یہ بھی سچ ہے کہ جب سے کملا ہیرس امریکی صدر کے طور پر امیدوار چنی گئی ہیںتب سے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ہلچل ہوئی ہے۔
EPAPER
Updated: August 27, 2024, 1:27 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
یہ بھی سچ ہے کہ جب سے کملا ہیرس امریکی صدر کے طور پر امیدوار چنی گئی ہیںتب سے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ہلچل ہوئی ہے۔
کچھ دنوں سے ایک سروے میں کہا جا رہا ہے کہ جب سے کملا ہیرس امریکہ کی صدر کی امیدوار بنائی گئی ہیں ، تب سے وہ ٹرمپ سے بہت آگے ہیں ۔ویسے اس سروے پر ہندوستانی میڈیا میں بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ اس سروے کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا،امریکہ میں دو ہی سیاسی پارٹیاں ہیں ، ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ ۔ اب ظاہر ہے کہ جہاں جہاں ڈیمو کریٹ مقبول ہیں وہاں ٹرمپ کملا ہیرس سے پیچھے ہی ہونگے۔ دونوں پارٹیوں میں کچھ حد تک مماثلت ہے لیکن دونوں پارٹیاں نظریاتی طور پر الگ ہیں ، ڈیموکریٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی حد تک بائیں بازو کی طرف جھکے ہوئے ہیں ، ریپبلکن دائیں بازو کی طرف جھکے ہوتے ہیں ۔اگر امریکی انتخابات پرایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ میں زیادہ ترریپبلکن صدر ہی منتخب ہوئے ہیں ، ڈیموکریٹ صدور کی بات کی جائے تو بل کلٹن اوربارک اوبامہ ہی تھے، ان میں بھی بارک اوبامہ زیادہ پسند کئے گئے ہیں ۔یاد رہے کہ بائیڈن بھی ڈیموکریٹ صدر ہیں ۔
یہ بھی سچ ہے کہ جب سے کملا ہیرس امریکی صدر کے طور پر امیدوار چنی گئی ہیں تب سے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ہلچل ہوئی ہے، حالانکہ کملا ہیرس جوبائیڈن کی نائب تھیں لیکن بائیڈن نے کبھی ان کو کام کرنے ہی نہیں دیا، کملاہیرس کا امیج یوں بھی کافی اچھا تھا۔وہ ایک ذہین عورت ہیں ، ڈیموکریٹ چاہتے تھے کہ بائیڈن یہ منصب چھوڑ دیں ، بائیڈن نے یہی کیا بلکہ ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس منصب کو بہ رضا و رغبت چھوڑ دیں ، آخر کار انہوں نے بطور صدر اپنی امیدواری سے نام واپس لے لیا۔
کملا ہیرس کےبارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ وہ شاندار شخصیت ہیں ۔ انہوں نے شادی ایک یہودی سے کی ہے۔ امریکہ میں امیدواروں کی خانگی زندگی پر بہت زور نہیں دیا جاتا ۔لیکن جیسا کہ ہم ان کالموں میں پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکی سیاست کی زمین پر ٹرمپ ہیرس سے بہت آگے ہیں ۔ ٹرمپ کے آگے ہونے کی وجہ کوئی ان کا اچھا امیج نہیں ہے، ان کی زندگی بہت متنازع رہی ہے ، وہ ٹیکس کے ایک معاملے میں الجھے ہوئے ہیں ۔ان کی نجی زندگی بھی بے عیب نہیں ہے۔ یہ سب باتیں بھی ہیں لیکن کچھ دوسرے پہلوؤں سے بھی انہیں دیکھا جاسکتا ہے، مثلاً یہ کہ انہیں ہلاک بھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔دنیا نے دیکھا تھا کہ ان کے کان کے اوپر گولی لگی تھی ۔ ایک شخص نے ان کی جان لینے کی کوشش کی تھی ۔یہ بھی ایک بات ہے کہ سا را امریکہ یہ کہے کہ ٹرمپ میں تبدیلی آئے گی تو ہمیں ایسا نہیں لگتا، لیکن جہاں تک امریکی پالیسیوں کا تعلق ہے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ ٹرمپ اس وقت اس لئے بھی بائیڈن سے آگے نہیں ہیں کہ امریکہ کو ان سے کوئی خاص ہمدردی ہے۔ پچھلےالیکشن میں جب انہیں ٹرمپ پر فتح حاصل ہوئی تھی تو صرف امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں یہ سمجھا جا رہاتھا کہ بائیڈن ایسی پالیسی لائیں گے جو امریکیوں کیلئے مفید ہوں گی۔ لیکن بائیڈن نے اس معاملہ میں امریکیوں کو بہت مایوس کیا۔ بائیڈن نے ابتدائی سال بھر کے بعد ایسی منفی پالیسی اپنائی کہ امریکیوں کوساری دنیا میں بدنام ہونا پڑا۔ یہ ابھی کل کی بات ہے، بہت پرانی نہیں ہوئی ہے۔
غزہ کی بات لے لیجئے، اسرائیل خاص طور پر بنجامین نیتن یاہو کے بارے میں بائیڈن کی پالیسی بہت گو مگو قسم کی رہی ہے۔ بارک اوبامہ تو نیتن یاہو کو اپنے منہ نہیں لگانا چاہتے تھے پھر بھی کئی بار نیتن یاہو کو دنیا کے کئی پلیٹ فارموں پربہت سخت و سست کہا تھا۔ بائیڈن بھی یاہو کو دل سے پسند نہیں کرتے تھے، کہتے ہیں کچھ روز پہلے انہوں نے یاہو کو فون پر’شٹ اپ‘ بھی کہا تھا، لیکن جب اسرائیل کیلئے کوئی سوال اٹھتا تھا تو بائیڈن خاموش ہو جاتے تھے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کےایک معاملہ کی بات ہی کو لے لیجئے، جب اقوام متحدہ نے انٹر نیشنل کورٹ سے نیتن یاہو کوبین الاقوامی مجرم قرار دیا تھا تو وہاں یاہو کے خلاف ایک تجویز لائی گئی، بائیڈن نے شروع میں ہی کوشش کی کہ اس تجویز میں حماس کی دہشت گردی کا ذکر نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس تجویز کو ویٹو کرنا چاہا تو انہیں محسوس ہوا کہ اس وقت روس اور چین پوری طرح سے فلسطین کے ساتھ ہیں اس لئےاگر انہوں نے ویٹو کیا تو عین ممکن ہے کہ نہ صرف یہ کہ روس اور چین اس ویٹو کو نہ مانیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی اس سے بھی بڑی تجویز لے آئیں ، بائیڈن نے ویٹو تو نہیں کیالیکن اسرائیل کے خلاف کو ئی بیان بھی نہیں دیا، بائیڈن کو جب یہ معلوم ہوا کہ غزہ میں جنگ کیلئےامریکہ اور دنیا میں بہت غصہ ہے، امریکہ میں تو یہودی گروپ بھی نیتن یاہو کے خلاف ہیں ،تو بائیڈن نے اپنے قدم واپس لے لئے، یہی نہیں بائیڈن نے کبھی غزہ میں اسرائیلیوں کی راکٹ بمبار کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، اس کے بجائے وہ اسرائیل کی مالی مدد کرتے رہے، بائیڈن نے غزہ کے اسپتالوں اور نہتے فلسطینیوں کو شہیدکرنے والی اسرائیلی سفاکی کے خلاف منہ نہیں کھولا۔
یہ بھی پڑھئے : کیا پارلیمانی انتخابات میں حقیقی عوامی فیصلہ چرایا گیا ؟
ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کے طرفدار نہیں ہیں ، لیکن وہ کسی بڑی لڑائی سے خائف ہیں ۔ انہیں خبر ہےکہ جنگ اگر آگے بڑھی توکہیں ایسا نہ ہو کہ صرف امریکہ ہی میدان میں کود نہ پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنگ آگے بڑھی توروس بھی اپنے تئیں جنگ میں حصہ نہ لینےلگے، روس شام میں ایسا کر بھی چکا ہے، اس لئے ٹرمپ چاہتے ہیں کہ جنگ یہیں پر رک جائے یعنی ایک زمانہ تھا کہ جب ٹرمپ سعودی عرب کے محمد بن سلمان کے بہت قریب آگئے تھے، اسی زمانہ میں ٹرمپ نے ایک فارمولہ بھی نکالا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اسرائیل اور سعودی عرب دوست بن جائیں مگر وہ دور بیت گیا۔یہی نہیں ٹرمپ یوکرین کی جنگ سے بھی گریزاں ہیں ، وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ جیت بھی گئے تو وہائٹ ہاؤس جشن سے پہلے ہی امداد روک دیگا، امریکہ کوویسے بھی یوکرین جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہمیں کملا ہیرس سے بہت ہمدردی ہے، ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ۔ لیکن امریکہ کی سرکار چننا تو امریکیوں کا کام ہے، ہم تو بس دعائیں دے سکتے ہیں سو وہ ہم کریں گے۔