مضمون نگار نے چند مثالوں کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم اس بات کیلئے راضی نہیں ہیں کہ ہماری ٹیم پاکستان جاکر کرکٹ کھیلے تو یہی ضابطہ دیگر باتو ںکیلئے کیوں نہیں لاگو کیا گیا ہے؟ وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 2:46 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
مضمون نگار نے چند مثالوں کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم اس بات کیلئے راضی نہیں ہیں کہ ہماری ٹیم پاکستان جاکر کرکٹ کھیلے تو یہی ضابطہ دیگر باتو ںکیلئے کیوں نہیں لاگو کیا گیا ہے؟ وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اگر میرا اور آپ کا کوئی تنازع ہو، کوئی جھگڑا ہو تو میرے پاس اختیار ہوگا کہ مَیں تین میں سے کسی ایک طریقے سے اس کو حل کروں ۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ بات چیت ہو جسے مذاکرات کہتے ہیں ۔ بات چیت اس بھروسہ کی بنیاد پر ہوگی کہ دونوں فریق ضروری سوجھ بوجھ کے حامل ہیں اور ہرچند کہ دونوں کو اپنا مطمح نظر یا اپنا مفاد عزیز ہے مگر اُن میں سمجھوتہ یا مصالحت کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی ثالث کی مدد لیں جسے انگریزی میں آربیٹریشن کہا جاتا ہے۔ یہ اُس صورت میں ہوگا جب ہم کسی ایسے شخص یا ادارہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس پر دونوں کا اعتبار ہو اور جو دونوں کی باتیں مخلصانہ طور پر سنے اور فیصلہ دے تو ہم اُس کے دیئے ہوئے حل یا فیصلہ کو تسلیم کریں ۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم طاقت کا استعمال کریں ۔ اس صورت میں ایک فریق، جو زیادہ طاقت کا حامل ہوتا ہے، طاقت کے ذریعہ دوسرے کو زیر کرتا ہے اور اُس پر اپنا فیصلہ لاد دیتا ہے۔ اگر بات دو ملکوں کے درمیان ہو تو طاقت کے اس استعمال کو جنگ کہتے ہیں ۔
ان تین طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا طریقہ نہیں ہے۔ کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔
اس پس منظر میں یہ صورت حال ملاحظہ کیجئے کہ ہندوستان، پاکستان کے ساتھ ٹورنامنٹ، جو آئندہ سال ہونا ہے، نہیں کھیلنا چاہتا۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی جانب سے ای میل موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی سی سی آئی نے اُنہیں (آئی سی سی کو) مطلع کیا ہے کہ اُس کی (ہندوستان کی) ٹیم پاکستان نہیں جائیگی اور آئی سی سی چمپئن ٹرافی ۲۰۲۵ء نہیں کھیلے گی۔‘‘ یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ پچھلے کئی برسوں سے برقرار ہے۔ در حقیقت، سابقہ حکومتوں کے دور میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جس میں ہندوستانی ارباب اقتدار اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کے موقف میں نہیں تھے اور پاکستان کو مدعو بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ بعض اوقات اسے بیان کیا جاتا ہے اور بعض اوقات نہیں کیا جاتا، یہ ہے کہ جب تک سرحد پار سے دہشت گردی بند نہیں ہوگی تب تک نہ تو ہم سفارتی سطح پر پاکستان سے گفتگو کریں گے نہ ہی ثقافتی سطح پر اس کے ساتھ رابطہ استوار کریں گے۔ بظاہر یہ ٹھیک ہے مگر ، چند معروضات یہ ہیں :
ان دنوں مجھے کرکٹ سے دلچسپی نہیں رہی۔ اسی لئے مجھے علم نہیں کہ ہمارا کپتان کون ہے۔ مَیں ہندوستانی ٹیسٹ ٹیم کے نصف کھلاڑیوں کو پہچان بھی نہیں سکتا۔ مجھے اس کی بھی فکر نہیں ہے کہ ہماری ٹیم کہیں کھیل رہی ہے یا نہیں ۔ اس کے باوجود مَیں یہ کالم لکھ رہا ہوں محض اس لئے کہ ہماری حکومت کے اس موقف کا جائزہ لے سکوں اور اپنے قارئین کے سامنے نقطۂ نظر پیش کرسکوں کہ ہم اپنے دشمن کے ساتھ سفارتی یا ثقافتی رابطہ نہیں رکھیں گے۔
میرے ایک دوست، ڈاکٹر اجے کامتھ، نے ٹویٹ کیا ہے کہ ہمارا یہ موقف ٹینس ٹیم پر لاگو نہیں ہوتا جو اس سال کے اوائل میں اسلام آباد گئی اور ڈیوس کپ میں پاکستان کے خلاف فاتح قرار دی گئی۔ اِس موقف کا اطلاق ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر پر بھی نہیں ہوا جو گزشتہ ماہ پاکستان گئے اور وہاں منعقدہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی کانفرنس میں شرکت کی۔ ایس جے شنکر نے اس تقریب میں جو افتتاحی کلمات کہے ان کا لب لباب یہ تھا کہ ’’سب سے پہلے، مجھے پاکستان کو مبارکباد دینے دیجئے جسے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی سربراہی کا موقع ملا، ہندوستان نے اس کی سربراہی ٔ(صدارت) کو مکمل تعاون سے نوازا ہے۔‘‘ یہ جملے وزارتِ خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ سے ماخوذ (ترجمہ شدہ) ہیں ۔ ڈیوس کپ اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی مثالوں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں ایک سے زائد ممالک شامل ہیں ۔ مگر، ایک سے زائد ملکوں کی شمولیت تو آئی سی سی چمپئن ٹرافی میں بھی ہوتی ہے!
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے اور مَیں بھی اسی نکتے کو اُبھارنا چاہتا ہوں کہ جب ہم پاکستان جاکر ٹینس کھیل سکتے ہیں اور ہم نے کھیلا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا تو کرکٹ کیوں نہیں کھیل سکتے؟ اگر ہم ایک تقریب کیلئے پاکستان کو مکمل تعاون سے نواز رہے ہیں تو دوسری تقریب (جس کا تعلق کھیلوں سے ہے) کیلئے تعاون کیوں نہیں دینا چاہتے؟ اس سوا ل پر غور کرنے کے بعد جب آپ جواب کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوئی منطق یا وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے کرکٹ کو بہت اونچا اُٹھا دیا ہے جس کے سبب یہ کھیل، جس میں ایک کھلاڑی بلہ سے گیند کو مارتا ہے اور بہت سے کھلاڑی اس گیند کا پیچھا کرتے ہیں ، کھیل نہیں رہ گیا بلکہ کوئی بلند وبالا چیز ہوگیا ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی تقریب بہت سنجیدہ تقریب ہے جبکہ آئی سی سی کی چمپئن ٹرافی محض کھیل ہے مگر ہم سنجیدہ تقریب کیلئے تعاون دیتے ہیں ، کھیل کیلئے نہیں دیتے جس کا تعلق تفنن طبع سے ہے، یہ کوئی سنجیدہ تقریب نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھئے: رقیب اتنے نہیں ہیں رفیق جتنے ہیں
دشمن ملک کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے سے باہمی مسائل کا حل نکل آئیگا ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حل نکلے گا تو مضمون کی ابتداء میں بیان کئے گئے تین متبادل کے ذریعہ۔ کوئی چوتھا متبادل یا حل کا طریقہ ہے ہی نہیں ۔اگر ہماری حکومت یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ ’’نہ کھیل کر‘‘ سخت موقف اپنایا ہے تو اس میں کوئی تدبر یا دانائی نہیں ہے جبکہ اس کے برخلاف کیا جائے تو وہ فیصلہ تدبر اور دانائی کا فیصلہ قرار پائے گا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ چمپئن ٹرافی کا بائیکاٹ کرکے ہم اُن مسائل کو حل نہیں کرسکیں گے جو ہمارے اور پاکستان کے درمیان ہیں ۔ وقت کے ساتھ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات غیر یقینی تعطل کا شکار ہوگئے ہیں جس میں ہم پہلے دو متبادل (مذاکرات یا ثالثی) کیلئے آمادہ نہیں ہیں جبکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ تیسرا متبادل زیر غور آئے کیونکہ دونوں ہی ممالک نیوکلیائی طاقت ہیں ۔ یہ بھی دیکھئے کہ کیا اِدھر کچھ عرصہ میں ہندو پاک کے درمیان کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے یا مسائل کی نوعیت بدل گئی ہے؟
درحقیقت، جو کرنا چاہئے وہ ہم نہیں کررہے ہیں لیکن یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم کچھ کررہے ہیں جیسے کرکٹ کا بائیکاٹ۔