مشہور امریکی یونیورسٹی ’روٹگرس‘ میں تاریخ کی پروفیسر ’آڈری ٹرشکے‘ نے اپنی کتاب ’اورنگ زیب: دی مین اینڈ دی متھ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’وہ صرف ایک بادشاہ ہی نہیں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ایک انسان بھی تھا۔‘‘
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 3:55 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
مشہور امریکی یونیورسٹی ’روٹگرس‘ میں تاریخ کی پروفیسر ’آڈری ٹرشکے‘ نے اپنی کتاب ’اورنگ زیب: دی مین اینڈ دی متھ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’وہ صرف ایک بادشاہ ہی نہیں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ایک انسان بھی تھا۔‘‘
آڈری ٹُرشکے، روٹگرس یونیورسٹی امریکہ میں تاریخ کی پروفیسرہیں۔ برصغیر کی تاریخ کے گہرے مطالعے کی خاطر انھوں نے سنسکرت اور فارسی زبانیں سیکھیں۔ تین پُرمغز کتابوں کی تصنیف کا کام کیا اور اسکالروں میں اپنا مقام بنایا۔ ۲۰۱۷ میں اُن کی کتاب’اورنگ زیب:دی مین اینڈ دی متھ‘ یعنی ’اورنگ زیب: ایک شخص اور فرضی قصے‘ منظر عام پر آئی۔ مشکل اور متنازع موضوع پر یہ کارِ وحشت، آڈری کیلئے وجہ شہرت بنا۔
دلائل کے ساتھ تنقید میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔ کوئی سچا عالم اپنے کو تنقید سے مُبرّا نہیں سمجھتا لیکن اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ای۔ بھیڑیوں کا ایک جُھنڈ، آڈری پر پِل پڑا۔ دیکھا دیکھی حقیقی دنیا کے بھکتوں نے بھی یلغار کردی۔ طوفانِ بدتمیزی بپا ہوا۔ لیکچروں کے دوران زبانی حملے کئے گئے۔ کچھ جگہوں پر منتظمین کو اُن کے پروگرام منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ روٹگرس یونیورسٹی پر اُن کی برخواستگی کیلئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ میں مقدمہ دائر کیا گیا لیکن فیصلہ آڈری کے حق میں آیا۔
تاریخ میں ہمیں کس اور نگ زیب کی تلاش ہے ؟ اس سے زیادہ مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ سوال یہ ہوگا کہ تاریخی ریکارڈ اور شواہد کا معروضی تجزیہ دراصل کس اورنگ زیب کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے؟ آڈری کے مطابق اورنگ زیب کی ہندو مخالف ہونے اور ہندوستان کو مندروں سے پاک کرنے کے عزائم رکھنے والے کی شبیہ، نوآبادیاتی دور کی تحریروں کے سبب بنی۔ جس کیلئے انگریزوں کے اپنے مقاصد تھے۔ ایک تو ہندو اور مسلمانوں میں مستقل نفرت پیدا کرنا اور دوسرے خود کو مغلوں کے مقابلے زیادہ وسیع النظر ثابت کرنا۔ آج کے دور میں دائیں بازو کی نفرتی سیاست، اس من گھڑت بیانیے کو خوب خوب فروغ دیتی ہے۔ کبھی چالاک دانشوری کے پیرہن میں نفاست سے اور کبھی جہالت کے رقصِ برہنہ کی ہُلڑ بازی کے ذریعہ۔
کتاب کیلئے مواد جمع کرتے وقت اپنی تحقیق کے دوران وہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ ہندوستان میں جگہ جگہ موجود مندروں میں سے صرف چند درجن کی مسماری شہنشاہ کے احکامات کے تحت ہوئی لیکن اس کی وجہ ہندوؤں سے نفرت تھی۔ اس نقطۂ نظر میں متعدد خامیاں ہیں۔ مُغل انتظامیہ کے تحت تمام مندروں کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا اور دیکھ بھال میں تعاون بھی لیکن مغلیہ دستور ہی کے مطابق، حکومت سے عدم وفاداری یا اس کے مفاد کی خلاف ورزی چند مخصوص بُت خانوں کو تحفظ و عنایات سے محروم کردیتی۔ چند اِستثنائی معاملات کے سوا، اپنی غیر مسلم رعایا کے معاملے میں اورنگ زیب مروجہ عام اسلامی اصولوں سے بھی کچھ زیادہ مہربان نظر آتا ہے۔ اورنگ زیب کا نظریۂ عدل و انصاف ساری رعایا کو ایک خاص درجے کی مذہبی آزادی فراہم کرتا تھا۔ اُس وقت کی یورپی بادشاہتوں کے مقابلے ہندوستان میں زیادہ مذہبی آزادی میسرتھی۔ اورنگ زیب کے دور میں بڑے پیمانے کی جبراً تبدیلئِ مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
ایک شاہی فرمان کے ذریعہ، بنارس کے مغل افسران کو غیرمسلموں کے مذہبی امور میں مداخلت سے اجتناب کی تاکید کی گئی تھی۔ ۱۶۵۹ء کے ایک فرمان کے مطابق گوہاٹی کےاُمانند مندر کو تفویض ِاراضی کی توثیق کی گئی۔ ۱۶۸۰ء میں رام جیون گوسائیں کو بنارس گھاٹوں کے قریب اراضی عطا کی گئی کہ برہمنوں اور سنیاسیوں کی رہائش کا انتظام کیا جائے۔ ۱۶۹۱ء میں چترکوٹ بالاجی مندر کی امداد کی خاطر آٹھ گاؤں اور محصول معاف زمینیں عطا کیں۔ اسی طرح کے عطیات کی فہرست طویل ہے۔ شیو بھکت جنگم ہندوؤں کی چھینی ہوئی زمینوں کی بحالی کے فرمان جاری کئے۔ ۱۶۷۲ء میں ایک جگہ پر مقامی مسلمان کی شرپسندی سے جنگموں کو نجات دلانے اور لئے گئے غیر قانونی کرائے کی واپسی کی کارروائی ہوئی۔ جین رعایا کے مقدس مقامات شترُنجئے، گِرنار اور کوہِ ابو پر زمین کے عطیات کے شواہد ملتے ہیں۔ اس دور کے جین مخطوطات میں اورنگ زیب کی تعریف ملتی ہے۔ عالمگیر کی وفات کے وقت بھی بے شمار ہندو اور جین منادر موجود تھے۔ حکومتِ عالمگیری میں ہندو اُمراء اور افسران کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ ۲۱؍ فی صد سے بڑھ کر یہ تعداد ۳۶؍ فیصد ہوگئی تھی۔ اعلیٰ افسران کا تناسب تو کُل مغل انتظامیہ کا ۵۰؍ فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ رگھوناتھ، شہنشاہ کا پسندیدہ افسر تھا۔ عالمگیر مرتے دم تک اُسکا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کیا کرتا تھا۔
عالمگیر کی موجودہ شبیہ حقیقت سے زیادہ فسانوں پر مبنی ہے۔ آڈری کہتی ہیں کہ تفصیلی تحقیق کی بنیاد پر، ہم اورنگ زیب کی شخصیت ایک ایسے شہزادے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو شاہی خاندان کی اُن حرکیات کے جال میں جکڑا ہوا تھا جنھوں نے اُس کی عمر کے ابتدائی سالوں کی صورتگری کی اور پھِر ایک گُرسِنگِ ارض، طاقت کے متلاشی اولوالعزم بادشاہ کے طور پر جس نے اپنے مخصوص نظریۂ عدل وانصاف کو ہمیشہ سینے سے لگائے رکھا۔
آڈری کی اس تحریر کا مقصد، عالمگیر کی شخصیت پر صدیوں سے چلی آرہی پُرتعصب خیال آرائیوں کی تردید اور اس کی حقیقی شبیہ کی تعمیرِ نو ہے۔ اُس کے مزاج میں مذہبی احکام پر عمل کے معاملے میں گہرا شوق موجود تھا۔ ذاتی زندگی پرہیزگاری سے عبارت تھی لیکن اکثر حکومت کے معاملات میں وہ اسلامی احکامات سے صرفِ نظر کر جاتا تھا۔ اُس کی جنگیں مذہبی بالکل نہ تھیں۔ مختلف افراد و گروہوں کے خلاف اُس کی کارروائیوں کی وجوہات بھی سیاسی تھیں جنہیں مذہبی منافرت کے رنگ میں پیش کیا گیا۔ یہ باتیں عوام کے ذہنوں پر ایک مسلمہ صداقت کی طرح چھا گئیں۔
یہ بھی پڑھئے:مُلک کے تعلیمی اور امتحانی نظام میں شفافیت لانے کیلئےعدلیہ کا کردار
علامہ اقبال نے عالمگیرکو ’براہیم اندروں بُتخانہ‘ کہا۔ ابنِ انشا نے طنز ومزاح کے تیر چھوڑے کہ اُس نے ایک نماز قضا نہ کی اور ایک بھائی کو زندہ نہ چھوڑا۔ خیر یہ تو شعرا اور ادباء کی باتیں تھیں۔ نامور مورخ جادو ناتھ سرکار نے اورنگ زیب کو متعصب شخص بتایا۔ پنڈت نہرو نے بھی اُسے، وقت کی گھڑی کو اُلٹا چلانے کی کوشش میں مغل سلطنت کے زوال کا سبب بننے والا، خشک مزاج دیندار بتایا۔
راقم اگر سوال کرے کہ اورنگ زیب پر تفتیش و تجزیے کیلئے، ایک اسکیل پر، کونسا نظریہ مناسب رہے گا ؟ مذاہب سےیکساں دوری رکھنے والا سیکولرازم، مذہب مخالف سیکولرازم، سادہ خدا ترس مذہبیت یا پھر متعصب مذہبی انتہا پسندی؟ آڈری کا جواب ہوگا کہ اورنگ زیب کو آج کے تمدنی معیارات کے پیمانوں پر مت ناپو۔ اُسی دور کے آئیڈیل اصولوں ، حالات اور معاصرین کے تقابل میں دیکھو۔
وہ صرف ایک بادشاہ ہی نہیں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ایک انسان بھی تھا۔ تقریباً نِصف صدی تک ہندوستان کے وسیع ترین رقبے کے شہنشاہ، اورنگ زیب کی زندگی کا بیشتر حصہ دکن میں گزرا۔ دکن کے سنگلاخ نشیب وفراز کی مانند شہنشاہ کی زندگی بھی کسی رولر کوسٹر کی سواری جیسی رہی۔ شہزادہ اورنگ زیب اور اُس کے بھائیوں دارا شکوہ، شجاع اور مراد کے درمیان اقتدار کیلئے کشمکش۔ شاہجہاں کو نظر بند کر کے خود کے اعلانِ شہنشاہی پر شریفِ مکّہ کی خفگی۔ مراٹھوں ، مارواڑی اور میواڑی راجپوتوں کے ساتھ تعلقات کی سردی گرمی۔ جِزیہ کے نفاذ، ہولی دیوالی اور عیدین کی تقریبات کو محدود کرنے کیلئے شہنشاہ کے فرمان۔ خود اپنے بیٹوں کی گوشمالی اور عمر کے آخر میں شہنشاہ کی مایوسی جیسی کتنی باریکیاں کتاب میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ عالمگیر کی ناکامیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ شہنشاہ کے سخت احکامات کےبرخلاف چند مغلیہ افسروں کی رشوت خوری جاری تھی۔ شاہراہوں پر مسافروں ڈاکو سرگرمِ عمل ہوئےجس پر عالمگیر شدید برہم ہوا تھا۔ دکن میں مسلسل مہم جوئی کے معاشی اثرات نے خزانے پر زبردست بوجھ ڈالا اور بالآخر بیٹوں میں اتحاد کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
کتاب، حیاتِ عالمگیر کے کچھ دلچسپ گوشوں کی معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ نوجوان اورنگ زیب کا ایک مدمست ہاتھی کو بھالے سے زخمی کرکے اپنی جان بچانا۔ ہیرا بائی نامی ایک رقاصّہ پر اورنگ زیب کی فریفتگی اور معاشقہ۔ تاجپوشی کی دونوں تقریبات کی دھوم دھام، شان وشوکت اور رونقیں ۔ شاہ کے ایک مُصاحب، کامگار خاں نے شکایت کی کہ فلاں شاعر مجھے طنزیہ شاعری کا ہدف کرتا ہے۔ بزمِ شہنشاہ میں اشعار کے دفتر کھولنے والے اُس سُخنور کے اندازِ ِ بیاں سے اورنگ زیب خوب واقف تھا۔ کہا وہ تو ما بدولت کو بھی نہیں بخشتا، نظر انداز کرو۔
اتنی مختصر کتاب کے ذریعہ آڈری، ذہنوں سے گردوغبار کو بآسانی صاف کردیتی ہیں۔ اُن کا اسلوب اورنگ زیب کے مزاج جیسا خشک نہیں لیکن تیور بالکل غیر معذرت خواہانہ ہیں۔ نسبتاً کم تجربہ کاری کے باوجود پروفیسر آڈری ٹُرشکے مطالعۂ تاریخ کے پیچیدہ اصولوں کو عام فہم انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس ہُنر پر یقیناً اکابر اساتذہ بھی محوِحیرت ہوں گے۔ ملک کے معروف مورخ ہربنس مُکھیا مصنفہ کی ایک دیگر کتاب کے متعلق کہتے ہیں کہ گہری تحقیق پر مبنی دلائل کے سبب وہ صاف طور پر تاریخِ عہدِ وسطیٰ کے ایک پیشہ ور ماہر کیلئے تھی جبکہ یہ کتاب اسکالروں کے ساتھ یکساں طور پر عام قاری کیلئے بھی ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ اقبال حُسین اور فہد ہاشمی نے کیا اور ایجوکیشنل بُک ہاؤس، دہلی نے شائع کیا ہے۔ راقم نے البتہ اصل انگریزی نُسخے کا لطف اُٹھایا اور اپنے علم میں اضافہ کیا۔