امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ ہر سال جاری ہوتی ہے اور اِدھر کئی برسوں سے اس میں ہندوستان کی گرفت کی جا رہی ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
EPAPER
Updated: March 30, 2025, 1:51 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ ہر سال جاری ہوتی ہے اور اِدھر کئی برسوں سے اس میں ہندوستان کی گرفت کی جا رہی ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) ہر سال اُن ملکوں کی نشاندہی کرتا ہے جہاں کی حکومتیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کو یاتو برداشت کرتی ہیں ( یعنی اُس سے چشم پوشی کرتی ہیں ) یا اس کا ساتھ دیتی ہیں ، اسے سپورٹ کرتی ہیں ۔ اس نشاندہی میں خاص طور پر اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کمیشن ایسے ملکوں کو جہاں اُسے خلاف ورزی ہوتی دکھائی دیتی ہے، ’’خصوصی تشویش کے ممالک‘‘ قرار دیتا ہے، اتنا ہی نہیں ، امریکی وزارت خارجہ کو اس بات کی سفارش کرتا ہے کہ اُن ملکوں کے افراد اور اداروں پر پابندی عائد کی جائے۔
اس سال جن ملکوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں افغانستان، برما، چین، کیوبا، اِریٹیریا، ہندوستان، نکاراگوا، نائجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ویتنام شامل ہیں ۔ اس فہرست میں ہندوستان کا نام پہلی مرتبہ ۲۰۲۰ء میں آیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال آتا ہے۔
۲۰۲۰ء کی رپورٹ میں کمیشن نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان میں مذہبی آزادی کے اُمور میں ۲۰۱۹ء میں بڑی خلاف ورزی دیکھی گئی، مرکزی حکومت نے پارلیمانی انتخابات میں حاصل ہوئی پہلے سے زیادہ طاقت کو ایسی قومی پالیسیاں وضع کرنے کے لئے استعمال کیا جن سے پورے ملک میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے بالخصو ص مسلمانوں کی۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی پالیسی اُن اقدامات میں دیکھی جاسکتی ہے جو شہریت سے متعلق قوانین، ذبیحہ سے متعلق اُمور، کشمیر اور تبدیلیٔ مذہب کے بارے میں کئے گئے۔ مذکورہ رپورٹ نے ایودھیا کے بارے میں فیصلے اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے طرز عمل کی بھی گرفت کی تھی۔ اتفاق کہ جب یہ رپورٹ جاری ہوئی، تب بھی امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہی تھے چنانچہ کمیشن نے صدر کو صلاح دی تھی کہ وہ ہندوستان کو ’’خصوصی تشویش کا ملک‘‘ قرار دیں کیونکہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون کی خلاف ورزی کے باوجود ہندوستان کی حکومت نے اسے روکنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ کمیشن نے پابندیاں لگانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
اس کے جواب میں ہماری حکومت نے جو کہا وہ کچھ اس طرح تھا: ’’کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ کو ہم مسترد کرتے ہیں ، ہندوستان کیخلاف اس کے متعصبانہ و جانبدارانہ تاثرات نئے نہیں ہیں لیکن اس بار اس کا لغو اور گمراہ کن طرز عمل نئی بلندی تک پہنچ گیا ہے، کمیشن نے اپنے ہی کمشنروں کے تحفظات کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ ہم اسے ایک ایسا ادارہ مانتے ہیں جو خود ہی خصوصی تشویش کے ذیل میں رکھا جانا چاہئے اور ہم ایسا ہی کرینگے۔‘‘
ہندوستان نے ملک میں جاری واقعات کے بارے میں جو الزامات تھے اُن میں سے کسی کا جواب نہیں دیا مگر ’’کمشنروں کے تحفظات‘‘ کی بات اُٹھائی۔ اس کا معاملہ یہ تھا کہ کمیشن نے دو اراکین (جو کمشنر کہلاتے ہیں ) گیری بائر اور تینزن دورجی کے انحرافی تاثرات کا اظہار کیا تھا جسے ’’انحرافی نوٹ‘‘ کہا جاتا ہے مگر وہ دیگر سات کمشنروں کے اس موقف کو بے بنیاد نہیں کہہ سکے تھے کہ ہندوستان کی صورت حال پریشانی کا باعث ہے ۔ ان کا صرف اتنا کہنا تھا کہ اسے خصوصی تشویش کے زمرے میں نہ ڈالا جائے۔
اس کے بعد کے سال (۲۰۲۱ء) میں کمیشن نے جو رپورٹ جاری کی اس میں گمراہ کن اور بے بنیاد خبروں اور نفرتی بیانات پر گرفت کی گئی جس کا سلسلہ کووڈ کے دور میں جاری تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک خاص پیٹرن کے تحت اوروں ہی نے نہیں سرکاری افسروں نے بھی اقلیتی فرقے کو ٹارگیٹ کیا۔ اِس سال کسی کمشنر نے انحرافی نوٹ نہیں دیا اور بعد کے برسوں میں بھی جب تک بائیڈن صدر رہے، کوئی انحرافی نوٹ نہیں تھا۔۲۰۲۱ء میں مرکزی حکومت نے رپورٹ میں درج اعتراضات کا جواب ہی نہیں دیا۔ تب ہی سے حکومت کا طرز عمل یہ ہے کہ کبھی تو جواب دے دیا اور کبھی جواب نہیں دیا بلکہ رپورٹ کو نظر انداز کردیا۔
۲۰۲۵ء کی رپورٹ میں ، جو کہ ۲۵؍ مارچ کو جاری کی گئی، مذکورہ کمیشن نے کہا کہ دیگر باتوں کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کو چاہئے کہ وکاس یادو اور ’’را‘‘ جیسے افراد اور ادارہ پر پابندی عائد کرے اور ان کی املاک کو منجمد کردے نیز امریکہ میں اُن کے داخلے پر پابندی لگائے کیونکہ ان کی جانب سے مذہبی آزادی (کے حق) کی کھلی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے اجراء کے چند ہی گھنٹوں میں ہماری وزارت خارجہ نے رپورٹ کو متعصبانہ اور سیاسی طور پر تحریک پائی ہوئی قرار دیا اور کہا کہ اس میں متفرق واقعات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ ہندوستان کے تکثیری سماج کے تعلق سے شک و شبہ پیدا کیا جائے، اس کی وجہ سے مذہبی آزادی کا بنیادی مقصد دھرا کا دھرا رہ گیا۔ وزارت نے ایک بار پھر کہا کہ دراصل ادارہ (کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی) ہی کو خصوصی تشویش کا باعث کہنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے : عید سے پوچھئے ناخوش تو نہیں ہے ہم سے
بات درست ہے اور ہمارا کہنا ہے کہ ہندوستان کو خود اس کمیشن کو رسمی طور پر تشویش کے دائرہ میں لے آنا چاہئے کیونکہ ہم بھی مانتے ہیں کہ ادارہ غیر جانبدار نہیں ہے۔ اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں ہی جانب کے لوگ اس میں شامل ہیں جو امریکی وزارت خارجہ کو صلاح مشورہ دیتے ہیں لیکن دیگر معاملات میں اس کی جانبداری کھلا راز ہے مثلاً اس کی رپورٹ میں غزہ کے قتل عام کا کوئی ذکر یا حوالہ نہیں ہے۔ فلسطینیوں بشمول عیسائیوں کے ساتھ اسرائیل کا نسل پرستانہ برتاؤ بھی اس میں جگہ نہیں پاسکا۔ ظاہر ہے کہ یہ اس لئے ہوا کہ اس کی وجہ سے امریکہ پر سوالات اُٹھتے۔
ہندوستان کیلئے بہتر تھا کہ وہ کمیشن کی رپورٹ میں اُٹھائے گئے سوالات کا باقاعدہ جواب دیتا۔ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں اس لئے جواب دیا جانا چاہئے مگر مشکل یہ ہے کہ ہماری مشرقی دُنیا میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ کون کہہ رہا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیں اس لئے بھی جواب دینا چاہئے تھا کہ یہ سمجھ لینا درست نہیں کہ جو لوگ رپورٹ تیار کررہے ہیں وہ سیاسی طور پر تحریک پاکر ایسا کررہے ہیں یا وہ جانبدار اور متعصب ہیں ۔