• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنڈے اسپیشل : قتل کے مجرم بی جے پی لیڈر کی سزا معاف لیکن عمر خالد کو ضمانت تک نہیں! ایسا کیوں؟

Updated: August 04, 2024, 4:35 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں، ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Umar Khalid, a brilliant student of JNU, who is enduring the hardships of prison instead of research. Photo: INN
جے این یو کا ہونہار طالب علم عمر خالد جو ریسرچ کے بجائے جیل کی صعوبتیں برداشت کررہا ہے۔ تصویر : آئی این این

یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے


یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی کا حصہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے دبا کر رکھا جائے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے۔ ایک پالیسی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری بنادیا جائے۔ اسی کے تحت ماب لنچنگ ہوتا ہے، لو جہاد کے نام پر پریشان کیا جاتا ہے، کاروباریوں کو کاروبار سے محروم کرنے کی سازش رچی جاتی ہے، کئی جگہوں پرمسلمانوں کو فلیٹ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور کچھ نہیں ملا تو گائے کے گوشت کا الزام عائد کرکے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ اسی سازش کا حصہ ہے کہ ’اپنے‘ مجرموں کو بچایا جاتا ہے اور عمر خالد جیسے نوجوانوں کی راہ میں کچھ اس طرح رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ اسےضمانت تک نہیں مل پارہی ہے۔ میرا روڈ کے ہنگاموں میں مسلم لڑکوں کو پکڑا گیا، انہیں بھی ضمانت نہیں مل رہی ہے لیکن تشدد کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ دراصل ایک بڑی سازش کا حصہ لگ رہا ہے۔ 
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانہ)
 ہر شہری کیلئے یکساں انصاف کا نظام ہونا چاہئے
 بی جے پی کے لیڈر کی سزا معاف اور عمر خالد کو ضمانت نہ ملنے کے واقعات نے انصاف کے نظام پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ بی جے پی لیڈر کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود رعایت دی گئی جبکہ عمر خالد کو جو کہ ایک معروف سماجی کارکن اور طالب علم ہیں، ضمانت تک نہیں دی جارہی ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ملک کے قانونی نظام میں سیاسی اثر و رسوخ کس حد تک موجود ہے اور اس کا استعمال کس طرح کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار ہونا چا ہئے تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ اگر سیاسی شخصیات کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جائے گا اور سماجی کارکنوں کو سزا دی جائے گی تو یہ انصاف نہیں کہلائے گا۔ ایسے معاملات میں، قانونی نظام کو مکمل شفافیت اور غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ انصاف ہر شہری کو یکساں طور پر مل سکے۔ یہ معاملات اس بات کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد رہنے کیلئے مزید مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔ 
آصف اقبال انصاری (پتہ نہیں لکھا)
 نظام کے متعصب ہونے کا ایک واضح ثبوت


 عمر خالد کو تاریخ پے تاریخ مل رہی ہے۔ اگلی سماعت ۲۹؍ اگست کی ملی ہے۔ اسے دہلی فساد کے بعد ستمبر۲۰۲۰ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہے۔ دوسری طرف رکن اسمبلی جواہر پنڈت کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والا اودے بھان صرف ۸؍ سال میں رہا کردیا گیا۔ یوپی حکومت کی سفارش پر گورنر نے اس کی سزا معاف کر دی۔ ادئے بھان بھی بی جے پی کا سابق ایم ایل اے ہے۔ یہ نظام کے متعصب ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے جہاں ایک نوجوان کو مختلف الزامات کے تحت جیل میں رکھا جاتا ہے جبکہ ایک قاتل کو جس کا جرم ثابت ہوچکا ہے، رہا کردیا جاتا ہے۔ ملک کے اس نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ہی عوام نے اس مرتبہ حزب اختلاف کے نمائندوں کو بڑی تعداد میں لوک سبھا میں بھیجا ہے۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ لوگ وہاں کیا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں کس طرح نبھاتے ہیں۔ 
عبدالرحمان یوسف (سبکدوش معلم، بھیونڈی)
یہاں جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا معاملہ ہے
  اب یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ بی جے پی ایک واشنگ مشین ہے جہاں پہنچتے ہی لوگوں کی خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی سزا سے بچنے کیلئے بی جے پی سے وابستگی اب ضروری ہوگئی ہے۔ اب ایسے میں عمر خالد جو کہ مسلمان ہے، وہ اتنی جلدی جیسے رہا ہوسکتا ہے؟ اس شخص کی صلاحیت تو پورے ملک نے ’سی اے اے‘ جیسے کالے قانون کے خلاف دیکھی تھی۔ اس کی تقریریں اس قدر متاثر کن تھیں کہ پورے ملک میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے نعرے نقل ہونے لگے تھے۔ لوگوں کو مستقبل قریب میں ایک لڑنے والا لیڈر دکھائی دینےلگا تھا، اسلئے اس کا مستقبل خراب کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ مجھے تو حیرت تب ہوئی جب کنہیا کمار جیسا لیڈر بھی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ہی اپنے ساتھی عمر خالد کا نام لینا بھول گیا۔ ابھی حال ہی میں ایک جج موصوف نے اس کیس سے علاحدگی اختیار کر کے ضمانت کے معاملے کو اور ٹال دیا۔ ان باتوں سے یہی کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔ 
ابو شمیل راجہ(اسلام آباد، مالیگاؤں )
 بی جے پی سے آزادی ضروری ہے


بات ۱۹۹۶ء کی ہے۔ الہ آباد میں بی جے پی کے بدمعاش نیتا اودے بھان کروریا نے سماج وادی پارٹی کے نیتاجواہر پنڈت کو سر عام قتل کردیا تھا۔ عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی مگر یوگی سرکار کی سفارش پر گورنر نے اسے رہا کردیا۔ ملک کا نظام دیکھئے کہ اس قدر سفاک مجرم کو رہائی مل جارہی ہے لیکن ایک نوجوان ’عمر خالد‘ کو ضمانت تک نہیں مل پارہی ہے جس کے خلاف پولیس ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بتا سکی ہے۔ غنڈوں کو رِہا کرنا اور مسلم نوجوانوں کو جیل میں ٹھونسنے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ مودی سرکار میں اس سے پہلے امر منی ترپاٹھی، بہار کے آنند موہن اور اب اودے بھان کو جیل سے آزادی مل چکی ہے۔ ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی سے دستبرداری کے بعد ہی ملک میں امن و سکون کے ماحول کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ سرکار نیتاؤں کے رحم و کرم پر ہے، اسلئے ان کی خطاؤں کو درگزر کررہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’مغل انتظامیہ کے تحت مندروں کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا اور دیکھ بھال میں تعاون بھی‘‘

 محمد عظیم بہرائچ( دار النور، کاشی پٹنہ، کرناٹک)
مقننہ اور عاملہ کے ساتھ ہی کئی معاملات میں عدلیہ کا رویہ بھی مسلمانوں کیلئے اچھا نہیں ہوتا


 بات صرف عمر خالد تک ہی محدود نہیں۔ ایسے کئی مسلم چہرے مثلاً شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی، میرن حیدر، ابوبکراور پروفیسر پی کو یا وغیرہ اَن گنت نام ہیں جو گزشتہ کئی سال سے بغیر ٹرائل کے جیل میں ہیں اورجمہوریت کے تینوں ستونوں کی جانب سے امتیازی سلوک کے شکار ہیں۔ ان حالات کا سہرا بی جے پی حکومتوں کے سر بندھتا ہے۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ 
  مقننہ اور عاملہ کا تو خیر سمجھے، عدالت نے انہیں خود پنجرے کا طوطے قرار دیا ہے، لیکن عدلیہ سے ہمیں یہ امید نہیں تھی۔ ایسے کئی فیصلے عدلیہ نے بھی دئیے ہیں کہ ہر ذی عقل انگشت بدنداں ہے۔ خواہ بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا معاملہ ہویا مسجد کی شہادت کا معاملہ ہو۔ گجرات فساد کے مجرمین کی رہائی کا معاملہ ہو یا پھر بلقیس بانو کے مجرمین اور اس کے خاندان کے کئی لوگوں کا اسی کے سامنے بے دردی سے قتل کرنے والوں کو عمر قید کی سزا دینا اور ممبئی فسادات کے مجرمین کو پھانسی پر لٹکانا ہو۔ کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو تین سال تک جیل میں رکھنا اور ارنب گوسوامی کو فوری طورپر ضمانت دینا..... ایسے کئی معاملات ہیں جہاں عدالت نے بھی مایوس کیا ہے۔ یہ سب اسلئے ہو رہا ہے کہ ہم نے مذہب کو مساجد تک محدود کردیا ہے۔ زکوٰۃ کے اصل فلسفے کو نہیں سمجھا۔ تعلیم و تربیت کو حاشیے پر ڈال رکھا ہے۔ ہم شادیوں میں قرض لے کر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں اور تعلیم کیلئے امدادی اداروں کی تلاش کرتے ہیں۔ ہم گلی سے دہلی تک سیاست میں اتحاد پر بات کرتے ہیں لیکن مسلکی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔ ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہم پوری طرح سے شریعت محمدی پر عمل کریں ۔ بھوکے پیاسے رہ کر اپنی نسل کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے انہیں تیار کروائیں تا کہ ان تینوں جمہوری ستونوں میں ہماری نمائندگی خاطر خواہ ہو۔ ورنہ ہمارے لئے اسی طرح ٹاڈا، پوٹا، مکوکا اور یو اے پی اے بنتے رہیں گے۔ 
عبدالحمید افضل(ڈائریکٹر: جے ایم سی ٹی سول سروسیز اکیڈمی، ناسک)
یہ مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کی ایک بڑ ی سازش ہے


  عمر قید کی سزا کاٹنے والے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے اودے بھان کروریا کو گزشتہ دنوں رہا کر دیا گیا۔ اس کیلئے یوپی حکومت نے جیل میں ’اچھے برتاؤ‘ کی بنیاد پر گورنر سے سزا معاف کرنے کی سفارش کی تھی۔ جیل سے باہر آتے ہی اس کے حامیوں نے پھولوں کا ہار پہنا کر اس کا ویسا ہی استقبال کیا، جیسا بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی کے بعد کیا گیا تھا۔ دوسری جانب عمر خالد کی رہائی تو دور کی بات، اس کی ضمانت کی سماعت بھی بار بار ملتوی کی جا رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا مقصدمسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کی کوشش ہے اور جو اعلیٰ تعلیم سے سرفراز ہو چکے ہیں، انہیں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہونے سے دور رکھنے کی سازش ہے۔ 
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر `ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
’’ تمہاری آزمائش ضرور کریں گے‘‘


 موجودہ حکومت نے اپنی غلطیوں اور گناہوں پر ہمیشہ ہی سے پردہ پوشی کی ہے کیونکہ یہی اِس کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ بھگوڑوں کو اعزازاور قاتلوں کو مسندملتا ہے، جنہیں داغدار کہتے ہیں، وہی اُن کی پارٹی میں جاتے ہی نیک نام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اِن سازشوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے عمر خالد اور شرجیل امام جیسے لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ وہ ایک کیس سےبری ہوتے ہیں تو دوسرے کیس میں ماخوذ کردیا جاتا ہے۔ یہ آزمائش ہے جن سے مسلمانوں کو گزرنا ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہےکہ’’ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے۔ ‘‘
عبدالحمید انعامدار ( پونے)
یہ ملک کے جمہوری اقدارپر سوالیہ نشان ہے
 یہ ستم ظریفی ہے کہ’سی اے اے‘ کے خلاف شاہین باغ تحریک میں شامل کئی افراد جن میں جے این یو لیڈر عمر خالد بھی ہیں، آج سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ دہلی فساد میں ماخوذ کر کے ان پر’ یو اے پی اے‘ جیسا سخت قانون لگا دیا ہے۔ سیشن کورٹ، دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ان کی ضمانت پر بھی سماعت نہیں ہوپارہی ہے۔ یہ ملک کے جمہوری اقدارپر سوالیہ نشان ہے۔ 
سید معین الحسن انجینئر(ویمان نگر، پونے)
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

 


آج کی تاریخ میں ہندوستانی مسلمان اور حکمراں جماعت سے وابستہ لوگوں پر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر’’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام :وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘ پوری طرح صادق آتا ہے۔ اس کے باوجود ہم متحد ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی اِسی کمزوری کا فائدہ شدّت پسندتنظیمیں اٹھاتی ہیں۔ اپنوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنااور انہیں قانونی مدد فراہم کرنا جبکہ مسلمانوں کو بلا جواز جیل کی چار دیواری میں دھکیلنا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سنڈے اسپیشل: کیا یوگی کو ہٹایا جائے گا؟ اس میں بی جے پی کا کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟

محمد سلمان شیخ (امانی شاہ تکیہ، بھیونڈی)
انصاف کہیں کھوگیا ہے 
 عمر خالد کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک تصویر ابھر کر سامنے آ تی ہے۔ ایک سچے محب وطن، مظلوموں کے ہمدرد، بے باک، نڈر اور باہمت نوجوان کی جس نے حق کیلئے آ واز اٹھائی تو اسے زد و کوب کیا گیا، اس کی آ واز کو دبایا گیا، ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی اورجیل میں ڈال دیا گیا۔ عمر خالد کی رہائی تو دور کی بات، اس کی ضمانت کیلئےتاریخ پہ تاریخ مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسےکتنے سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہناہوگا؟ انصاف کے دروازے تک اسے کیوں نہیں پہنچنے دیا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے۔ اس نے بے باکی کا مظاہرہ کیا اور حق کیلئے اواز اٹھائی۔ اگر وہ بھی حکمراں جماعت سے قربت اختیا ر کرلیتا تو کسی ایوان کا ممبرہوتا۔ اودے بھان کروریا کو ہی دیکھ لیجئے۔ قتل کا مجرم ہے، عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا لیکن رہا کردیا گیا۔ ایسا اسلئے ہوا کہ اس کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے۔ 
  یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بے گناہ نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹیں اور مجرمانہ طبیعت کے لوگ کھلی فضا میں آزاد گھومیں ؟ کہاں ہے قانون؟ کہاں ہے سپریم کورٹ؟ اور کہاں ہیں وہ سیکولر پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں کی دعویداری کرتی ہیں لیکن مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتی ہیں ؟
صغیرہ کوثر حبیب شیخ ( معاون معلمہ، بھیونڈی )
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا


 ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے ملک میں اقلیتوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوگیا‌ ہے۔ مسلمان اورعام آدمی کی بات جانے دیں، حکومت کے رویے سے پریشان سپریم کورٹ کے ججوں تک کو مظاہرہ (پریس کانفرنس) کرنا پڑا تھا۔ ججوں نے بھی ناانصافی کی شکایت کی تھی۔ دراصل یہ وہی حالات ہیں کہ عدالتیں کسی مجرم کو جیل بھیجتی ہیں تو سرکار کی مدد سے وہ باہر آجاتے ہیں اور اکثریتی سماج پھول اور ہار سے ان کااستقبال کرتا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ صورتحال ہے وہیں دوسری طرف عمر خالد جیسے نوجوان برسوں سے جیل میں پڑے رہتے ہیں، ان کی ضمانت تک نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں راحت صاحب کا ایک شعر یاد آتا ہے۔ 
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا:یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
محمد زیان کریمی (عثمانیہ پارک، جلگاؤں )
 انصاف اب ’آخری عدالت‘ میں ملے گا


 ہم آج فائیو ٹریلین کی اکنامی اور فائیو جی‘ کے تیز رفتار زمانے میں جی رہے ہیں لیکن آج بھی ہم سبھی اسی ’وِچاردھار‘ کی حکمرانی میں ہیں جس میں جدیدیت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس تعصب بھری سوچ کی وجہ ہی سے عمر خالد کو ضمانت نہیں مل پا رہی ہے ایسے میں ہمیں دنیاوی عدالتوں سے نہیں ’آخری عدالت ‘ سے انصاف کی امید ہے۔ 
ہاشمی ابوالاعلیٰ ( نیا پورہ، مالیگاؤں )
قانون کی خامیوں کو دورکرنے کی ضرورت ہے


 کہا جاتا ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے قانون سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ پاتے۔ کسی مجرم کو رہائی مل جانا اور کسی ایسے شخص کو جس پر جرم ثابت نہیں ہوا ہے، ضمانت تک نہ ملنا، یہی ظاہر کرتا ہےکہ قانون میں خامیاں ہیں جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پارک، شیل تھانے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK