اس وقت وہ طوفان میں گھری ہیں، انہیں چپ چاپ طوفان کے گزرجانے کا انتظار کرنا چاہئے۔ یہ جذباتیت اور جارحیت سے گریز کرنے کا وقت ہے۔ ممتا کے لب و لہجے سے جھلکتی رعونت سے لگتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کررہی ہیں:’’ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘
EPAPER
Updated: September 04, 2024, 1:25 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
اس وقت وہ طوفان میں گھری ہیں، انہیں چپ چاپ طوفان کے گزرجانے کا انتظار کرنا چاہئے۔ یہ جذباتیت اور جارحیت سے گریز کرنے کا وقت ہے۔ ممتا کے لب و لہجے سے جھلکتی رعونت سے لگتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کررہی ہیں:’’ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘
پچھلے ایک ہفتے کے واقعات کا جائزہ لینے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ممتا بنرجی حکومت کو گرانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔بی جے پی کا جو احتجاج آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کی مقتولہ ڈاکٹر کیلئے انصاف کے مطالبہ سے شروع ہوا تھا وہ اب وزیر اعلیٰ کے استعفےٰ کے مطالبے پر آکر رک گیا ہے۔بی جے پی کے لیڈران کا ممتا حکومت کو برخواست کرکے بنگال میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔
پچھلے دس برسوں میں نریندر مودی اور امیت شاہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن وہ ممتا کے راج سنگھاسن کو نہیں ہلا سکے۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ان کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی ترنمول کانگریس کو ۲۰۱۶ء سے بھی زیادہ بھاری اکثریت حاصل ہوگئی اور دیدی نے وزیر اعلیٰ بننے کا ہیٹ ٹرک مکمل کرلیا۔ابھی چند ماہ قبل وزیر اعظم کے دعوؤں اور گودی میڈیا کے ایگزٹ پولز کو غلط ثابت کرکے ممتا کی پارٹی نے بی جے پی کو زور کا جھٹکا دیا اور لوک سبھا کی ۲۹؍ سیٹیں جیت لیں ۔
بی جے پی اور گودی میڈیا لوک سبھا نتائج کے اعلان کے بعد سے تلملایا ہوا تھا۔ ۹؍ اگست کو کلکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں جب ایک جونیئر ڈاکٹر کے ہولناک ریپ اور مرڈرکا واقعہ سامنے آیا تو بی جے پی کے لیڈروں نے اسے اچکنے میں دیر نہ کی کیونکہ انہیں لگا کہ جس ممتا کو وہ جمہوری طریقے سے اب تک نہیں ہراسکے ہیں اسے محاذ آرائی کے ذریعہ اقتدار سے ہٹاسکتے ہیں ۔ بی جے پی کو ممتا سے پنجہ لڑانے کا حوصلہ اس لئے بھی ملا کیونکہ پچھلے تین ہفتوں سے بنگال میں سیاسی ہوا الٹی چلنے لگی ہے۔ہر روز حکمراں ترنمول کانگریس کے خلاف عوام کی برہمی میں اضافہ ہورہا ہے اور وزیر اعلیٰ کی مقبولیت کم ہورہی ہے۔ اپنی ۲۶؍ سالہ تاریخ میں ترنمول کانگریس کو بلاشبہ اتنے بڑے بحران کا سامنا پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔
اس بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی ممتاحکومت کی برطرفی کے اپنے مشن پر مستعدی سے کام کرنے لگی ہے۔ ۲۷؍ اگست کے دن نبانہ(ریاستی سکریٹریٹ)کے محاصرے کی کوشش ممتا حکومت کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ اس مارچ کا اعلان چھاتر سماج نام کی تنظیم نے کیا تھا لیکن اس میں شامل ادھیڑ عمر کے لوگوں کو دیکھ کر واضح ہوگیا کہ وہ اور چاہے جو بھی ہوں اسٹوڈنٹس تو ہرگز نہیں تھے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن قبل جنمی چھاتر سماج تنظیم کے لیڈروں نے پریس کے سامنے جب یہ اعتراف کیا کہ ان کا تعلق آر ایس ایس اور بی جے پی سے ہے تو بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ نبانہ مارچ کے دوسرے ہی دن صوبے میں بارہ گھنٹے کی ہڑتال کراکے بی جے پی نے شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ممتا پر چاروں طرف سے دباؤ بڑھانے کی بی جے پی کی کوششوں کوراشٹرپتی بھون سے بھی بڑی مدد ملی۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا کلکتہ ریپ کیس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا وزیر اعلیٰ بنرجی کیلئے ایک تازیانہ تھا۔ گورنر آنند بوس نے جو دلی کے چکر لگاکر امیت شاہ کو کلکتہ کی ایک ایک پل کی رپورٹ دے رہے ہیں ، دعویٰ کیاہے کہ’’ممتا کے خاتمے کی شروعات‘‘ ہوگئی ہے۔ سی بی آئی اور دیگر مرکزی ایجنسیاں بھی ممتا حکومت کو گھیرنے میں لگی ہیں ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی ممتا حکومت کو بار بار پسپائی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ممتا کا یہ اندیشہ درست ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی خاطر بی جے پی بنگال میں تشدد، انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے لئے زیادہ بڑی پریشانی یہ ہے کہ صوبے کے عوام ان سے بھڑک گئے ہیں ۔وہ لاتعداد دانشور، صحافی، فنکار، گلوکاراور تعلیم یافتہ پروفیشنل جن کی مدد اور حمایت سے ممتا ۲۰۱۱ء میں بایاں محاذ کی ۳۴؍سالہ حکمرانی ختم کرکے اقتدار میں آئی تھیں ، آج ان کے مخالف ہوچکے ہیں ۔آج مغربی بنگال کی سول سوسائٹی حکومت کے خلاف سرتاپا احتجاج ہے۔
سیاست کی بساط پر رانی کو بچانے کی خاطر پیادوں کو خوشی خوشی قربان کردینا چاہئے۔لیکن لگتا ہے ممتا نے ایک پیادے کو بچانے کے لئے اپنی سلطنت داؤ پر لگادی ہے۔ زیادہ تر غلطیاں اور کوتاہیاں پولیس اور اسپتال انتظامیہ نے کیں لیکن ان کا خمیازہ وزیر اعلیٰ کو صر ف اس لئے بھگتنا پڑرہا ہے کیونکہ انہوں نے بھی ایک غلطی کر دی تھی: پرنسپل سندیپ گھوش کو برخواست یا برطرف کرنے کے بجائے انہیں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں ٹرانسفر کردیا تھا۔ پیر کے دن سی بی آئی کے ہاتھوں گھوش کی گرفتاری سے ممتا کی ہزیمت اور مصیبت میں مزید اضافہ ہوگیا۔
۲۰۰۷ء میں نندی گرام میں پولیس فائرنگ میں چودہ کسانوں کی ہلاکتوں کے بعد بھی بنگال میں احتجاج ہوئے تھے لیکن ان میں یہ شدت نہیں تھی اور نہ ہی ان کا سلسلہ زیادہ دنوں تک چلا تھا۔وزیر اعلیٰ بدھادیب بھٹاچاریہ نے اس واقعے کے بعد بھی چار سال تک حکومت کی تھی۔ آر جی کار واقعے پر بڑھتے عوامی غم و غصے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر بنگال میں اسمبلی الیکشن ۲۰۲۶ء کے بجائے چند ہفتوں کے اندر منعقد کرائے جائیں تو ترنمول کا نگریس کی اقتدار میں واپسی ممکن نہیں ہوسکے گی۔
یہ بھی پڑھئے :شاہین بہت ہیں منزل کا پتہ نہیں
اتنے بڑے بحران کا مقابلہ کرنے میں ممتا لڑکھڑاتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ ممتا بلاشبہ ایک بہترین مقرر ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتی ہیں کہ کب نہیں بولنا ہے۔ انہوں نے شاید ’’ایک خاموشی ہزار بلاؤں کو ٹالتی ہے‘‘ والی کہاوت بھی نہیں سنی ہے۔ اس لئے آ ر جی کار واقعے پر وہ جب بھی اپنی سرکار کا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو معاملہ اور زیادہ الجھ جاتا ہے۔ کبھی وہ ڈاکٹربرادری کو دھمکا تی نظر آتی ہیں توکبھی یہ دعویٰ کرتی کہ ان کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے ورنہ وہ بے حد تباہ کن رخ اختیار کرلیں گی۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کو بھی وہ جس جارحانہ انداز میں للکار رہی ہیں وہ بھی ان کیلئے مزید نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس وقت وہ طوفان میں گھری ہیں ۔ انہیں چپ چاپ طوفان کے گزرجانے کا انتظار کرنا چاہئے۔ یہ جذباتیت اور جارحیت سے گریز کرنے کا وقت ہے۔ ممتا کے لب و لہجے سے جھلکتی رعونت سے لگتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کررہی ہیں :’’ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘ان کے اس رویے سے عوام مزید ناراض ہورہے ہیں ۔ دیدی کو چاہئے کہ اپنے انداز تکلم میں نرمی پیدا کریں ، اپنا لب و لہجہ درست اور ہمدردانہ کریں اورلوگوں خصوصاً خواتین کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھائیں ۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ صوبے کے عوام سے براہ راست مخاطب ہوکر یہ کہیں کہ اس حساس معاملے کو ہینڈل کرنے میں اگر ان کی حکومت سے کوئی کوتاہی یا غفلت ہوگئی ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس کیلئے خلوص دل سے معافی کی طلبگار ہیں ۔