن منگل سوتر چھین لے گا، بکریاں اور بھینسیں چرا لےگا وغیرہ، مگر آپ بتائیے کیا یہ خلاف ورزی ہوئی؟ جب الیکشن کمیشن نے تمام باتوں پر غوروخوض کرنے کے بعد کہا کہ یہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے تو ہم کیوں خلاف ورزی کہیں ، ہمیں الیکشن کمیشن پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیئے: کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا
مَیں ایک اور بات جاننا چاہتا ہوں ۔ کچھ لوگوں کے پاس کرنے کیلئے کوئی بہتر کام نہیں تھا، اس لئے انہوں نے یہ پتہ لگایا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا فیصد ۷؍ بجے کیا تھا یہ بتایا اور ۴۵۔۸؍ بجے کتنا تھا یہ بتایا اور پھر پانچ دن بعد حتمی اعدادوشمار بتائے۔ اس سلسلے میں کیرالا کے کچھ لوگوں نے یہ بتایا کہ ابتدائی گنتی میں اور حتمی اعلان میں ۸۶؍ ہزار ووٹوں کا فرق ہے۔ ممکن ہے یہ اتفاقاً ہوا ہو مگر اس کا نتیجہ؟ یہ بھی اتفاق ہی ہوگا کہ بی جے پی نے وہ سیٹ ۸۶؍ ہزار ووٹوں ہی سے جیتی۔ کچھ ریاستوں میں ووٹوں کا جو فیصد ۷؍ بجے اور ۴۵۔۸؍ کو بتایا گیا تھا اور پھر جو الیکشن کمیشن نے ۴، ۵ یا ۱۱؍ دن بعد بتایا اس میں ۱۲ء۵؍ فیصد کا فرق تھا۔ سابقہ انتخابات میں یہ فرق کبھی ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا تھا مگر آپ کیوں بھولتے ہیں کہ اب ہم ’’نیو انڈیا‘‘ میں رہتے ہیں ۔ میرے بیان کرنے میں کچھ تفاوت ہوسکتا ہے اس لئے آپ کو چاہئے کہ ’’ووٹ فار ڈیموکریسی‘‘ کی بیان کردہ تفصیل کا مطالعہ کرلیں ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ انتخابات کا جو دوسرا مرحلہ تھا اس کے حتمی اعدادوشمار اب بھی ظاہر نہیں کئے گئے ہیں ۔
(۸؍ اگست کو انباگم، چنئی میں ’’وائس آف تمل ناڈو‘‘ کے زیر اہتمام خطاب کے ایک حصہ کا ترجمہ۔ دوسرا حصہ آئندہ پیر کو ملاحظہ فرمائیں )