• Wed, 30 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کون بنے گا امریکہ کا نیا صدر؟

Updated: October 30, 2024, 1:29 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

الیکشن میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے اورانتخابی مہم اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ مختلف عوامی جائزوں کے مطابق یہ الیکشن پچھلے چالیس برسوں کا قریب ترین مقابلہ بنتا جارہا ہے۔ تازہ نتائج میں کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ دونوں کے حصے میں ۴۸؍ فیصدووٹ ملتے نظر آرہے ہیں۔ کانٹے کی ٹکر اسی کو کہتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

امریکہ کے صدارتی انتخابات ساری دنیا کی نگاہوں  کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔۵؍نومبر کو ہونے والے انتخابات میں  سابق صدر اور ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ ہیں  جودوسری بار وہائٹ ہاؤس میں  داخلے کے لئے اپنی قسمت آزما رہے ہیں ۔ ۲۰۱۶ء میں  ٹرمپ اپنی پہلی کوشش میں  ڈیموکریٹ حریف ہلیری کلنٹن کو مات دے کر صدر منتخب ہوئے تھے لیکن۲۰۲۰ء میں  انہیں  جو بائیڈن کے ہاتھوں  شکست کا سامنا کرناپڑااور صدارت کی دوسری مدت سے وہ محروم رہے۔امریکہ میں  پچھلی دو صدیوں  میں  صرف ایک شخص ایسا گزرا ہے جو وہائٹ ہاؤس میں  اپنی پہلی صدارتی مدت مکمل کرنے کے بعدالیکشن ہار گیا لیکن چار سال کے وقفے کے بعد اس نے تیسری بار الیکشن لڑا اور صدر منتخب ہوگیا۔ اس کا نام گروور کلیولینڈتھا۔ یہ نکتہ ذہن نشیں  رکھیں  کہ کلیولینڈ کی کہانی انیسویں  صدی کے اواخر کی ہے۔ اگر ٹرمپ ۵؍نومبر کو الیکشن جیت جاتے ہیں  تو ایک سو پچیس برسوں  کے بعد وہ دوسرے ایسے صدر بن جائیں  گے جوچار سال کے وقفے کے بعد دوبارہ منتخب ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً ٹرمپ کا ایک ناقابل یقین معرکہ قرار دیا جائے گا۔
ٹرمپ کی مد مقابل ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اگر جیت جاتی ہیں  تو وہ بھی تاریخ رقم کریں  گی۔انہیں  نہ صرف پہلی خاتون صدر بلکہ پہلی سیاہ فام خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔ یہ تو طے ہے کہ اس بار وہائٹ ہاؤس پر قبضے کی جنگ بے حد دلچسپ اور تحیر آمیز ہونے والی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں  جب ٹرمپ پہلی بار الیکشن لڑرہے تھے تو ان کا مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک خاتون امیدوار (ہلیری کلنٹن) سے ہی ہواتھا۔چار سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ان کا مقابلہ ایک خاتون ڈیموکریٹ امیدوار سے ہے۔
 کملا ہیرس کا عروج بھی کم حیرت انگیز نہیں  ہے۔ابھی تین ماہ قبل تک وہ انتخابی مقابلے میں  مو جود ہی نہیں  تھیں ۔ اگر ۵؍ نومبر کو وہ وہائٹ ہاؤس پہنچ جاتی ہیں  تو انہیں  Accidental President کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔جیسا کہ قارئین کو علم ہے ٖڈیمو کریٹک پارٹی نے ٹرمپ کے مقابلے میں  بائیڈن کو ہی دوبارہ امیدوار بنایا تھا۔ انہوں  نے کئی ماہ تک انتخابی مہم بھی چلائی لیکن صدارتی مباحثے میں  جب ان کی زبان اور قدم دونوں  لڑکھڑانے لگے تو ڈیموکریٹک پارٹی کے کرتا دھرتاؤں  کو یہ ادراک ہوگیا کہ ٹرمپ الیکشن میں  ۸۲؍ سال کے بوڑھے بائیڈن کو کچا چباجائیں  گے۔ فٹبال کے گیم میں  جیسے زخمی پلیئر کوواپس بلاکر تازہ دم کھلاڑی کو اس کی جگہ اتارا جاتا ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی نے نائب صدر کملا ہیرس کو بائیڈن کی جگہ نامزد کردیا۔
کملا ہیرس افریقی باپ اور ہندوستانی ماں  کی اولاد ہیں  جو اپنے بل بوتے پراس مقام تک پہنچی ہیں ۔ ۷۸؍ سالہ ٹرمپ ارب پتی باپ کی اولاد ہیں  اور ریپبلیکن پارٹی میں  ان کے تیز رفتار عروج میں  ان کی دولت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان کے برعکس کملا ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ جب بہت چھوٹی تھیں  تو ان کے والدین کا طلاق ہوگیا اور ان کی پرورش ان کی والدہ نے تن تنہا کی۔ ۶۰؍سالہ کملا خوش مزاج، ملنسار، رحم دل اوربے حد منکسرالمزاج خاتون ہیں  جو مصائب کے باوجود دل کھول کرقہقہے لگانا جانتی ہیں ۔ وہ سبھوں  کو ساتھ لے کر چلنے میں  یقین رکھتی ہیں  اور رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر کسی سے بھید بھاؤ نہیں  کرتی ہیں ۔اسی لئے ان کو عوامی مقبولیت حاصل ہے۔امریکہ میں  کسی صدارتی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دو سال تک سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ کملا کو اس کام کیلئے صرف تین ماہ کی مہلت ملی لیکن انہوں  نے پھر بھی کمال کردیا۔ اگست میں  اپنی نامزدگی کے رسمی اعلان کے بعد قلیل عرصے میں  انہوں  نے اپنی انتخابی مہم میں  ایک نئی جان پھونک دی،ڈیموکریٹ خیمے میں  جو پژمردگی چھاگئی تھی وہ شادمانی میں  تبدیل ہوگئی، ریلیوں  میں  بھیڑ میں  اضافہ ہونے لگا اور عطیہ دہندگان نے اپنے خزانوں  کے منہ کھول دیئے۔ بے حد کم وقت میں  کملا نے الیکشن کے لئے ایک بلین ڈالر کا فنڈ اکٹھا کرلیا۔ 
 کملا کے برعکس ٹرمپ کا تعلق امریکہ کی اشرافیہ سے ہے۔ وہ مغرور، سنگدل، نسل پرست، دل پھینک اور انتقام پسند انسان ہیں ۔وہ بددماغ بھی ہیں  اور بدزبان بھی۔ٹرمپ Make America Great Again کے پرفریب نعرے کے سہارے اقتدار میں  آئے تھے۔ انہوں  نے اپنے بیانات اور اقدام سے امریکی معاشرے میں  منافرت، نسل پرستی، تعصبات اور ناانصافی کو بڑھاوا دیا۔وہ جمہوری اقدار میں  یقین نہیں  رکھتے ہیں  اور ان کا رویہ آمرانہ ہے۔وہ اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو ملک کے ’’اندرونی دشمن‘‘اور میڈیا کو ’’عوام کا دشمن‘‘قرار دیتے ہیں ۔ ان کی تقریروں  سے ان کے خطرناک عزائم صاف عیاں  ہوگئے ہیں ۔ مثلاً انہوں  نے دھمکی دی ہے کہ وہ اگر دوبارہ اقتدار میں  آتے ہیں  تو اپنے ناقدین کے خلاف مقدمے کردیں  گے، لاکھوں  تارکین وطن کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیں  گے، امریکی شہریوں  کے خلاف فوج اتار دیں  گے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن اس طرح کے فاسد خیالات رکھنے کے باوجود یا شایدان کی وجہ سے ہی ٹرمپ کی مقبولیت بھی آسمان چھو رہی ہے۔ نیو یارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں  اتوار کو ان کی انتخابی ریلی چھ گھنٹوں  تک چلی اور بے حد کامیاب رہی۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حکمراں نیتن یاہو‘ نے کوئی سبق نہیں سیکھا

منگل کو جب میں  یہ کالم تحریر کررہا ہوں  الیکشن میں  ایک ہفتہ رہ گیا ہے اورانتخابی مہم اپنے آخری مرحلے میں  ہے۔ مختلف عوامی جائزوں  (اوپینین پولز) کے مطابق یہ الیکشن پچھلے چالیس برسوں  کا قریب ترین مقابلہ بنتا جارہا ہے۔ تازہ نتائج میں  دونوں  امیدواروں  کے حصے میں  ۴۸؍ فیصدووٹ ملتے نظر آرہے ہیں ۔ کانٹے کی ٹکر اسی کو کہتے ہیں ۔ سارا امریکہ بے صبری سے ۵؍ نومبر کا انتظار کررہا ہے۔
پچھلی بار کی طرح ٹرمپ ایک بار پھریہ وعدہ کرنے سے انکار کررہے ہیں  کہ اگر وہ ہار گئے تو انتخابی نتیجہ کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیں  گے۔ اگر bad loser کی طرح انہوں  نے ایک بار پھر نتائج کو چیلنج کردیا تو سیاسی تنازعات اور قانونی مقدمے جنم لیں  گے اور تشدد کے امکان کو بھی خارج نہیں  کیا جاسکتا ۔ ٹرمپ اور ان کے حمایتی آج تک یہ دعویٰ کرتے ہیں  کہ ہ ۲۰۲۰ء میں  الیکشن ہارے نہیں  تھے بلکہ انہیں  دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔ان کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ان کے مسلح حامیوں  نے ۶؍جنوری کو کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ حملہ ریاست کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ فوجداری کے تین درجن معاملات میں  ٹرمپ پر فرد جرم عائد کیا جاچکا ہے۔ ان کو جیل بھی ہوسکتی تھی لیکن سپریم کورٹ نے یہ رائے دے دی کہ امریکی صدور کو قید سے immunity حاصل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK